اسلام آباد:(سچ خبریں)وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے سابق وزیر اعظم پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ عمران خان سب کچھ بتانے کو تیار ہیں لیکن اپنی کرپشن بتانے کو نہیں، بتائیں کیا ان کرپشن کی تحقیقات کرنا دیوار سے لگانا ہے، کیا وہ دھونس، دھمکی سے اقتدار اور این آر او حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے رانا ثنااللہ خان کا کہنا تھا کہ عمران خان کہتے ہیں کہ انہیں ہراساں کیا جارہا ہے، میں سابق وزیراعظم سے پوچھتا ہوں کہ انہیں کیسے ہراساں کیا جارہا ہے، کیا ان کے خلاف جھوٹے مقدمات قائم کیے جا رہے ہیں، کیا انہیں کوٹ لکھپت جیل یا اڈیالہ جیل میں بند کردیا گیا ہے اور وہاں ان کے جیل سے پنکھا یا اے سی ہٹا دیا گیا ہے، دوائیں بند کردی گئی ہیں یا انہیں گھر سے کھانا منگوانے کی سہولت نہیں دی جارہی۔
وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ عمران خان کو ایسی باتیں کرتے ہوئے شرم آنی چاہیے، عمران خان خود اپنے مخالفین کے خلاف اس طرح کے اقدامات کرتے رہے ہیں جبکہ ان کے ساتھ تو ابھی تک اس طرح سے کچھ بھی نہیں ہوا، کہہ رہے ہیں مجھے دیوار سے لگایا جارہا ہے، کیا عمران خان سے یہ سوال کرنا کہ قوم کا 50 ارب روپیہ غبن کروا کر 5 ارب کی زمین حاصل کی، اس کے ٹرسٹی عمران خان اور ان کی اہلیہ ہیں، اس سے متعلق سوال کرنے سے آپ پریشان ہو رہے ہیں یا آپ کی بہن اور بیٹی کو گرفتار کرلیا گیا ہے جو آپ ہراساں ہو رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جب عمران خان کہتے ہیں کہ وہ سب کچھ بتادیں گے تو ان کو بتانا چاہیے کہ 2014 کے دھرنے آپ نے کس کے کہنے پر دیے تھے، ویسے تو وہ موصوف ریٹائرمنٹ کے بعد خود بتا رہے ہیں مگر آپ بتادیں تو تصدیق ہوجائے گی۔
انہوں نے کہا کہ جو لوٹ مار، کرپشن عمران خان، آپ کی فرح گوگیاں اور فرح گوگے کر رہے تھے ان سے متعلق صرف تحقیقات، سوال جواب پوچھے جارہے ہیں، دیکھا جارہا ہے کہ وزیر اعلیٰ ہاؤس پنجاب میں ہونے والی کرپشن کی رقم وہیں رک جاتی تھی یا وہاں سے وہ رقم بنی گالا بھی آتی تھی۔
رانا ثنااللہ نے کہا کہ 50 ارب روپے غبن کروا کر 5 ارب روپے کے اثاثے حاصل کرنے کا تمام ریکارڈ موجود ہے، اس کا جواب نہیں دیا، بشیر میمن کے الزامات کا جواب نہیں دیا۔
انہوں نے کہا کہ مجھ پر ڈالی گئی 15 کروڑ کی ہیروئن کس کی ہے، اس کا جواب نہیں دیا، میں چیف جسٹس اور اس بینچ سے مطالبہ کرتا ہوں جس نے تقرر و تبادلے پر ازخود نوٹس لیا ہے، وہ مجھ پر بنائے گئے اے این ایف کیس کا بھی نوٹس لے کر انکوائری کرلے جس میں مجھے 6 ماہ تک بے گناہ قید میں رکھا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر وہ ہیروئن میری ملکیت ہوئی تو مجھے سزائے موت دی جائے اور اگر وہ ہیروئن میری نہیں ہے بلکہ شہزاد اکبر نے بنی گالا سے آئی جی اسلام آباد کو وہ ہیروئن میرے لاؤنج میں رکھنے کو کہا اور جب آئی جی تیار نہیں ہوا تو پھر اے این ایف کو اس بات پر لگایا گیا، انکوائری میں یہ بات ثابت ہوجائے تو میں ان کو عمر قید کی سزا کی درخواست کروں گا تاکہ ملک و قوم کی ان سے جان چھوٹ جائے۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ اگر عمران خان سب کچھ بتانے پر آگئے ہیں تو بتائیں کہ کیا ان کو اقتدار سے بے دخل کیے جانے کی تکلیف ہے، ان کو ڈی چوک میں آکر بیٹھنے نہیں دیا گیا اس بات کی تنگی ہے، ان کو اسلام آباد آکر دھرنا نہیں دینے نہیں دیا گیا یا عوام نے ان کا ساتھ نہیں دیا، اس بات کا انہیں افسوس ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان کا انتشار کا منصوبہ ناکام بنانے میں عوام کے کردار کی تعریف کرتا ہوں کہ ان کی عدم شرکت کے باعث ہم شرپسندوں کے خلاف ایکشن لینے میں کامیاب ہوئے۔
ان کا کہنا تھا کہ عمران خان بتائیں کہ وہ اس دھونس اور دھمکی سے کیا چاہتے ہیں، عمران خان بتائیں کہ ان کو دیوار سے لگانے کا مطلب اقتدار سے محرومی ہے، کیا وہ اس طرح سے اقتدار اور این آر او حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ میرے خلاف سزائے موت کا کیس عمران خان نے بنوایا، انہوں نے میرے اوپر ڈالی گئی ہیروئن کا انتظام کیا جبکہ اس کیس میں شہزاد اکبر ان کا معاون اور آلہ کار تھا، عمران خان جب اقتدار میں تھے تو 500 لوگوں کو پھانسی دینے کی، ہزاروں لوگوں کو جیلوں میں ڈالنے کی بات کرتے تھے اور آج جبکہ ان کی صرف ایک آڈیو ٹیپ جاری ہوئی ہے تو یہ کہتے ہیں کہ ان کو دیوار سے لگایا جا رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آڈیو ٹیپ میں بشریٰ بی بی ہدایات دی رہی ہیں کہ جب ہمارا کیا ہوا گند، فرح گوگی کا کیا ہوا گند سامنے آئے گا تو گند کا جواب نہیں دینا بلکہ اس گند کو نام نہاد بیرونی سازش کے خط سے جوڑنا ہے اور کہنا ہے کہ یہ بھی غداری ہے، ان کی کرپشن سے متعلق سوال کرو تو غداری ہے، ان کی اہلیہ یہ سب چیزیں چلا رہی تھیں، عمران خان خود اس طرح کے معاملات میں ملوث رہے ہیں اور آج سوال جواب، انکوائری ہو رہی ہے تو ان کو حوصلہ کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ جھوٹے کیسز بنانے والوں کو اب سچے کیسز کا سامنا کرنا چاہیے، انہوں نے 15 سے 20 کروڑ روپے کی توشہ خانے کی گھڑیاں فروخت کرکے 80 فیصد رقم جیب میں رکھنے والے شخص کی صداقت و امانت کا کیا لیول ہوگا، ان کو صادق و امین قرار دینے والا آج خود لوگوں سے منہ چھپاتا پھرتا ہے، عمران خان کی دھمکیوں سے کوئی خوفزہ نہیں ہوگا، قانون اپنا راستہ لے گا۔
رانا ثنااللہ نے کہا کہ عمران خان توشہ خانہ اور القادر یونیورسٹی ٹرسٹ میں ہونے والی کرپشن سے انکار کرکے دکھائیں، یہ جو آڈیو جاری ہوئی ہے اس کی فرانزک کا مطالبہ کریں یا اس کی تردید کریں اور کہیں کہ یہ آواز ان کی اہلیہ کی نہیں ہے، اس آڈیو میں وہ اپنی کرپشن کو بچانے کے لیے کرپشن کو غداری سے جوڑ رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حمزہ شہباز کی جانب سے بجلی فری کرنے کے خلاف بات کرنے سے پی ٹی آئی کا اصل چہرہ بے نقاب ہوا ہے کہ وہ عوام کے لیے کسی قسم کی بہتری اور ریلیف نہیں چاہتے، کیا الیکشن پورے صوبے میں ہو رہا ہے، الیکشن صرف چند اضلاع میں ہو رہا ہے جبکہ یہ ریلیف پورے پنجاب کے لیے ہے۔
صحافی اور یوٹیوبر عمران ریاض خان کی گرفتاری سے متعلق رانا ثنااللہ کا کہنا تھا کہ ہم آزادی اظہار رائے کے حامی ہیں مگر کوئی شخص کسی جماعت کا کارکن بن کر اس کا بیانیہ آگے بڑھائے تو پھر اسے صحافت یا آزادی اظہار رائے کی آڑ نہیں لینی چاہیے، عمران ریاض قابل احترام ہیں مگر وہ کہتے ہیں کہ انہیں فائلیں دکھائیں اور پھر انہوں نے ہمارے خلاف ہلہ بول دیا۔