سچ خبریں: بائیڈن بخوبی جانتے ہیں کہ اگر فلسطینی حامی نوجوان یونیورسٹی کی سرحدوں کو عبور کر لیتے ہیں اور امریکہ میں ملک گیر مارچ شروع ہوجاتے ہیں تو ڈیموکریٹک بیلٹ کو شدید نقصان پہنچے گا۔
فلسطینیوں کی حمایت اور صیہونی حکومت کی جانب سے رفح پر حملے کی مہم کی مخالفت میں امریکہ بھر کی یونیورسٹیوں کا میدان میں اترنا علمی حلقوں اور ذرائع ابلاغ میں ایک بار پھر یہ سوال اٹھانے کا سبب بنا ہے کہ نوجوان نسل یا یوں کہا جائے z جنریشن ان کے باپ دادا کے برعکس فلسطین کی حمایت کیوں کرتی ہے اور بیت المقدس پر قبضہ کرنے والوں سے کوئی ہمدردی نہیں رکھتی؟ وہ افراد یا ادارے جو اسرائیلی لابیوں کے قریب ہیں یا وائٹ ہاؤس کی پالیسیوں کے مطابق طلباء و طالبات کے ان اجتماعات کو نئی نسل کے فریب کھانے اور انحراف کا نتیجہ سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں ، سیکورٹی فورسز سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ مزحمتی تحریک کے حامیوں کا مقابلہ کریں۔
یہ بھی پڑھیں: کیا امریکی دوسرے ممالک کو امداد بھیجنے پر راضی ہیں؟
امریکی ماہرین سماجیات کا خیال ہے کہ اسرائیل کی حمایت میں امریکیوں کی نئی اور پرانی نسل کے درمیان موجودہ خلیج عراق افغانستان جنگ کے نتائج، سیاہ فاموں کی حامی تحریک کے اثر و رسوخ میں اضافے، صیہونی حکومت کی انتہاپسندانہ پالیسیوں اور سوشل میڈیا پر فلسطینی شہریوں کی تصاویر کی اشاعت وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔
اس تجزیے میں ہم امریکی یونیورسٹیوں میں پیش آنے والی تازہ ترین صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے امریکہ میں نوجوان نسل کے اسرائیل مخالف رجحانات کا جائزہ لینے کی کوشش کریں گے، آج فلسطینی عوام کے ساتھ امریکیوں کی نئی نسل کی یکجہتی کا ایک اہم ترین مظہر امریکہ کے قلب میں طلباء کے مظاہرے ہیں۔
کولمبیا، براؤن، ایمرسن، ہارورڈ، جارج واشنگٹن، نیو یارک، فلوریڈا، ایموری، اوہائیو، رائس، میساچوسٹس، مشگیان، ییل، ٹیکساس وغیرہ کے طلباء نے باقی امریکی معاشرے کے ساتھ مل کر غزہ میں نسل کشی کے خاتمے اور صیہونی حکومت کے غزہ میں فوجی کارروائیوں نیز رفح پر حملہ کرنے سے باز رہنے کا مطالبہ کیا۔
ان اجتماعات میں شریک لوگوں میں مسلمانوں کے علاوہ عرب امریکیوں، سیاہ فاموں؛ امریکہ کی نوجوان اور سفید فام نسل کو بھی دیکھا جا سکتا ہے جو اپنے باپ دادا کے برعکس ثالثی کے بغیر سچائی کی پیروی کرتے ہیں اور مقبوضہ فلسطین میں حکمران نسلی امتیاز کے خلاف ہیں۔
ان طلباء کے اجتماعات میں ایک دلچسپ نکتہ جس پر غور کیا جانا چاہیے وہ فلسطین؛ یہ دریا سے سمندر تک جیسے روایتی معیارات اور نعروں کا دہرایا جانا ہے ۔
امریکہ میں "Z” نسل کا مزاحمت کے بنیادی نعروں کی طرف موڑنا ان کے مغربی کنارے میں تقریباً تین دہائیوں پر محیط غیر قانونی اسرائیلی بستیوں، فلسطینی شہریوں کی من مانی گرفتاری اور غزہ کی پٹی پر صیہونی فوج کے وقتاً فوقتاً حملوں کے بارے میں ان کے تجربے اور سوچ کا نتیجہ ہے۔
ایسی نسل بنیادی طور پر 20ویں صدی کے نوے کی دہائی میں اوسلو یا میڈرڈ کے امن مذاکرات میں صیہونیوں کی منافقانہ اور فریبی کوششوں کے بارے میں کوئی ذہنیت نہیں رکھ سکتی۔
1996 سے دنیا کو دیکھنے والے نوجوان وہ لوگ ہیں جنہوں سیاست دانوں کی تقاریر میں نہیں بلکہ فیس بک، ایکس (سابقہ ٹویٹر) یا ٹک ٹاک جیسے سوشل میڈیا پر ویڈیوز اور دستاویزی تصاویر دیکھ کر حقیقت جاننے کی کوشش کرتے ہیں، واشنگٹن پوسٹ نے فرانسس وِنال کے لکھے گئے ایک تجزیے میں اس مسئلے پر بات کی ہے کہ نئی نسل درمیانی عمر کے امریکیوں کے مقابلے فلسطین کی زیادہ حمایت کیوں کر رہی ہے۔
اس تجزیے میں YouGov کے سروے کا حوالہ دیتے ہوئے یہ نکتہ پیش کیا گیا ہے کہ 18 سے 29 سال کی عمر کے نوجوان 64 سال سے زیادہ عمر کے لوگوں کے برعکس فلسطینی عوام کے ساتھ زیادہ ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں، لاکھوں ٹن ملبے کے نیچے سے عام عورتوں اور بچوں کی لاشوں اور زخمیوں کو نکالتے دیکھنا ایسی چیز نہیں ہے جس پر مغربی نوجوان آسانی سے قابو پا سکیں۔
ایک اور سروے میں این بی سی نے اپنے سامعین سے پوچھا کہ وہ اسرائیل کے بارے میں کیسا محسوس کرتے ہیں اور کیا وہ غزہ کی پٹی کے خلاف اس حکومت کی فوجی کاروائی کو جائز سمجھتے ہیں یا نہیں۔ 65 سال اور اس سے زائد عمر کے شرکاء میں سے 64 فیصد نے کہا کہ وہ صیہونی حکومت کے تئیں مثبت جذبات رکھتے ہیں۔
دریں اثنا یہ تعداد 18 سے 34 سال کی عمر کے لوگوں میں 26 فیصد تک کم ہو جاتی ہے! اس کے علاوہ 18 سے 34 سال کی عمر کے 42 فیصد لوگوں نے غزہ پر اسرائیل کے حملے کی مذمت کی اور ان کا خیال ہے کہ تل ابیب نے فلسطینیوں کے خلاف بہت زیادہ کارروائی کی۔
امریکہ میں نئی نسل کے خیالات اور آراء کو تبدیل کرنے کی بنیادوں میں سے ایک خبروں اور معلومات کا میڈیا سے میڈیا میں منتقل ہونا ہے، اس سے پہلے سرمایہ دار اور بڑی حکومتیں پریس اور سمعی و بصری میڈیا کو کنٹرول کرکے رائے عامہ کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرتے تھے۔
تاہم اس وقت سوشل میڈیا نے وقت اور جگہ کی حدود اور طاقت اور دولت پر مبنی معمول کے فلٹرز کو ہٹا کر "Z” نسل کو مختلف بیانیوں کو دیکھ کر اور سن کر سچائی کے قریب ہونے کا انتخاب کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔
پیو انسٹی ٹیوٹ کے ایک سروے کے مطابق 2023 میں 18 سے 29 سال کی عمر کے تقریباً 70 فیصد امریکی خبریں حاصل کرنے کے لیے سوشل میڈیا کا رخ کریں گے، سرمایہ داری کے قلب میں صارفیت اور بے مقصد زندگی کی بمباری میں گھرے یہ نوجوان دنیا کے موجودہ حقائق کی چھوٹی چھوٹی نشانیوں کو قبول کرنے اور اپنے دوستوں سے متعارف کرانے کی کوشش کرتے ہیں۔
شاید اسی وجہ سے سوشل میڈیا ٹک ٹاک میں نئی نسل کی دلچسپی کے جواب میں امریکی قانون ساز چینی حکومت کے ساتھ اس کمپنی کے انٹیلی جنس تعاون کے بہانے اس کی سرگرمی کو روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اس نئے رجحان کی تشکیل کی ایک واضح مثال "میں سانس نہیں لے سکتا” تحریک کی مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں رہنے والے فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی ہے، جو امریکی نوجوان نسل کی گہری سوچ کی علامتوں میں سے ایک ہے۔
امریکہ میں 18 سے 30 سال کی عمر کے نوجوانوں کو یقین ہے کہ واشنگٹن سیاہ فاموں کے حقوق کو نظر انداز کرتا ہے ،امریکی پولیس سیاہ فاموں کے ساتھ انتہائی سختی سے پیش آتی ہے، مقبوضہ فلسطین میں فلسطینیوں کے ساتھ معاشرے میں دوسرے درجے کے شہریوں جیسا سلوک کیا جاتا ہے اور صیہونی حکومت کو اس علاقے کے مقامی باشندوں کو قید کرنے یا قتل کرنے کا کوئی خوف نہیں ہے۔
خلاصہ
اسلامی جمہوریہ ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ خامنہ ای نے جب اپنے خط میں مغربی نوجوانوں کے بیدار ضمیروں کو مخاطب کیا تو بہت کم لوگوں نے سوچا کہ چند سال بعد امریکی نوجوان اور مختلف گروہوں کے نوجوان فلسطین اور غزہ کی آزادی کا نعرہ لگائیں گے۔
مزید پڑھیں: امریکی نئی نسل کی بیداری اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے مستقبل پر اس کے اثرات
صیہونی حکومت کی طرف سے نازی جرمنی کی یونیورسٹیوں میں رائج ماحول کے ساتھ دنیا کی ممتاز ترین یونیورسٹیوں کے سیاسی ماحول کا موازنہ وائٹ ہاؤس کی پالیسیوں اور واشنگٹن کے سیاسی ماحول پر آزاد امریکی نوجوانوں کی طاقت اور اثر و رسوخ کو ظاہر کرتا ہے،بائیڈن بخوبی جانتے ہیں کہ اگر فلسطین کی حمایت کرنے والے نوجوان یونیورسٹی کی سرحدوں سے نکل جاتے ہیں اور امریکہ میں ملک گیر مارچ شروع ہوتے ہیں تو ڈیموکریٹس کے ووٹ کو شدید نقصان پہنچے گا اور ٹرمپ کی جیت کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔