قیمتوں کی ڈی ریگولیشن پالیسی کے نتیجے میں ادویات 32 فیصد مہنگی ہوگئیں

?️

اسلام آباد: (سچ خبریں) پاکستان میں عام استعمال کی 100 سے زائد ادویات کی قیمتوں میں گزشتہ سال فروری سے اوسطاً 32 فیصد اضافہ ہوا ہے، یہ اضافہ اُس وقت شروع ہوا جب نگران حکومت نے اپنی ڈی ریگولیشن پالیسی کے تحت قیمتوں پر عائد پابندیاں ختم کردی تھیں۔

اس اقدام نے سرکاری حکام میں تشویش پیدا کردی ہے اور ادویہ ساز صنعت سے وضاحت طلب کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے کہ قیمتوں میں اتنا بڑا اضافہ کیوں کیا گیا۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق ادویات کی قیمتوں میں اس تیز اضافے نے نہ صرف عوامی غیض و غضب کو ہوا دی ہے بلکہ حکام کو بھی حیران کر دیا ہے، کیونکہ حکومت کو توقع تھی کہ قیمتوں کے آزادانہ تعین سے مسابقت بڑھے گی اور صارفین کے لیے قیمتیں نیچے آئیں گی، مگر نتیجہ اس کے برعکس نکلا۔

یہ صورتحال ایک قومی سروے کی ابتدائی رپورٹ سے سامنے آئی ہے جو وزیراعظم کی ہدایت پر شروع کیا گیا تھا، اس کی وجہ عوام، ہسپتالوں اور صوبائی محکمہ صحت کی شکایات تھیں کہ ادویات کی قیمتیں بے تحاشہ بڑھ گئی ہیں۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے نیشنل ہیلتھ سروسز، ریگولیشنز اینڈ کوآرڈی نیشن کے چیئرمین سینیٹر عامر ولی الدین چشتی نے بتایا کہ وفاقی وزارت صحت اور ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) کے حکام نے کمیٹی کو آگاہ کیا ہے کہ نگران حکومت کی جانب سے غیر ضروری ادویات کی ڈی ریگولیشن کے بعد سے مجموعی طور پر 32 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بعض ادویات کی قیمتوں میں 100 فیصد تک اضافہ ہوا ہے جبکہ کئی دیگر میں 50 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔

سینیٹر عامر چشتی کے مطابق ڈی ریگولیشن کا مقصد مسابقت بڑھانا، سرمایہ کاری لانا اور برآمدات کو فروغ دینا تھا، نہ کہ صارفین پر بوجھ ڈالنا۔

صنعت سے وضاحت طلبی کا فیصلہ

انہوں نے کہا کہ دو سال کے دوران 32 فیصد مجموعی اضافہ اصلاحی اقدامات کا متقاضی ہے، ’ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ جن ادویات کی قیمتوں میں 50 فیصد یا اس سے زیادہ اضافہ ہوا ہے، اُن کے حوالے سے صنعت سے وضاحت طلب کی جائے‘۔

ان کے مطابق آئندہ ماہ ادویہ ساز اداروں کے نمائندوں سے ملاقات کی جائے گی اور اگر کسی قسم کی ملی بھگت یا کارٹیلائزیشن کے شواہد ملے تو معاملہ مسابقتی کمیشن آف پاکستان کے حوالے کیا جائے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ کمیٹی نہیں چاہتی کہ دوا ساز صنعت کو نقصان پہنچے بلکہ وہ چاہتی ہے کہ یہ شعبہ ترقی کرے، مگر مریضوں کی قیمت پر نہیں، جو پہلے ہی معاشی دباؤ میں ہیں۔

سینیٹر عامر چشتی کے مطابق کمیٹی وزیراعظم کی جانب سے غیر ضروری ادویات کی قیمتوں سے متعلق سفارشات کی منتظر ہے۔

ڈی ریگولیشن سے قبل کمپنیوں کو کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی) کے مطابق سالانہ 7 فیصد تک قیمت بڑھانے کی اجازت تھی، حکام کے مطابق اس فارمولے کے تحت 2 سال میں قیمتوں میں زیادہ سے زیادہ 14 فیصد اضافہ ہونا چاہیے تھا، لیکن ڈی ریگولیشن کے بعد یہ اضافہ 32 فیصد تک پہنچ گیا۔

دعوے مسترد

تاہم پاکستان فارماسیوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (پی پی ایم اے) نے ادویات کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافے کے دعوے کو مسترد کر دیا۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ سروے کے مطابق قیمتوں میں اوسط اضافہ تقریباً 15 فیصد رہا، اور اگر نئی مصنوعات اور ان کی طاقت میں اضافے سے متعلق تقریباً 3 فیصد کو نکال دیا جائے تو گزشتہ 2 برسوں میں حقیقی اضافہ تقریباً 12 فیصد بنتا ہے۔

پی پی ایم اے کے توقیر الحق کے مطابق ڈی ریگولیشن ایک بروقت اقدام تھا جس نے بڑھتی ہوئی پیداواری لاگت، روپے کی قدر میں کمی، افراطِ زر، توانائی و مزدوری اخراجات اور بھاری ٹیکسوں کے باعث صنعت کے ممکنہ زوال کو روکا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس پالیسی سے وہ ادویات دوبارہ دستیاب ہوئیں جو پہلے مارکیٹ سے غائب تھیں، سپلائی بہتر ہوئی اور جعلی ادویات کی گردش میں کمی آئی۔

فارماسیوٹیکل صنعت کا مؤقف ہے کہ قیمتوں کے آزادانہ تعین (ڈی ریگولیشن) کا فیصلہ ناگزیر تھا کیونکہ پرانا کنٹرولڈ پرائسنگ سسٹم پیداواری عمل کو غیر پائیدار بنا چکا تھا، سابقہ نظام کے تحت ادویہ کی قیمتوں میں اضافہ وفاقی کابینہ کی منظوری کے بغیر ممکن نہیں تھا۔

ایک صنعت کار نے بتایا کہ جب بھی قیمتوں میں اضافے کی تجویز پیش کی جاتی، کابینہ عموماً سیاسی دباؤ کے باعث اسے مسترد کر دیتی تھی، ان کے مطابق یہی وجہ تھی کہ ڈی ریگولیشن کا نفاذ صرف نگران حکومت کے دور میں ممکن ہو سکا۔

اگرچہ اس اقدام کے نتیجے میں قیمتوں میں اضافہ ہوا، لیکن اس سے مارکیٹ میں ادویات کی قلت ختم ہو گئی۔

پاکستان کیمسٹس اینڈ ڈرگسٹ ایسوسی ایشن کے چیئرمین عبدالصمد بدھانی کے مطابق ڈی ریگولیشن سے ادویات کی فراہمی میں بہتری آئی اور مستقل قلت کا خاتمہ ہوا۔

انہوں نے ڈی ریگولیشن کو ایک ناگزیر قدم قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کے ذریعے مرکزی سطح پر قیمتوں کے کنٹرول سے نجات ملی، جو طویل عرصے سے صنعت کی بڑھتی ہوئی پیداواری لاگت کے مطابق ردعمل دینے کی صلاحیت میں رکاوٹ بنا ہوا تھا۔

تاہم ان کے مطابق کچھ بنیادی ادویات، جنہیں ’ہارڈشپ کیسز‘ کہا جاتا ہے، اب بھی مسائل کا شکار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اصل ریلیف ان ادویات کے لیے درکار تھا جو ناگزیر ہیں، لیکن ان کی قیمتوں میں اضافہ منظور نہیں ہوا، جب کہ غیر ضروری ادویات کو منظوری مل گئی، جس سے بیوروکریٹک تاخیر کے باعث کئی اہم ادویات کی قلت پیدا ہوئی۔

مشہور خبریں۔

یمنی فوج کی سعودی عرب کو خطرناک دھمکی

?️ 28 مارچ 2021سچ خبریں:یمنی مسلح افواج کے ترجمان نے کہاکہ ہم سعودی عرب پر

امریکہ کی عالمی پوزیشن رو بہ زوال

?️ 8 مئی 2024سچ خبریں: نئے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ دنیا بھر میں امریکہ

مصر کی جانب سے غزہ سے فلسطینیوں کی جبری نقل مکانی کی مخالفت

?️ 8 فروری 2025سچ خبریں: مصری وزارت خارجہ نے ایک بیان میں اعلان کیا کہ

سعودی اتحاد کا الزام لگاتے ہوئے یمن میں شکست کا اعتراف

?️ 11 اکتوبر 2021سچ خبریں:سعودی اتحاد کے ترجمان نے منصور ہادی کی حکومت کے ایک

انسٹاگرام کو ڈیٹنگ ایپ کی طرح استعمال کیے جانے کا انکشاف

?️ 27 ستمبر 2024سچ خبریں: ایک تازہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ سوشل شیئرنگ

بریتھ پاکستان: جسٹس منصور علی شاہ کی عالمی ماحولیاتی عدالت کے قیام کی تجویز

?️ 6 فروری 2025اسلام آباد: (سچ خبریں) سپریم کورٹ کے سینئر پیونی جج جسٹس منصور

اسرائیل کو زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں

?️ 24 ستمبر 2023سچ خبریں:جہاں ایک طرف صیہونی حکومت اور سعودی عرب کے درمیان ممکنہ

شوبز انڈسٹری میں عورت مخالف سوچ گہرائی تک رچی بسی ہے، رمشا خان

?️ 15 اکتوبر 2025کراچی: (سچ خبریں) اداکارہ رمشا خان نے انکشاف کیا ہے کہ شوبز

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے