سچ خبریں:ترکی میں آنے والے حالیہ زلزلے کی صورتحال کا مختلف منظرناموں کی بنیاد پر اندازہ اس طرح لگایا جا سکتا ہے کہ یہ زلزلہ اردگان کے سیاسی مستقبل کے لیے فائدہ مند یا نقصان دہ ثابت ہو گا لیکن ہر صورت میں ہمیں یہ مان لینا چاہیے کہ زلزلہ آنے والے انتخابات کے نتائج کو متاثر کرے گا۔
ترکی کے خوفناک زلزلے کے دوران 25 ہزار شہریوں کی ہلاکت اور 85 ہزار سے زائد افراد کے زخمی ہونے کی خبریں اب بھی عالمی میڈیا کی سرخیوں میں ہیں،ترک میڈیا نے اس زلزلے کو صدی کی آفت قرار دیا ہے،یہ زلزلہ ایسی حالت میں آیا جب سرکاری کیلنڈر کے مطابق ترکی کے قومی انتخابات مئی میں ہونے والے تھے،لیکن اب یہ واضح نہیں ہے کہ حکومت ان مشکل حالات میں انتخابات کروا پائے گی ، اس وقت جبکہ اس وقت اردگان پر تنقید کا دائرہ بتدریج بڑھ گیا ہے، بعض ذرائع ابلاغ نے اعلان کیا ہے کہ اردگان ، ان کی حکومت اور جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی میں شامل ان کی ٹیم کے سرکردہ ارکان نے مخلصانہ طرز عمل اور رویے کا مظاہرہ نہیں کیا اور اس کے علاوہ وہ اس نازک صورتحال کا مقابلہ کرنے میں کامیاب بھی نہیں ہو سکے۔
اردگان کی سیاسی زندگی اور 1999ء کا زلزلہ
1999 میں ترکی میں ایک خوفناک زلزلہ آیا جس سے اس ملک کے 18 ہزار سے زائد شہری ہلاک ہو گئے۔ استنبول کے قریب ازمیت بے، خود استنبول کا شہر، کوجا علی اور بورسا کا کچھ حصہ اور اس کے گردونواح کو اس زلزلے کے دوران نقصان پہنچا،اس وقت رجب طیب اردگان، جو اس کے کچھ ہی عرصے بعد استنبول کے میئر کا عہدہ کھو چکے تھے، اسلامی ورچو پارٹی کے رکن تھے اور اپنے استاد نجم الدین اربکان کے ساتھ پارٹی اور سیاسی سرگرمیوں میں سرگرم تھے لیکن حکومت بلنت اجویت اور اس کے دو نائبین مسعود یلماز اور دولت باغچلی کے ہاتھ میں تھی،اتحاد کی صورت میں بنننے والی اس حکومت کی بنیاد پر کمزور تھی، معاشی بحران کا شکار بھی تھی اور زلزلہ زدگان کو امداد فراہم کرنا بہت سست اور مشکل تھا،اس وقت اردگان نے حکومت کے خلاف پرجوش تقریریں کیں جنہیں اب ترک صحافی پرانی ٹیپس آرکائیوز سے نکال کر انہیں للکار رہے ہیں۔
ترکی کے ایک مشہور صحافی فاتح الطائلی نے اردگان پر تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ کیا آپ کو یاد ہے کہ اردگان نے 1999 کے زلزلے کے دوران کیا کہا تھا؟، میں آپ کو یاد دلاتا ہوں، انہوں نے کہا تھا کہ آج زلزلہ آیا ہے، میں حکومت کو کمزور کرنے کے لیے کچھ نہیں کہوں گا! لیکن میری قوم الیکشن کے دن اور الیکشن کے موقع پر آپ کی نااہلی کا جواب دے گی،وہ دن آئے گا جب قوم کتابیں کھولے گی اور تم سے حساب کرے گی،انتظار کرو، الطائلی نے کہا کہ میں موجودہ حکومت کے بارے میں یہی جملہ استعمال کرتا ہوں اور کہتا ہوں کہ انتخابات میں آپ کو عوام کی طرف سے واضح جواب ملے گا، انہوں نے کہا کہ مختلف منظرناموں کی بنیاد پر صورتحال کا اندازہ اس طرح لگایا جا سکتا ہے کہ یہ زلزلہ اردگان کے سیاسی مستقبل کے لیے فائدہ مند یا نقصان دہ سمجھا جائے گا۔ لیکن بہر صورت ہمیں یہ مان لینا چاہیے کہ زلزلہ آنے والے انتخابات کے نتائج کو متاثر کرے گا۔
زلزلے سے اردگان کو کیا فائدہ ہوا؟
جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کو پچھلے ادوار کی طرح فیصلے کرنے اور پیسہ بہانے کی عادت ہے،نتیجے کے طور پر، اب اردگان کے لیے موقع ہے کہ وہ جنوبی اور جنوب مشرقی صوبوں میں زیادہ پیسہ خرچ کریں اور قوم پرست قدامت پسند ترکوں اور کردوں کے ووٹوں کو اپنی پارٹی کی طرف راغب کرنے کی کوشش کریں۔ لیکن اس بار صورتحال بہت مختلف ہے۔ کیونکہ حالات مختلف ہیں اور ترکی کو ایسی صورت حال کا سامنا ہے:
1. کفگیر برتن کی تہہ تک پہنچ چکا ہے اور حکومت زلزلے سے پہلے معمول کے حالات میں بھی کرنٹ اکاؤنٹ خسارے، مالیاتی بحران، کرنسی کی کمی اور اس طرح کے دیگر مسائل کا سامنا کر رہی تھی اور نتیجتاً موجودہ مرحلے کے بعد زلزلہ اردگان کے حق میں ہو سکتا ہے اگر وہ قلیل مدت میں ترکی کی معیشت میں دسیوں ارب ڈالر لگا کر مہنگائی اور بحران کو ختم کر دیں، لیکن ایسا خیالی اور حقیقت پسندانہ منظر نامے میں بھی ممکن نہیں۔
2. اردگان اور ان کی پارٹی کے خلاف اپوزیشن جماعتوں کی تنقید عروج پر پہنچ چکی ہے اور اگر کل تک وہ صرف معاشی بحران اور حکومت اور حکمران جماعت کی مالیاتی پالیسی کی نا اہلی پر اٹکی ہوئی تھیں تو اب ایک زلزلہ بھی آ گیا ہے، وہ آسانی سے کہہ سکتے ہیں کہ زلزلہ زدگان کی دیکھ بھال نہیں ہوئی ہے لہذا اس حکومت کو جانا چاہیے۔
3. واحد منظر نامہ جس میں زلزلہ اردگان اور جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کے لیے کسی حد تک فائدہ مند ہو سکتا ہے اس طرح کے نعرے کو استعمال کرنے کی کوشش کرنا ہے کہ 7.8 شدت کا زلزلہ طاقتور ترین رہنماؤں اور جماعتوں کو بھی تباہ کر سکتا ہے!” اس لیے اردگان عام حالات میں نہیں بلکہ غیر متوقع واقعات میں ناکام ہوئے ہیں،یقیناً ایسی دلیل انتخابات میں شکست کے درد کو بھلانے کے لیے صرف شفا اور سکون بخش ہو سکتی ہے لیکن جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی نیز اس کے قائد کو ان کی سابقہ پوزیشن پر واپس نہیں لا سکتی۔
آخر میں یہ کہنا چاہیے کہ ترکی میں گزشتہ دہائیوں میں سیاسی سماجی صورتحال کا عمل ہمیشہ اس انداز میں رہا ہے کہ اس میں غیر متوقع امکانات اور حیرت کے اصول کی گنجائش تھی، اس کا مطلب یہ ہے کہ بعض اوقات ترک پارٹیوں اور ان کے حامیوں کی تحریک پیش گوئی کے اصولوں سے ہٹ کر کام کرتی ہے اور اس شعبے کے تجزیہ کاروں کو حیران کر دیتی ہے،تاہم، یہ بتانا کافی ہے کہ قدرتی حالات میں اور موجودہ شواہد کی بنیاد پر یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ہیروڈ ماریش کا عظیم زلزلہ جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی اور اردگان کی مقبولیت میں مسلسل کمی کا ایک اہم اور موثر عنصر ہے،یہ ترکی میں طاقت کے ڈھانچے کو تبدیل کرنے کی سمت میں ایک اہم محرک بن سکتا ہے۔