🗓️
اسلام آباد: (سچ خبریں) سپریم کورٹ میں ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے خلاف صدارتی ریفرنس پر سماعت جاری ہے جس دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ ہماری عدالت بہت جمہوری ہے, ہم آپس میں اختلاف بھی کرتے ہیں۔
میڈیا کے مطابق چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں 9 رکنی لارجر بینچ مقدمے کی سماعت کر رہاہے، بینچ میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس منصور علی شاہ ، جسٹس یحیی آفریدی، جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔
عدالتی معاون منظور ملک نے عدالت میں دلائل کا آغاز کرتے ہوئے بتایا کہ مقدمے کا ریکارڈ 8 اگست 1977 کو دوبارہ تفتیش کے لیے لیا گیا، دوبارہ تحقیقات کے لیے مجسٹریٹ سے کوئی تحریری اجازت نہیں لی گئی، دستاویزات کے مطابق کیس کا ریکارڈ بعد میں لیا گیا اور تفتیش پہلے ہی دوبارہ شروع کر دی گئی تھی۔
عدالتی معاون کا کہنا تھا کہ 6 فروری 1979 کو سپریم کورٹ کے 7 رکنی بینچ نے بھٹو کی سزا کے خلاف اپیل پر سماعت کی تھی اور سپریم کورٹ نے ذوالفقار علی بھٹو اور شریک ملزم کی سزا برقرار رکھی تھی، احمد رضا قصوری کی درخواست پر ہی مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ قتل کی پہلی تفتیش بند کیسے ہوئی اور دوبارہ شروع کیسے ہوئی یہ اہم ہے، پہلے تفتیش بند کرتے ہوئے کہا گیا ملزمان کا کچھ پتہ نہ چلا، پولیس نے مجسٹریٹ سے کیس داخل دفتر کرنے کی استدعا کی تھی مگر مجسٹریٹ نے پولیس کی کیس بند کرنے کی استدعا منظور کی، مجسٹریٹ نے کیس بند کرنے کا باقاعدہ آرڈر جاری کیا، مجسٹریٹ کے اس آرڈر کو کہیں چیلنج نہیں کیا گیا۔
منظور ملک کا کہنا تھا کہ مجسٹریٹ کا آرڈر آج تک برقرار ہے مگر ایف آئی اے نے الگ تفتیش کی اس پر چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ سپریم کورٹ نے اس معاملے پر کچھ نہیں کہا؟
عدالتی معاون نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ نے صرف لکھا ایف آئی اے نے الگ تفتیش کی، یہ صرف تعصب نہیں بلکہ بدیانتی تھی۔
عدالتی معاون کا مزید کہنا تھا کہ کہا گیا احمد رضا قصوری کو قتل کرنے کی سازش کی گئی مگر احمد رضا قصوری آج بھی زندہ ہیں، اللہ انہیں لمبی زندگی دے، سیشن جج اعجاز نثار نے پبلک پراسیکیوٹر سے معاملے پر رپورٹ مانگی تھی، اگلے ہی روز کیس ہائی کورٹ کو منتقل ہو گیا۔
چیف جسٹس نے عدالتی معاون جسٹس (ر) منظور ملک سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ میرا خیال ہےآپ تو آج تمام ٹی وی چینلز کی ریٹنگز بریک کر رہے ہیں، سنسنی اور سسپنس کی وجہ سے ہمیں انتظار رہتا ہے آپ آگے کیا کہنے والے ہیں۔
عدالتی معاون نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے تعصب کا الزام لگایا تھا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ وہ تو ایک جج کی حد تک ہی الزام تھا، اس پر منظور ملک نے کہا کہ ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں، جب چیف جسٹس کو کہہ دیا جائے تو باقی سب شامل ہو ہی جائیں گے۔
جسٹس سردار طارق مسعود نے عدالتی معاون سے دریافت کیا کہ آپ کس کو کہہ رہے ہیں؟ اس پر منظور ملک نے بتایا کہ یہ میں تو نہیں کہہ رہا جس نے محاورہ بنایا اس نے کہا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہماری عدالت بہت جمہوری ہے ہم آپس میں اختلاف بھی کرتے ہیں، عدالتی معاون نے جواب دیا کہ یہ تو بہت صحتمندانہ چیز ہے، اختلاف کرنے کا مطلب ہے آپ زندہ ہیں۔
اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ جو اختلاف کرتا ہے وہ ہاتھی کے پاؤں سے نکل جاتاہے۔
بعد ازاں جسٹس قاضی فائز عیسی کا کہنا تھا کہ آپ کافی دیر سے کھڑے ہیں تھوڑا وقفہ کر لیں یا چلیں پہلے جو کیس ٹرانسفر والا نکتہ ہے وہ مکمل کر لیں۔
بعد ازاں عدالت نے ذوالفقار علی بھٹو پھانسی کے خلاف صدارتی ریفرنس کی سماعت میں 2:30 بجے تک وقفہ کردیا۔
یاد رہے کہ گزشتہ روز سپریم کورٹ میں سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے خلاف صدارتی ریفرنس پر سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے کہا تھا کہ میرے خیال میں عدالت بھٹو کیس کو صرف ٹرائل شفاف ہونے کی حد تک دیکھ سکتی ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ صدارتی ریفرنس پر رائے دینے کا پابند ہے، جج کے سامنے دو ہی سوال ہوتے ہیں کہ جرم ہوا یا نہیں۔
چیف جسٹس نے بتایا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کیس تاریخ کا وہ واحد فوجداری فیصلہ ہے جو 935 طویل صفحات پر مشتمل ہے،کیا کبھی اس سے بھی طویل فوجداری فیصلہ لکھا گیا ہے تو بتائیں؟
گزشتہ روز ہونے والی سماعت میں عدالتی معاون بیرسٹر صلاح الدین اور خالد جاوید خان کے دلائل مکمل ہوگئے تھے، بعد ازاں عدالت نے سماعت 27 فروری تک مکتوی کردی تھی۔
واضح رہے کہ 20 فروری کو سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے خلاف صدارتی ریفرنس کی سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ اس کیس میں اصل سوال یہ ہے کہ کیا عدالتی کارروائی میں طریقہ کار درست اپنایا گیا یا نہیں؟
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہمارا اختیار سماعت بالکل واضح ہے، 2 مرتبہ نظرثانی نہیں ہو سکتی ہے، ہم اس کیس میں لکیر کیسے کھینچ سکتے ہیں؟
انہوں نے دریافت کیا کہ کیا اس کیس میں تعصب کا سوال ہے یا غلط فیصلہ کرنے کو تسلیم کرنا ہے؟
عدالتی معاون نے دلیل دی کہ ایک جج نے انٹرویو میں کہا کہ ان پر دباؤ تھا جس پر قاضی فائز عیسی نے کہا کہ انہوں نے یہ تو نہیں کہا کہ میں تعصب کا شکار تھا، اگر میں دباؤ برداشت نہیں کر سکتا تو مجھے عدالتی بینچ سے الگ ہو جانا چاہیے، ایک شخص کہہ سکتا کہ کوئی تعصب کا شکار ہے لیکن ہو سکتا ہے کہ دوسرا یہ رائے نہ رکھے۔
مخدوم علی خان نے جسٹس نسیم حسن شاہ کے انٹرویو سے متعلق دلائل دیتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ تعصب کو ثابت کرنا تقریبا ناممکن ہے۔
مشہور خبریں۔
روسی پارلیمانی انتخابات میں مغرب نوازوں کی شکست
🗓️ 21 ستمبر 2021سچ خبریں:روسی صدر کی قریبی پارٹی نے اس ملک کے پارلیمانی انتخابات
ستمبر
عرب نوجوان کن ممالک کو مضبوط اتحادی سمجھتے ہیں؟
🗓️ 14 اگست 2023سچ خبریں: متحدہ عرب امارات میں مقیم ایک کمپنی کی جانب سے
اگست
حزب اللہ کے راکٹ کریات شمعون تک پہنچ گئے تو کیا ہوگا؟سابق صیہونی وزیر کی زبانی
🗓️ 20 جنوری 2024سچ خبریں: غزہ کی پٹی کے خلاف صیہونی حکومت کے حملے کو
جنوری
سعودی عرب میں CoVID-19 کا روزانہ کا ریکارڈ ٹوٹا
🗓️ 12 جنوری 2022سچ خبریں: خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق وزارت صحت کے اعداد
جنوری
تیسری عالمی جنگ کون شروع کرے گا؟
🗓️ 13 جولائی 2023سچ خبریں: سابق امریکی صدر نے اس ملک کی موجودہ حکومت کو
جولائی
برطانیہ میں توانائی کی قیمتوں میں اضافہ
🗓️ 14 مئی 2022سچ خبریں:برٹش الیکٹرسٹی سپلائی کمپنی کے ڈائریکٹر نے کہا کہ یوکرین کے
مئی
ملتان میں بھی کورونا ویکسین کی قلت پیدا ہوگئی
🗓️ 19 جون 2021لاہور(سچ خبریں) ملتان میں بھی کورونا ویکسی نیشن سینٹر پر ویکسین کی
جون
اتحادی حکومت کی جانب سے آئین کی خلاف ورزی کی مذمت کرتا ہوں
🗓️ 17 اپریل 2023اسلام آباد: (سچ خبریں) سابق چئیرمین سینیٹ رضا ربانی کا کہنا ہے
اپریل