مشاہد حسین نے پاک-سعودی دفاعی معاہدے پر مبنی تھنک ٹینک رپورٹ جاری کردی

?️

اسلام آباد: (سچ خبریں) سینیٹر مشاہد حسین سید نے پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ہونے والے دفاعی معاہدے پر مبنی تھنک ٹینک رپورٹ جاری کردی۔

تفصیلات کے مطابق سینیٹر مشاہد حسین سید نے اپنے تھنک ٹینک پاکستان-چائنا انسٹیٹیوٹ کے زیرِ اہتمام دفاعی معاہدے کی اہمیت اور مضمرات پر مشتمل ’پاکستان اور سعودی عرب: مسلم دنیا کے تزویراتی دفاعی شراکت دار‘ کے عنوان سے پہلی جامع تحقیقی رپورٹ کا اجراء کر دیا۔

31 صفحات پر مشتمل یہ رپورٹ سینیٹر مشاہد حسین سید کے لکھے گئے دیباچے اور اہم نکات کے ساتھ 17 ستمبر کو طے پانے والے پاکستان-سعودی عرب دفاعی معاہدے کی اہمیت، مضمرات اور جیوپولیٹیکل تناظر کا احاطہ کرتی ہے۔

اس رپورٹ میں پاکستان-سعودی عرب تعلقات کے اہم سفارتی واقعات کی ایک فیکٹ شیٹ بھی شامل ہے، نیز اہم فوجی معاہدوں اور مشرق وسطیٰ میں مسلم ممالک کو دفاع فراہم کرنے کے حوالے سے پاکستان کے ریکارڈ کو بھی اجاگر کیا گیا ہے۔

سینیٹر مشاہد حسین نے اس تاریخی دفاعی معاہدے کا سہرا دو اہم فیصلہ سازوں فیلڈ مارشل سید عاصم منیر اور سعودی ولی عہد اور وزیر اعظم محمد بن سلمان (ایم بی ایس) کے سر باندھا ہے جو ایک مسلم اصلاحات پسند رہنماہیں اور اپنے ملک کو تیزی سے تبدیلی کی راہ پر گامزن کر رہے ہیں جس طرح ڈینگ شیاؤ پنگ نے چین کے لیے کیا تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ محمد بن سلمان میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ کنگ فیصل کے بعد سعودی عرب کے ’سب سے اہم رہنما‘ ثابت ہوں۔

آج اسلام آباد میں ایک پریس بریفنگ کے دوران رپورٹ کا اجرا کرتے ہوئے سینیٹر مشاہد حسین نے مشرق وسطیٰ کے بدلتے ہوئے جغرافیائی سیاسی منظرنامے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ‘گریٹر اسرائیل’ کے بڑھتے ہوئے خطرے اور امریکی دفاعی ضمانتوں پر اعتماد کے فقدان نے سعودی عرب کے ساتھ اس معاہدے کی راہ ہموار کی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ معاہدہ تاریخی طور پر اس لیے بھی اہم ہے کہ 50 سال بعد پاکستان کے دوبارہ مشرق وسطیٰ میں اہم ترین کردار کی راہ ہموار ہوئی ہے اور پاکستان مسلم دنیا کے سب سے اہم ملک سعودی عرب کے لیے بطور ایک دفاع فراہم کرنے والے ایک اہم ملک کے طور پر سامنے آیا ہے۔

انہوں نے یاد دلایا کہ اکتوبر 1973 کی عرب-اسرائیل جنگ کے دوران جب ذوالفقار علی بھٹو وزیر اعظم تھے، پاک فضائیہ کے پائلٹوں نے شام اور مصرکی نمائندگی کرتے ہوئے اسرائیل کے خلاف جنگی کارروائیوں میں حصہ لیا اور اسرائیلی جنگی طیارہ مار گرایا تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس کے بعد سعودی عرب کے شاہ فیصل کی سرپرستی میں 1974 میں لاہور میں ایک خصوصی اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد کی گئی جہاں یاسر عرفات کی قیادت میں فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) کو پہلی بار فلسطینی عوام کا واحد اہم نمائندہ تسلیم کیا گیا۔

پاکستان-سعودی عرب دفاعی معاہدے کے جغرافیائی سیاسی پس منظر کی وضاحت کرتے ہوئے سینیٹر مشاہد حسین نے اس معاہدے کے وقت کو اہم قرار دینے کے لیے 3 وجوہات بیان کیں۔

پہلی وجہ اسرائیل کی قطر کے خلاف جارحیت ہے جو ایک ایسا ملک ہے جو امریکا کا اتحادی ہے اور پرامن ملک ہے جہاں اسرائیل اور امریکا، فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس کے نمائندوں سے ملاقاتیں کرتے رہے ہیں، اس سے یہ ظاہر ہوا کہ اسرائیل اپنی ’گریٹر اسرائیل‘ کی منصوبہ بندی کے تحت خطے میں اپنی بالادستی فوجی طاقت کے ذریعے مسلط کرنا چاہتا ہے جب کہ قطر چھٹا مسلم ملک ہے جس کے خلاف اسرائیل نے جارحیت کی ہے اس سے پہلے فلسطین، ایران، لبنان، شام اور یمن کے خلاف جارحیت کی جا چکی ہے۔

دوسری وجہ بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ قطر پر حملہ مشرق وسطیٰ کی سیاست میں ایک فیصلہ کن موڑ تھا کیونکہ قطر خطے میں امریکا کا سب سے بڑا فوجی اڈہ بھی رکھتا ہے اور امریکا نے قطر کے دفاع کو اپنی فوجی طاقت اور ٹیکنالوجی کے ذریعے تحفظ دینے کا وعدہ کیا ہوا تھا لیکن امریکا یہ کردار ادا کرنے میں ناکام رہا، اس سے یہ عندیہ ملا کہ امریکا اب خطے میں دوستانہ مسلم ممالک کا محافظ نہیں رہا۔

انہوں نے مزید کہا کہ قطر پر حملے کے بعد خلیجی ریاستوں کی دفاعی کمزوری مزید واضح ہو گئی کیونکہ اس سے پہلے 2019 میں سعودی عرب کی تیل تنصیبات پر حملہ ہوا اور اسی طرح امریکا نے سعودی عرب کا دفاع کرنے کے لیے اس حملے کو روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی تھی۔

اس تناظر میں اب خطے کے مسلم ممالک نے نئے دفاعی کے آپشنز تلاش کرنا شروع کر دیئے ہیں اور پاکستان کے مسلم ممالک کے ساتھ دفاعی تعاون کے ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے پاکستان ایک قابلِ عمل متبادل کے طور پر ابھرا ہے تاکہ ضرورت پڑنے پر مؤثر تحفظ فراہم کر سکے، پاکستان کا اہم کردار اور وژن ایران کے خلاف اسرائیل کی گزشتہ جارحیت کے دوران بھی سامنے آیا جب پاکستان ایران کے شانہ بشانہ کھڑا رہا۔

مشاہد حسین سید کا مزید کہنا تھا کہ‘2022 میں قطر میں ورلڈ کپ کے دوران سیکیورٹی پاکستان آرمی نے فراہم کی تھی۔

سینیٹر مشاہد حسین کے مطابق اس دفاعی معاہدے کی تیسری بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان نے فوجی میدان میں اپنی طاقت ثابت کی جب اس نے مئی 2025 میں بھارتی جارحیت کا کامیابی سے نہ صرف دفاع کیا بلکہ ایک عددی طور پر بڑے اور زیادہ طاقتور دشمن کو شدید نقصان پہنچایا۔

اس حقیقت کی تصدیق کسی اور نے نہیں بلکہ صدر ٹرمپ نے خود کی جس سے پاکستان کی ساکھ اور علاقائی شہرت میں اضافہ ہوا، دوسرے لفظوں میں انہوں نے کہاپاکستان نے یہ ثابت کیا کہ اس کے پاس عزم ، مہارت اور صلاحیت موجود ہے اور سیاسی و فوجی قوت بھی ہے کہ وہ بھارت جیسے دشمن کا مقابلہ کر کے اسے شکست دے سکے جو کہ اسرائیل کا کلیدی اتحادی ہے۔

بھارت کی پاکستان کے خلاف جارحیت کے دوران اسرائیلی ڈرون پاکستان کے خلاف کارروائی میں سرگرم تھے اور پاکستان نے ان میں سے 80 سے زائد ہروپ جدید ڈرون مار گرائےاس طرح یہ صلاحیت دکھائی کہ پاکستان کے پاس دفاعی اور جارحانہ دونوں قسم کی فوجی طاقت موجود ہے۔

سینیٹر مشاہد حسین سید نے یہ بھی ذکر کیا کہ مصر سے ایران تک مسلم ممالک نے پاکستان-سعودی عرب معاہدے کا خیرمقدم کیا ہے جس کا مطلب ہے کہ مسلم ممالک کے درمیان فوجی اتحاد کی خواہش موجود ہے۔ اس کی طرف اشارہ ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے کیا جنہوں نے اس معاہدے کو مسلم ممالک کے تعاون سے ایک جامع علاقائی دفاعی نظام کی طرف ایک اہم قدم قرار دیا۔

سینیٹر مشاہد حسین نے پاکستان-سعودی عرب اسٹریٹجک ڈیفنس ایگریمنٹ کو ایک خوش آئند اور بروقت پیش رفت قرار دیا کیونکہ یہ ابھرتے ہوئے بھارت-اسرائیل اتحاد کو مؤثر طریقے سے قابو کرنے میں مدد دے گا اور اس عمل میں یہ معاہدہ بائیڈن اور مودی کے اس منصوبے کو بھی دفن کر چکا ہے جو ستمبر 2023 میں جی-20 کانفرنس کے دوران آئی ایم ای سی (انڈیا اسرائیل مڈل ایسٹ اکنامک کوریڈور) کے آغاز کے لیے اعلان کیا گیا تھا جو کہ سی پیک اور چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کا مقابلہ کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان-سعودی عرب دفاعی معاہدے کے بعد اب آئی ایم ای سی غزہ کی نسل کشی کے ملبے اور عرب کی ریت کے نیچے دفن ہو چکا ہے ۔

سینیٹر مشاہد حسین نے کہا کہ پاکستان اب ایک بڑے مسلم فوجی مڈل پاور کے طور پر اہم سفارتی اور محافظ کا کردار ادا کر رہا ہے اور پاکستان-سعودی عرب دفاعی شراکت داری علاقائی دفاع کے لیے ایک نیا ماڈل فراہم کرتی ہے جو پاکستان کی فوجی طاقت اور سعودی عرب کی معاشی قوت کے بہترین امتزاج پر مبنی ہے تاکہ کسی بھی قسم کی جارحیت کے خلاف کامیاب حکمت عملی وضع کی جا سکے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے اپنی پیشہ ورانہ، جنگی تجربہ کار اور اچھی طرح تربیت یافتہ افواج کے ساتھ یہ صلاحیت دکھائی ہے کہ وہ ہر طرح کے فوجی چیلنجز کا مقابلہ بہادری، قابلیت اور عزم کے ساتھ کر سکتا ہے۔

واضح رہے کہ یہ تیسری بڑی تحقیقی رپورٹ ہے جس کا اجرا سینیٹر مشاہد حسین نے حالیہ مہینوں میں اپنے تھنک ٹینک کے ذریعے کیا ہے۔

اس سے قبل کی رپورٹس میں مئی میں ہونے والے پاکستان-بھارت فوجی تصادم اور پاکستان پر اس کے مضمرات کے علاوہ روانڈا-کانگو امن معاہدے پر مبنی تھیں۔

سینیٹر مشاہد حسین نے مزید کہا کہ سب سے اہم چیلنج اب ’نظریات کی جنگ‘ کے میدان میں ہوگا جس کا سامنا پاکستان اور دوست ممالک جیسے سعودی عرب کو کرنا پڑے گا، لہٰذا مسلم تھنک ٹینکس کو اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے تیار رہنا چاہیے اور حقائق پر مبنی تفصیلی تحقیقی رپورٹس تیار کرنی چاہئیں تاکہ من گھڑت معلومات اور جھوٹی خبروں کا مؤثر طور پر مقابلہ کیا جا سکے۔

مشہور خبریں۔

عمران خان کی گھبراہٹ

?️ 17 فروری 2021اسلام آباد {سچ خبریں} جو روز مہنگائی کروا ، ٹیکس بڑھا کر،

آپریشن عزم استحکام کی مخالفت کیوں؟

?️ 24 جون 2024سچ خبریں: پاکستان میں اپوزیشن جماعتوں اور خیبر پختونخوا کے قبائلی رہنماؤں

امریکہ کی یوکرین کو فوجی ٹیکٹیکل میزائل سسٹم بھیجنے کی کوشش

?️ 30 مئی 2023سچ خبریں:بائیڈن نے اعلان کیا کہ امریکہ یوکرین کو فوجی میزائل سسٹم

صیہونی حکومت کو تسلیم کرنے کے خلاف پاکستان کا سخت موقف

?️ 14 جولائی 2025 سچ خبریں: پاکستان کے سفیر رضوان سعید شیخ نے واضح کیا

سپریم کورٹ نے عدالتی معاملات میں ’ایجنسیوں‘ کی مداخلت سے متعلق درخواستیں یکجا کردیں

?️ 27 اپریل 2024اسلام آباد: (سچ خبریں) سپریم کورٹ نے عدالتی معاملات میں ’انٹیلی جنس

خطے کے لیے ایران اور سعودی عرب کے تعاون کی اہمیت:عمار حکیم

?️ 3 جنوری 2025سچ خبریں:عراق کی قومی حکمت تحریک کے سربراہ سید عمار حکیم نے

پی ایف یو جے کا اسد عمر کے بیان پر وزیراعظم سے نوٹس لینے کا مطالبہ

?️ 14 نومبر 2021اسلام آباد(سچ خبریں)پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) نے

جرمن کیوں صیہونیوں کی حمایت کر رہا ہے؟

?️ 30 اکتوبر 2023سچ خبریں:غزہ کی پٹی پر صیہونی حکومت کے فضائی اور توپخانے کے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے