اسلام آباد(سچ خبریں)وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے 46 ویں انسانی حقوق کونسل کے اجلاس کے اعلیٰ سطح کے طبقے میں ایک ویڈیو بیان میں کونسل کی توجہ مقبوضہ کشمیر کی جانب مبذول کرائی جس کے بارے میں انہوں نے کہا کہ وہ ‘ایک انسانی حقوق کے مکمل بحران کا شکار ہے انہوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں اور ان حقوق کو پامال کرنے والوں کو خوش کرنے کے بجائے ان کے اقدامات پر انہیں جوابدہ بنائے۔
پاکستان نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ انسانی حقوق کے حوالے سے سیاسی تحفظات پر مبنی اپنے دوہرے معیار کو ترک کرے بالخصوص مقبوضہ کشمیر میں، اور ان حقوق کو پامال کرنے والوں کو خوش کرنے کے بجائے ان کے اقدامات پر انہیں جوابدہ بنائے۔
وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے 46 ویں انسانی حقوق کونسل کے اجلاس کے اعلیٰ سطح کے طبقے میں ایک ویڈیو بیان میں کونسل کی توجہ مقبوضہ کشمیر کی جانب مبذول کرائی جس کے بارے میں انہوں نے کہا کہ وہ ‘ایک انسانی حقوق کے مکمل بحران کا شکار ہے’۔
وزیر نے اپنے ریمارکس میں بڑھتے ہوئے اسلامو فوبیا، آزادی اظہار رائے یا سیکولرازم کے بہانے سے ریاستی سرپرستی میں نفرت پھیلانے اور مظلوموں کے قتل عام پر بھی زور دیا۔
انسانی حقوق کے معیار کے رکھوالوں کی مبینہ منافقت پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ ‘انسانی حقوق کی اقدار اور اصولوں سے زیادہ سیاسی، اسٹریٹجک اور تجارتی مفادات کو ترجیح دیتے ہیں’۔
وزیر نے افسوس کا اظہار کیا کہ یہاں تک کہ چند طاقتور اور ‘دوستانہ’ ریاستوں کے احتساب کا عوامی سطح پر مطالبہ بھی واضح طور پر غائب تھا۔
مقبوضہ کشمیر میں بگڑتی ہوئی صورتحال پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا کہ ‘دنیا کے سب سے بڑے حراستی کیمپوں میں تقریباً 8 لاکھ کشمیری قید ہیں’۔
ان کا کہنا تھا کہ سخت قوانین کا استعمال کرتے ہوئے بھارتی فورسز نے سزائے موت، تشدد اور عصمت دری کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہوئے منظم انداز میں شدت پیدا کر دی ہے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ قابض افواج پرامن مظاہرین اور مذہبی اجتماعات پر پیلٹ گنز سمیت گولہ بارود کا آزادانہ استعمال کر رہی ہیں۔
انہوں نے یاد دلایا کہ بڑی تعداد میں سیاسی رہنما، کارکنوں اور صحافیوں کو بھارتی حکومت نے بغیر کسی جرم کے جیلوں میں ڈال دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘بھارتی فوجی مقامی میڈیا کی آواز دبانے اور صحافیوں کو ہراساں کرنے جیسے ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں، انسانی حقوق کے محافظوں کے خلاف انتقامی حملے کیے جا رہے ہیں’۔
ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا کہ بھارتی فورسز کو مقبوضہ کشمیر میں اپنے جرائم اور مقامی آبادی کے خلاف طاقت کے ضرورت سے زیادہ استعمال پر مکمل استثنیٰ حاصل ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘1991 میں کنان اور پوش پورہ دیہات میں کشمیری خواتین کے ساتھ اجتماعی عصمت دری سمیت مقبوضہ علاقے میں وسیع پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر اب تک کسی بھی بھارتی فوجی کے خلاف قانونی کارروائی نہیں کی گئی’۔
مقبوضہ علاقے کی آبادی کے تناسب کو بدلنے اور مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے بھارتی اقدامات کے بارے میں انہوں نے کہا کہ یہ ‘غیر معمولی’ پیمانے پر کیا جارہا ہے اور 30 لاکھ سے زائد غیر کشمیریوں کو غیر قانونی طور پر کشمیری شہریت، مستقل آبادکاری کی اجازت، جائیدادوں اور زمینوں کی خریداری کی اجازت دی جا چکی ہے اور وہ مقبوضہ علاقے میں مقامی ملازمتیں حاصل کررہے ہیں۔
انہوں نے کونسل کو یاد دلایا کہ ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کی جانب سے دو کشمیری رپورٹس جون 2018 اور جولائی 2019 میں جاری کی گئی جس کی 50 سے زائد ریاستوں نے تائید کی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ کشمیر کے حوالے سے رپورٹس میں جو سفارش کی گئی ہے کونسل کو جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کے لیے ایک آزاد کمیشن کے قیام پر غور کرنا چاہیے۔انہوں نے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق مشل بیچلٹ سے مطالبہ کیا کہ وہ کشمیر رپورٹنگ کے عمل کو جاری رکھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘مطمئن ہونا یا غیر عمل ہونا کوئی آپشن نہیں، ایسا کرنے سے زیادتی کرنے والے کو ہی حوصلہ ملے گا، ہمیں ماضی کی غلطیوں کو دوہرانے کی بجائے ہمت کا مظاہرہ کرنا ہوگا’۔