سچ خبریں: اس میں کوئی شک نہیں کہ 4 روزہ عارضی جنگ بندی سے اسرائیلیوں کے جرائم اور زمینی حملے رک جائیں گے نیز ان کی پیش رفت کو مزید سنگین اور سماجی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
22 نومبر کی صبح اور غزہ کی پٹی پر صیہونیوں کے جنونی حملوں کے 47ویں دن میڈیا نے متحارب فریقوں کے درمیان 4 روزہ جنگ بندی کے معاہدے کا اعلان کیا،مزید یہ کہ حماس نے اس معاہدے کی شرائط کا اعلان کیا جس کے مطابق دونوں طرف سے جھڑپیں، غزہ کے تمام علاقوں میں صیہونی حکومت کی فوج کی عسکری سرگرمیاں اور غزہ میں اس حکومت کی بکتر بند گاڑیوں کی نقل و حرکت روک دی جائے گی۔
یہ بھی پڑھیں: عارضی جنگ بندی جنگ کو روکنے کے لیے اہم سمجھوتہ
اس معاہدے کے مطابق انسانی امداد، طبی امداد اور ایندھن لے جانے والے سینکڑوں خصوصی ٹرک بغیر کسی استثناء کے غزہ کے تمام علاقوں میں داخل ہوں گے،حماس نے مزید کہا کہ اسیری کے ریکارڈ کی بنیاد پر 150 فلسطینی خواتین اور 19 سال سے کم عمر کے بچوں کے بدلہ میں 50 اسرائیلی خواتین اور 19 سال سے کم عمر کے بچوں کو رہا کیا جائے گا، اس معاہدے میں کہا گیا ہے کہ جنگ بندی کے چار دنوں کے دوران جنوبی غزہ اور شمالی غزہ میں صبح 10 بجے سے شام 4 بجے تک 6 گھنٹے کے لیے صیہونی حکومت کے جنگی طیاروں کے حملے اور پروازیں روک دی جائیں گی،حماس نے اس بات پر زور دیا ہے کہ جنگ بندی کی مدت کے دوران، قابض حکومت نے غزہ کی پٹی کے تمام علاقوں میں کسی پر حملہ یا حملہ نہ کرنے کا عہد کیا ہے اور لوگوں کو غزہ کے شمال سے جنوب کی طرف صلاح الدین اسٹریٹ سے گزرنے کی آزادی ہوگی۔
اسرائیل نے جنگ بندی کیوں قبول کی؟
حالیہ دنوں میں نیتن یاہو اور اسرائیل کے وزیر جنگ گیلنٹ نے بارہا اپنے موقف کا اعلان کیا کہ وہ اپنے مقاصد کے حصول تک جنگ بندی قبول نہیں کریں گے، یعنی حماس کے پاس قید تمام صیہونی قیدیوں کو واپس لائیں گے اور غزہ میں اس تحریک کو تباہ کر دیں گے،یہاں تک کہ 12 بار انہوں نے امریکیوں کے کردار کے ساتھ ثالثوں کی طرف سے پیش کردہ معاہدوں کو مسترد کر دیا،عبرانی اخبار ہارٹیز نے جنگ بندی کے بعد اس حوالے سے لکھا کہ نیتن یاہو رائے عامہ کے دباؤ کی وجہ سے وہی معاہدہ قبول کرنے پر مجبور ہو گئے جسے انہوں نے مسترد کر دیا تھا!
البتہ یاد رہے کہ اس میں کچھ اور وجوہات بھی ہیں جن میں جرائم کی مقدار سے متاثر ہونے والا بین الاقوامی دباؤ، لبنان، یمن اور عراق میں مزاحمتی محاذوں کے دباؤ میں شدت نیزغیر ملکی اور امریکی شہریت والے قیدیوں رہائی کے لیے امریکیوں کا دباؤ بھی جنگ بندی کو قبول کرنے اور اس پر عمل درآمد کے لیے نیتن یاہو کے ہتھیار ڈالنے میں کافی اثرانداز ہے۔
پہلے ردعمل میں، بائیڈن نے کہا کہ یہ معاہدہ مزید امریکی یرغمالیوں کو ملک میں واپس کر دے گا،حماس کے لیڈر ابو مرزوق کے بیان کے ساتھ، جس میں کہا گیا تھا کہ 50 اسرائیلی قیدیوں میں سے زیادہ تر کے پاس غیر ملکی شہریت ہے،اس بیان کا سامنے آنا یہ ثابت کرتا ہے کہ نیتن یاہو کی جانب سے جنگ بندی کی منظوری میں امریکی دباؤ کا جزو غیر موثر نہیں رہا۔
نیتن یاہو یہاں تک کہ صیہونی حکومت کی فوجی ٹیم بھی اچھی طرح جانتی ہے کہ صیہونی قیدیوں کی رہائی کے سوا جنگ بندی سے انہیں کچھ حاصل نہیں ہوا اس لیے انھوں نے حماس کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرنے اور غزہ کے عوام کو شمال سے نکلنے پر مجبور کرنے کے لیے اپنے بزدلانہ حملے جاری رکھنے کو ترجیح دی۔
واضح رہے کہ صیہونی حکومت کی کابینہ کے تمام وزراء نے سوائے یہودی پاور پارٹی کے تین وزراء جس کی سربراہی اِتمار بن گوئر کر رہے ہیں، نے قیدیوں کے تبادلے اور عارضی جنگ بندی کے منصوبے کے حق میں ووٹ دیا۔
صیہونی حکومت کی داخلی سلامتی کے وزیر اِتمار بن گوئر نے کہا کہ میں بہت پریشان ہوں کیونکہ وہ (جنگی کابینہ کا حوالہ دیتے ہوئے) اس وقت ایک معاہدے کی بات کر رہے ہیں،ہم ایک بار پھر تقسیم کا مشاہدہ کر رہے ہیں،وہ ایک بار پھر ہم سے حقیقت چھپا رہے ہیں اور ایک بار پھر ہمیں نظر انداز کر رہے ہیں جبکہ اسرائیلی حکومت ایک بار پھر بہت بڑی غلطی کر رہی ہے،یہ غلطی 2011 میں گیلاد شالیت کے تبادلے کے معاہدے کی طرز پر کی جا رہی ہے جس کی وجہ سے غزہ میں حماس کے رہنما یحییٰ سنوار کو رہا کیا گیا تھا، اسی طرح اس وقت بھی قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ نہایت ہی برا ہے اس لیے کہ قیدیوں کے تبادلے کا کوئی بھی معاہدہ تباہی ہے اور صیہونی کابینہ کی حماقت کی علامت ہے!
جنگ بندی، حماس کے لیے ایک موقع
لیکن دوسری طرف حماس اور مزاحمت کے لیے بھی 4 روزہ جنگ بندی، جو فلسطینی خواتین اور بچوں کی رہائی کے ساتھ ہے، بہت سے فوائد کا حامل ہو سکتا ہے۔
حماس اور مزاحمت کے محور نے اپنے آپ کو ایک طویل المدتی جنگ کے لیے تیار کیا ہے اور اس عظیم جرم کو برداشت کرنے کے لیے انھیں غزہ میں مقیم 23 لاکھ فلسطینیوں ، خاص طور پر شمالی غزہ میں 800000 فلسطینیوں کی انسانی اور سماجی ضروریات کو پورا کرنے کی ضرورت ہے۔
اگر جنگ بندی کی مدت کے دوران انسانی اور خوراک کی امداد کی مقدار نمایاں رہی تو اس سے غزہ کے عوام یہاں تک کہ القسام کی افواج کے لیے لڑائی کے کچھ مسائل حل ہو سکتے ہیں اور مزاحمت کے امکانات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
دوسری طرف یہ جنگ بندی کے ایام حماس کو سانس لینے یہاں تک کہ اپنے فوجی اور حفاظتی انتظامات کو تبدیل کرنے کا موقع فراہم کریں گے،عبرانی اخبار یدیوت احرونٹ نے لکھا کہ معاہدے کے مطابق غزہ میں اسرائیلی فوج کے ڈرونز کا آپریشن ممنوع ہے جس کا کوئی متبادل نہیں ہے۔
نتیجہ
4 دن کی عارضی جنگ بندی میں اسرائیلیوں کے جرائم اور زمینی حملوں کو روکنے کے ساتھ ساتھ، ان کی پیشرفت کو مزید سنگین اور سماجی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑے گا،ابھی جنگ بندی شروع بھی نہیں ہوئی کہ میڈیا اور بعض حکام کا کہنا تھا کہ مزید صہیونی قیدیوں کی رہائی کے بدلے جنگ بندی میں توسیع نیتن یاہو کی کابینہ کے لیے دوبارہ جنگ میں واپسی کی راہ میں حائل سماجی رکاوٹوں کی ایک مثال ہے۔
مزید پڑھیں: امریکہ کو غزہ میں عارضی جنگ بندی پر تشویش کیوں ہے ؟
عارضی جنگ بندی نیتن یاہو کے لیے 47 دنوں کے بعد رائے عامہ کی میز پر، قیدیوں کی رہائی، ایک غیر متاثر کن کامیابی کو پیش کرنے کا بونس ہے لیکن یہ عارضی اور چھوٹی کامیابی مستقبل میں اس کے لیے بہت سنگین رکاوٹیں کھڑی کرے گی نیز یہ حماس کے لیے خود کو تازہ دم کرنے اور غزہ کے لوگوں کی کچھ سماجی اور انسانی ضروریات کو پورا کرنے کا موقع ہے۔