سچ خبریں: پاکستان میں ’غداری‘ کے الزامات عائد کرنا ایک عام معمول بن چکا ہے۔ اگر کسی کی رائے یا مؤقف آپ سے مختلف ہو تو فوراً اس پر غداری کا الزام عائد کر دیا جاتا ہے۔
حالیہ دنوں میں اسلام آباد، کراچی اور کوئٹہ میں صحافیوں، سیاسی اور سماجی رہنماؤں کے خلاف غداری کے الزامات والے بینرز آویزاں کیے گئے ہیں۔
کچھ عرصے بعد یہ بینرز غائب ہو گئے، مگر یہ واضح نہیں کہ انہیں انتظامیہ نے ہٹایا یا یہ صرف پیغام دینے کے لیے لگائے گئے تھے۔
اسلام آباد میں کوئی بھی بینر یا بورڈ آویزاں کرنے کے لیے سی ڈی اے کے شعبہ ڈی ایم اے سے اجازت لینی ہوتی ہے۔ لیکن محکمہ کے اہلکاروں کے مطابق، انہوں نے یہ بینرز نہ تو لگائے اور نہ ہی ہٹائے۔
یہ بھی پڑھیں: ’کیا ایک ہیڈ کانسٹیبل کے بیان پر سابق وزیراعظم کو غدار مان لیں؟‘
کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کے محکمہ ڈائریکٹوریٹ آف میونسپل ایڈمنسٹریشن (ڈی ایم اے) کی سربراہ ڈاکٹر ثانیہ نے بی بی سی کے نامہ نگار شہزاد ملک کو بتایا کہ ’غدار وطن‘ کے بل بورڈز جو اسلام آباد کے سیکٹر ایف 10 میں لگائے گئے تھے، ان کے بارے میں ڈی ایم اے سے کوئی اجازت نامہ نہیں لیا گیا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ نہ تو ڈی ایم اے نے یہ بورڈز لگانے کی اجازت دی اور نہ ہی ان کی اجازت سے ہٹائے گئے ہیں۔
ڈاکٹر ثانیہ نے کہا کہ اس ضمن میں ایک محکمانہ انکوائری بھی چل رہی ہے جس میں ڈائریکٹوریٹ کی جانب سے یہ مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ اس طرح کے بل بورڈز لگانے کے بارے میں کوئی علم نہیں۔
ڈی ایم اے کے ایک اہلکار نے بتایا کہ کسی بھی عمارت پر بل بورڈ لگانے کے لیے اس عمارت کا مالک سی ڈی اے سے اجازت لے کر اس کا ڈھانچہ تیار کرتا ہے اور جس کا ٹیکس بھی سی ڈی اے کو ادا کرتا ہے،بعد ازاں، اس عمارت کا مالک اشتہار لگانے والے سے خود ڈیل کرتا ہے اور اس میں سی ڈی اے کا کوئی لینا دینا نہیں ہوتا۔
انہوں نے مزید کہا کہ وفاقی دارالحکومت میں سٹریٹ لائٹ کے کھمبوں پر جو بینرز آویزاں کیے جاتے ہیں، ان میں ڈی ایم اے کی اجازت شامل ہوتی ہے اور ایسے بینرز کے نیچے ڈی ایم اے کا نمبر بھی آویزاں ہوتا ہے جو درخواست گزار کو آلاٹ کیا جاتا ہے۔
عارف علوی اور قاسم سوری کے خلاف غداری کا معاملہ فی الحال مؤخر کر دیا گیا ہے،بدھ کے روز وفاقی کابینہ کے اجلاس میں یہ خبریں سامنے آئیں کہ سابق صدر مملکت عارف علوی اور سابق ڈپٹی سپیکر قاسم سوری پر آرٹیکل چھ کے تحت غداری کے الزامات کو ابھی زیر غور نہیں لایا جائے گا۔
یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ انہوں نے تحریک عدم اعتماد کے باوجود ایک آئینی عمل میں مداخلت کی اور قومی اسمبلی کو تحلیل کر دیا۔ تاہم، پاکستان میں کسی کو غدار قرار دینا کوئی نئی بات نہیں ہے، ماضی میں بھی ایسے واقعات پیش آتے رہے ہیں۔
اکتوبر 2020 میں، قومی اسمبلی کے سپیکر ایاز صادق کے خلاف لاہور شہر میں راتوں رات بینرز آویزاں کیے گئے جب انہوں نے انڈین پائلٹ ابھینندن کی رہائی سے متعلق ایک بیان دیا تھا، اس وقت تحریک انصاف کی حکومت تھی اور حکومتی وزراء کی نظر میں ایاز صادق ’غدار‘ تھے۔
اس وقت کے وزیر داخلہ بریگیڈئیر ریٹائرڈ اعجاز شاہ نے کہا تھا کہ ’پاک فوج کے خلاف بولنے والوں کو امرتسر (انڈیا) چلا جانا چاہیے۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’ایاز صادق کے خلاف اسلام آباد اور لاہور میں آرٹیکل چھ (سنگین غداری) کے تحت درخواستیں موصول ہوئی ہیں جنہیں قانونی مشاورت کے لیے بھیج دیا گیا ہے۔‘
پاکستان کے آئین میں آرٹیکل چھ سنگین غداری سے متعلق ہے، مگر کسی کو غدار قرار دینے کے لیے ایک مکمل عمل موجود ہے، ماضی میں، سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے خلاف اس آرٹیکل کے تحت کارروائی کی گئی تھی اور خصوصی عدالت نے ان پر سنگین غداری کی فرد جرم عائد کی تھی، جس کے بعد انہیں سزائے موت سنائی گئی تھی۔
آئینِ پاکستان کے تحت غداری کا تعین کرنے اور اس کے خلاف کارروائی کا حق کس کو حاصل ہے؟ آئینِ پاکستان کا آرٹیکل 6 کہتا ہے کہ ’ہر وہ شخص غدار ہے جو طاقت کے استعمال یا کسی بھی غیر آئینی طریقے سے آئینِ پاکستان کو منسوخ، تحلیل، معطل یا عارضی طور پر بھی معطل کرتا ہے یا ایسا کرنے کی کوشش کرتا ہے یا سازش میں شریک ہوتا ہے۔‘
یہ تعریف 1973 کے آئین میں پہلی بار استعمال ہوئی اور بعد میں اٹھارویں ترمیم کے بعد اس میں تبدیلی کی گئی۔ نئے اضافے کے مطابق، آئین کو معطل یا عارضی طور پر معطل کرنے والا شخص یا اس کی مدد کرنے والا شخص بھی غدار ہو گا۔
کیا یہ غداری نہیں؟
بی بی سی نے گذشتہ چند برسوں میں مختلف قانونی ماہرین سے بات کی، جنہوں نے واضح کیا کہ ملکی مفاد کے خلاف کام کرنے والا شخص آئین کی غداری کی تعریف میں نہیں آتا۔
ایسا عمل ’قومی سلامتی‘ کے زمرے میں آتا ہے جس کی مختلف ذیلی دفعات ہو سکتی ہیں، جیسے ’فوج میں بغاوت کی ترغیب دینا، امن و عامہ کی صورتحال پیدا کرنا، اور دشمن ملک کے ساتھ مل کر سازش کرنا۔‘
ان ماہرین کے مطابق، جب تک یہ اقدامات آئین کو منسوخ کرنے تک نہ پہنچیں، ان پر آئین کا آرٹیکل چھ لاگو نہیں ہو سکتا۔
ماہرِ قانون اور حالیہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج بابر ستار بھی اس سے متفق ہیں۔ مئی 2018 میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ غداری کے آئینی تصور کا تعلق آئینی معطلی سے ہے، یعنی اگر آئین کو معطل یا منسوخ کیا جائے۔
بابر ستار نے وضاحت کی کہ 1973 کے آئین میں غداری کا تصور شامل کیا گیا تھا کیونکہ اس سے قبل فوجی حکومتیں آتی رہی تھیں۔ اس میں یہ شق بھی شامل کی گئی کہ کوئی عدالت غداری کے فعل کی تصدیق نہیں کرے گی۔
بابر ستار کے مطابق، غداری کا یہ آئینی تصور انتہائی احتیاط سے ترتیب دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’ہمارا جو اکثر یہ خیال ہوتا ہے کہ اگر کسی ادارے کے خلاف کوئی بات کر دیں تو وہ غداری کے زمرے میں آ جائے گا، یہ درست نہیں ہے۔‘
غدار کون قرار دے گا؟
ماہرین کے مطابق غداری کا تعین کرنا اور اس کے خلاف کارروائی کا آغاز کرنا صرف اور صرف وفاقی حکومت کا اختیار ہے۔ تحقیقات کے بعد وفاقی حکومت شکایت کا آغاز کرتی ہے۔
غداری کی کارروائی کا آغاز وزیر داخلہ کر سکتے ہیں، تاہم حتمی فیصلہ وزیر اعظم اور ان کی وفاقی کابینہ کرتی ہے۔ پرویز مشرف کے خلاف بھی اسی طریقے سے مقدمہ قائم کیا گیا تھا۔
بابر ستار نے غداری کے مقدمے کی کارروائی کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ 1973 کے آئین میں غداری کا تصور شامل کرنے کے بعد ایک قانون بنایا گیا جس میں کہا گیا کہ وفاقی حکومت یہ فیصلہ کرے گی کہ کوئی غداری کا مرتکب ٹھہرا یا نہیں۔
اس کے بعد ایک خصوصی عدالت تشکیل دی جائے گی جو اس کے خلاف مقدمہ کی کارروائی کا آغاز کرے گی، جیسا کہ سابق صدر پرویز مشرف کے مقدمے میں دیکھا گیا۔
غدار کیسے ثابت ہو گا؟
بابر ستار کہتے ہیں کہ یہ ایک فوجداری مقدمہ ہوتا ہے جس کی سزا موت یا عمر قید ہے، تو اس میں اسی طرز کی شہادتیں اور گواہان درکار ہوتے ہیں۔ ان کے مطابق، اسی طرح بارِ ثبوت بھی الزام لگانے والے یعنی حکومت پر ہوتا ہے۔
غداری کے آئینی تصور کی صورت میں ثبوت سامنے ہوتے ہیں۔ اگر آنے والی حکومت نے جانے والی حکومت کا تختہ آئینی طریقے سے نہ الٹایا ہو، تو اس کا مطلب ہے کہ آئین تحلیل ہوا۔
دوسرا یہ کہ جب وہ حکومت میں آئیں اور کہیں کہ ہم نے آئین تحلیل کر دیا، تو یہ دوسری شہادت ہوتی ہے۔
آئین تحلیل کرنے والے کے خلاف اس کے اعمال کی بنیاد پر بہت سی مثالیں موجود ہوتی ہیں، جیسے کہ کبھی مارشل لا لگایا جاتا ہے یا کبھی ایمرجنسی نافذ کی جاتی ہے۔