سچ خبریں:یوکرین جنگ کو چین کے لیے سبق بننا تھا اور چین کو تائیوان پر حملہ کرنے سے روکنا تھا، تاہم وہ امریکہ اور اس کے یورپی اتحادیوں کے لیے سبق بن گیا۔
بین الاقوامی واقعات کا پیٹرن بحران سے نمٹنے میں بہت اہم ہے،بہت سے بین الاقوامی تجزیہ کار جب کسی نئے بحران کا سامنا کرتے ہیں تو پرانے نمونوں کی بنیاد پر مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں،اگر دنیا میں دو سپر پاورز کے درمیان کچھ ہوتا ہے اور کشیدگی پیدا ہوتی ہے تو میڈیا، پریس اور تجزیہ کاروں کی طرف سے سرد جنگ کی اصطلاح ضرور سننے کو ملتی ہے، اگر کئی طاقتوں کے درمیان فوجی کشیدگی ہوتی ہے اور صورتحال بہت نازک نظر آتی ہے تو میڈیا اسے تیسری عالمی جنگ کا نام دیتا ہے نیز ملکوں کو پرہیز کرنے کی تلقین کی جاتی ہے۔
اگر کوئی ملک دیگر علاقائی طاقتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے علاقائی اتحاد میں شامل ہوتا ہے تو بین الاقوامی تعلقات کے ادب میں ہٹلر کے اتحاد کی اصطلاح یقینی طور پر دیکھی جاتی ہے، دہشت گردی کا کوئی بڑا واقعہ ہو تو اسے دوسرا نائن الیون کہا جاتا ہے،یوکرین کا بحران اپنی نوعیت کا کوئی انوکھا نہیں ہے جبکہ کچھ تجزیہ کار اسے دوسری خلیج فارس جنگ کے نام سے یاد کرتے ہیں جب صدام نے کویت کے تیل اور گیس کے وسائل تک رسائی حاصل کرنے کے لیے اس ملک پر فوجی حملہ کیا اور اس کے بعد اسے مغربی ممالک بالخصوص امریکہ کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا جس کی وجہ سے وہ یہ ملک چھوڑنے پر مجبور ہوا۔
یوکرین کا بحران اور اس ملک پر روس کا فوجی حملہ مغربیوں کے لیے خلیج فارس کی دوسری جنگ کی یاد زیادہ تازہ کرتا ہے اور وہ اس جنگ کی طرح اس میدان میں بھی فتح یاب ہونے کی امید رکھتے ہیں، تاہم واقعات اور عسکری رجحانات نے ایک مختلف شکل اختیار کر لی اور ظاہر کیا کہ نہ عراق روس ہے اور نہ یوکرین کویت نیز نہ ہی صدام کا دور ہے، یوکرین میں جنگ اس وقت عروج پر پہنچی جب چین اور تائیوان کے درمیان ایک عرصے سے تناؤ بڑھ رہا تھا،چین کی کمیونسٹ پارٹی نے گزشتہ سال یکم اکتوبر کو جب اس نے عوامی جمہوریہ چین کا قومی دن منایا تو اس کے تقریباً 100 فوجی طیاروں نے ایک شاندار فوجی مشق میں پرواز کی۔