اسلام آباد: (سچ خبریں) اسلام آباد کی جوڈیشل مجسٹریٹ نے پی ٹی آئی کے سینیٹر اعظم خان سواتی کا دو روزہ جمسانی ریمانڈ منظور کرلیا۔
وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے سینیٹر اعظم سواتی کو ڈیوٹی جج وقاص احمد راجا کی عدالت میں پیش کیا جہاں ایف آئی اے نے ان کے 8 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی، مگر عدالت نے دو روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کیا۔
اعظم سواتی کی جانب سے بابر اعوان عدالت میں پیش ہوئے جہاں انہوں نے کہا کہ اعظم سواتی پر جسمانی اور دماغی تشدد کے اثرات برقرار ہیں، ان کو جسمانی طور پر بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور ویڈیو کے ذریعے دماغی ٹارچر بھی کیا گیا۔
بابر اعوان نے کہا کہ یہ قانون کی حکمرانی کی بات کرتے ہیں، آٹا اسمگلنگ روک نہیں سکتے، یہ قانون کی حکمرانی نہیں، قانون کا مذاق اور قانون کا قتل ہے۔
انہوں نے کہا کہ زندگی کا سب سے بڑا محافظ موت کا وقت ہے جو اللہ کی قدرت میں ہے، ہم موت سے نہیں ڈرتے۔
بابر اعوان نے خدشہ ظاہر کیا کہ اعظم سواتی کی جان کو بھی خطرہ ہے، جان تو سب سے پیاری چیز ہے، اللہ قرآن میں بھی کہتا ہے۔
انہوں نے نے ایف آئی اے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ بیان دیں کہ اگر ان کی حراست میں اعظم سواتی کو کچھ ہوتا ہے تو یہ ذمہ دار ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ جو ٹوئٹس کیے گئے وہ ایف آئی آر میں لگائی گئی دفعات پر پورا نہیں اترتے، پولیس کی جانب سے لیے گئے بیان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔
بابر اعوان نے کہا کہ اعظم سواتی کا 164 کا بیان نہیں لیا گیا جبکہ ان پر پچھلی بار بھی وحشیانہ تشدد کیا گیا تھا اور اب تک وہ اس تشدد سے ٹھیک نہیں ہوئے۔
دوران سماعت تفتیشی افسر نے کہا کہ کچھ متنازع ٹوئٹس ہیں جس کے باعث سینیٹر کو گرفتار کیا گیا ہے۔
تفتیشی افسر نے کہا کہ ایک بیانیہ بنایا جارہا ہے، ان چیزوں پر پہلے بھی ان (اعظم سواتی) پر ایف آئی آر درج کی جاچکی ہے جبکہ انہوں نے ٹوئٹ سے انکار نہیں کیا اور دوسری بار اس جرم کا ارتکاب کیا ہے۔
بابر اعوان نے کہا کہ یہاں جو ایف آئی اے کے لوگ موجود ہیں ان کا نام آرڈر شیٹ میں شامل کیا جائے جس پر جج نے استفسار کیا کہ میں صرف ان کا نام شامل کروں گا جو لوگ یہاں موجود ہیں۔
ایف آئی اے کی جانب سے اعظم سواتی کے 8 دن کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی گئی تھی مگر عدالت نے دو روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کیا۔
قبل ازیں پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر اعظم خان سواتی کو فوجی افسران کے خلاف متنازع ٹوئٹ کرنے پر گرفتار کیا گیا تھا۔
اسلام آباد سائبر کرائم رپورٹنگ سینٹر (سی سی آر سی) کے ٹیکنیکل اسسٹنٹ انیس الرحمٰن کی مدعیت میں ریاست کی شکایت پر ایف آئی اے کی جانب سے اعظم سواتی کے خلاف فرسٹ انفارمیشن (ایف آئی آر) رپورٹ درج کی گئی تھی۔
سابق وفاقی وزیر کے خلاف مقدمہ پیکا 2016 کی دفعہ 131، 500، 501، 505 اور 109 تعزیرات پاکستان کی کے تحت درج کیا گیا تھا۔
ایف آئی آر میں تین ٹوئٹر اکاؤنٹس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اعظم سواتی اور مذکورہ اکاؤنٹس نے غلط عزائم اور مذموم مقاصد کے ساتھ ریاستی اداروں، سینئر افسران سمیت جنرل قمر جاوید باجواہ کے خلاف انتہائی جارحانہ انداز میں ٹوئٹر پر مہم کا آغاز کیا۔
ایف آئی آر میں مزید کہا گیا ہے کہ ’اس طرح نام لے کر اور الزام عائد کرنے والی اشتعال انگیز ٹوئٹس ریاست کو نقصان پہنچانے کے لیے مسلح افواج کے افسران کے درمیان تفریق پیدا کرکے بغاوت کی شرارت ہے۔‘
ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ اشتعال انگیز ٹوئٹس پر تبصرے کرکے ملزمان نے فوجی افسران کو ان کی ذمہ داریوں اور وفاداری سے بہکانے کی کوشش کی اور اعظم سواتی کی طرف سے یہ بار بار کوشش کی جارہی تھی۔
ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ 26 نومبر کو اعظم سواتی نے ایک ٹوئٹ شیئر کی تھی جس میں لکھا تھا کہ وہ سینئر فوجی افسر کے خلاف ہر فورم پر جائیں گے جبکہ 19 نومبر کو ایک اور ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ٹوئٹ میں لکھا گیا کہ ملک کی تباہی کے ذمہ دار جرنیل ہیں جس پر اعظم سواتی نے جواب دیا کہ ’شکریہ۔‘
ایف آئی آر کے مطابق 24 نومبر کو ایک ٹوئٹر اکاؤنٹ کی ٹوئٹ میں لکھا گیا تھا کہ ’تبدیلی کا آغاز اداروں سے کرپٹ جرنیلوں کا گند صاف کرنے سے ہونا چاہیے تھا،‘ جس پر بھی اعظم سواتی نے جواب دیا کہ ’شکریہ‘۔
ایف آئی آر میں مزید لکھا گیا ہے کہ 24 نومبر کو ایک اور ٹوئٹر اکاؤنٹ نے ایک متنازع ٹوئٹ کیا گیا جس پر اعظم سواتی نے انتہائی جارحانہ انداز میں جواب دیا۔
ایف آئی آر کے مطابق سینیٹر اعظم خان سواتی کے خلاف ماضی میں بھی اسی طرح کی شکایات درج ہوئی ہیں، مزید لکھا گیا ہے کہ اعظم سواتی نے ریاست کے ستونوں کے درمیان بدنیتی پیدا کرنے کی کوشش کر کے عام لوگوں اور مسلح افواج کے اہلکاروں کو اکسانے کی کوشش کی۔
ایف آئی آر میں مزید کہا گیا ہے کہ اعظم سواتی نے غلط معلومات کی بنیاد پر رازداری کی خلاف وزری کی جو کسی افسر، سپاہی، سیلر یا ایئرمین کو میوٹنی یا اپنے فرائض میں کوتاہی پر اکسانے کی کوشش ہے، مزید کہا گیا ہے کہ ایسے بیانات سے عوام میں خوف پیدا ہونے کا بھی امکان ہے۔
بعد ازں تحریک انصاف نے ٹوئٹر پر پارٹی رہنماؤں کی تصاویر جاری کرتے ہوئے لکھا کہ وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی، سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر ڈاکٹر شہزاد وسیم، عمران اسمٰعیل اور دیگر قیادت سینیٹر اعظم خان سواتی کی جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے پیشی کے دوران ایف ایٹ کچہری پہنچ گئی ہے۔