کراچی: (سچ خبریں) نگران حکومت نے اسپیشل انویسٹمنٹ اینڈ فیسیلیٹیشن کونسل (اے سی سی) کے 306 کلومیٹر طویل حیدر آباد سکھر (ایم-6) موٹر وے کا معاہدہ ختم کرکے منصوبے کی لاگت میں 100 فیصد سے زائد اضافہ کردیا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹس کے مطابق ٹیکنو، اے سی سی اور سی ایم سی کے مشترکہ منصوبے نے اپنے فنڈز استعمال کرتے ہوئے اس منصوبے میں 300 ارب روپے سے زائد کی سرمایہ کاری کی تھی، وہ ختم شدہ معاہدے کے تحت نیشنل ہائی وے اتھارٹی سے وائبلٹی گیپ فنڈنگ میں 9.5 بلین روپے کی مالی امداد کی درخواست کر رہے تھے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ حال ہی میں معاہدہ ختم کرنے کے بعد، نیشنل ہائی وے اتھارٹی نے وائبلٹی گیپ فنڈنگ کو چھوڑ کر کل 400 ارب روپے کے منصوبے کے لیے نظرثانی شدہ لاگت کا تخمینہ فراہم کیا ہے، انہوں نے اسپیشل انویسٹمنٹ اینڈ فیسیلیٹیشن کونسل سے کہا ہے کہ وہ اس منصوبے کے لیے مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو راغب کرے۔
وائبلٹی گیپ فنڈنگ (جو کہ نئے معاہدے کے تحت نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے ذریعے احاطہ کرے گا) 300 ارب روپے سے 400 ارب روپے تک ہو سکتا ہے، جس سے منصوبے کی کل لاگت 700 ارب روپے تک بڑھ سکتی ہے۔
نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے ترجمان نے ڈان کو بتایا کہ ’ہم نے معاہدہ ختم کر دیا ہے اور اسپیشل انویسٹمنٹ اینڈ فیسیلیٹیشن کونسل کو 400 ارب روپے سے زیادہ کا نظرثانی شدہ تخمینہ فراہم کیا ہے۔‘
ترجمان نے اس بات کا ذکر نہیں کیا کہ نظرثانی شدہ لاگت میں نیشنل ہائی وے اتھارٹی کی طرف سے فراہم کیے جانے والے 300 ارب روپے سے 400 ارب روپے کے وائبلٹی گیپ فنڈنگ میں شامل نہیں ہیں۔
ایم 6 موٹروے پشاور اور کراچی کے درمیان اہم موٹر وے نیٹ ورک ہے جو ابھی تک نامکمل ہے۔
نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے ایک ریٹائرڈ عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ معاہدہ ختم کرنے سے، نیشنل ہائی وے اتھارٹی نے لاگت میں اضافے کی صورت میں قومی خزانے کو 300 سے400 ارب روپے سے زیادہ کے ناقابل برداشت نقصان کے امکانات کھول دیے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس منصوبے کی لاگت 700 ارب روپے تک بڑھ جائے گی، جس میں سے نیشنل ہائی وے اتھارٹی کو تقریباً 300 ارب روپے کا وائبلٹی گیپ فنڈنگ حصہ فراہم کرنا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ معاہدے کی منسوخی نے اسپیشل انویسٹمنٹ اینڈ فیسیلیٹیشن کونسل کی کوششوں کو بڑا دھچکا پہنچایا ہے کیونکہ 300 ارب روپے سے زائد کی بھاری سرمایہ کاری جو کہ ایک مقامی سرمایہ کار کی طرف سے آرہی تھی، نہ صرف رک گئی ہے بلکہ سرمایہ کاروں کے اعتماد کو بھی ٹھیس پہنچی ہے۔