سپریم کورٹ: جسٹس طارق محمود جہانگیری کو عدالتی امور کی انجام دہی سے روکنے کا حکم معطل

?️

اسلام آباد: (سچ خبریں) سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کا جسٹس طارق جہانگیری کو عدالتی امور کی انجام دہی سے روکنے کاحکم معطل کرتے ہوئے فریقین اور اٹارنی جنرل کو نوٹسز جاری کردیے۔

جسٹس شاہد بلال حسن نے ریمارکس دیئے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں جسٹس طارق محمود جہانگیری کے خلاف درخواست پر اعتراضات موجود تھے، رجسٹرار آفس کے اعتراضات کے باوجود رٹ پٹیشن پر نمبر کیسے لگ گیا؟

سپریم کورٹ کے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 5 رکنی آئینی بینچ نے جسٹس طارق محمود جہانگیری کی اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل پر سماعت کی۔ بینچ میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد بلال حسن شامل تھے۔

دوران سماعت جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اعجاز اسحٰق خان اور جسٹس ثمن رفت امتیاز عدالت میں پیش ہوئیں۔

ممبر اسلام آباد بار کونسل علیم عباسی نے موقف اختیار کیا کہ ہم نے بھی اس کیس میں فریق بننے کی درخواست دائر کر رکھی ہے، جس پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کیا آپ اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی فریق تھے؟ مرکزی درخواست گزار جسٹس طارق محمود جہانگیری ہیں۔

وکلا نے موقف اپنایا کہ اسلام آباد بار کونسل اور ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن نے بھی کیس میں فریق بننے کی درخواستیں دائر کر رکھی ہیں، جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کا اپنا طریقہ کار ہے، جب درخواستوں پر نمبر لگیں گے تب ہمارے سامنے فکس ہو جائیں گی۔

دوران سماعت جسٹس طارق محمود جہانگیری کے وکیل منیر اے ملک نے موقف اختیار کیا کہ ملک کی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا کہ ہائی کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے اپنے ہی ہائی کورٹ کے جج کو عدالتی کام سے روکا ہو، جسٹس طارق محمود جہانگیری کو کام سے روکنے کے حکم نامے میں طے شدہ قانون کو نظر انداز کیا گیا، جج کو کام سے روکنے کے حکم نامے میں انصاف کے تقاضوں کو پورا نہیں کیا گیا، 10 جولائی 2024 کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں جسٹس طارق محمود جہانگیری کے خلاف رٹ دائر ہوئی، ایک سال سے زائد وقت ہو چکا ہے رجسٹرار آفس کے اعتراضات ابھی تک باقی ہیں۔

منیر ملک نے مزید کہا کہ جسٹس طارق محمود جہانگیری کے خلاف رٹ دائر ہونے کے بعد کچھ واقعات بھی پیش آئے جو عدالت کے سامنے رکھوں گا، اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججز ٹرانسفر ہو کر آئے، 5 ججز نے ٹرانسفر کے خلاف 184 تھری کے تحت درخواست دائر کی، ججز ٹرانسفر کو درست قرار دیا گیا جس کے خلاف اپیل تاحال زیر التوا ہے۔

منیر اے ملک نے کہا کہ جس جج کے تبادلےکے خلاف ججز نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا، اسی چیف جسٹس کی سربراہی میں بینچ نے 16 ستمبر کو جسٹس طارق محمود جہانگیری کو کام سے روکا، جس درخواست پر طارق محمود جہانگیری کو کام سے روکا گیا اس پر ابھی تک اعتراضات باقی ہیں اور دوسرے فریق کو سنا بھی نہیں گیا، 16 ماہ ہو گئے ابھی تک اعتراضات برقرار ہیں۔

منیر اے ملک نے کہا کہ سپریم کورٹ یہ فیصلہ دے چکی ہے کہ ایک جج کو جوڈیشل ورک سے نہیں روکا جا سکتا، حال ہی میں جسٹس جمال خان مندوخیل کا فیصلہ ہے کہ جج کے خلاف رٹ جاری نہیں کی جا سکتی۔

جسٹس جمال خان مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ اُس کیس کے حقائق مختلف تھے جس کا آپ حوالہ دے رہے ہیں، جسٹس شاہد بلال حسن نے ریمارکس دیے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں جسٹس طارق محمود جہانگیری کے خلاف درخواست پر اعتراضات موجود تھے، رجسٹرار آفس کے اعتراضات کے باوجود رٹ پٹیشن پر نمبر کیسے لگ گیا؟ اس سوال کے اوپر دونوں طرف کے فریقین کے وکلا تیاری کر کے آئیں۔

بعد ازاں عدالت نے اسلام آباد ہائی کورٹ کا جسٹس طارق محمود جہانگیری کو جوڈیشل ورک سے روکنے کا حکم معطل کرتے ہوئے فریقین اور اٹارنی جنرل کو نوٹسز جاری کر دیے۔ کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی گئی۔

قبل ازیں، عدالت میں پیشی کے موقع پر صحافی نے جسٹس طارق محمود جہانگیری سے سوال کیا کہ کراچی یونیورسٹی نے آپ کی ڈگری منسوخ کردی کیا عدالت جائیں گے؟ جسٹس طارق محمود جہانگیری نے جواب دیا کہ سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کردی ہے، حیرت کی بات ہے 34 سال بعد ڈگری منسوخ کر رہے ہیں دنیا کی تاریخ میں ایسا نہیں ہوا۔

واضح رہے کہ جسٹس طارق محمود جہانگیری کی مبینہ جعلی ڈگری سے متعلق ایک شکایت جولائی 2023 میں سپریم جوڈیشل کونسل میں جمع کرائی گئی تھی، جبکہ ان کی تقرری کو چیلنج کرنے والی ایک درخواست رواں برس اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کی گئی تھی، معاملہ اُس خط کے گرد گھومتا ہے جو پچھلے سال سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگا تھا، جس میں مبینہ طور پر کراچی یونیورسٹی کے کنٹرولر امتحانات کی طرف سے جج کی قانون کی ڈگری کا ذکر تھا۔

ایک غیر معمولی پیش رفت میں 16 ستمبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیف جسٹس سردار سرفراز ڈوگر اور جسٹس محمد اعظم خان پر مشتمل ڈویژن بینچ نے میاں داؤد ایڈووکیٹ کی جسٹس طارق محمود جہانگیری کو کام سے روکنے کی درخواست پر سماعت کے بعد تحریری حکم نامہ جاری کردیا تھا۔

19 ستمبر کو جسٹس طارق محمود جہانگیری نے سپریم کورٹ میں خود پیش ہو کر اس فیصلے کو چیلنج کیا تھا، انہوں نے استدعا کی تھی بطور جج کام سے روکنے کا حکم کالعدم اور معطل کیا جائے اور ڈویژن بینچ کو مزید کارروائی سے روکا جائے۔

دوسری جانب سندھ ہائی کورٹ نے گزشتہ ہفتے جسٹس طارق محمود جہانگیری کی ڈگری منسوخی کے خلاف 7 درخواستیں عدم پیروی کی بنیاد پر خارج کردی تھیں۔

عدالت کے حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ سندھ ہائی کورٹ کو اس بات پر یرغمال نہیں بنایا جا سکتا کہ وکلا کی خواہش یا من مانی کے مطابق درخواستوں کی سماعت کس انداز میں کی جائے، حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ ساتوں درخواستیں عدم پیروی کی بنیاد پر خارج کی جاتی ہیں۔

جمعہ 26 ستمبر کو سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس محمد کریم خان آغا اور جسٹس عدنان الکریم میمن پر مشتمل 2 رکنی آئینی بینچ کی جانب سے جاری کیے گئے تحریری حکم نامہ میں عدالت نے کہا کہ جب درخواست گزاروں کے وکیل ایڈووکیٹ ابراہیم سیف الدین کو درخواستیں قابل سماعت ہونے کے سوال پر دلائل دینے کے لیے بلایا گیا تو انہوں نے انکار کردیا اور موقف اپنایا کہ پہلے صلاح الدین احمد اور فیصل صدیقی کے اعتراضات پر فیصلہ کیا جائے، بعد ازاں وہ بھی عدالت چھوڑ کر چلے گئے۔

عدالت نے قرار دیا کہ جب فیصل صدیقی کو بلایا گیا تو انہوں نے بھی یہی موقف اپنایا اور جب ان کی درخواست مسترد ہوئی تو وہ بھی کمرہ عدالت سے نکل گئے، وکیل صلاح الدین احمد نے بھی درخواست قابل سماعت ہونے پر دلائل دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ان کے اعتراضات پہلے نمٹائے جائیں، وہ بھی بعد ازاں عدالت سے چلے گئے۔

عدالت کے علم میں آیا کہ دیگر درخواستوں کے وکلا بھی موجود نہیں تھے اور غالباً وہ بھی عدالت چھوڑ گئے تھے، اس بنا پر تمام درخواستیں عدم پیروی کی بنیاد پر خارج کردی گئیں۔ حکم نامے میں کہا گیا کہ وکلا کو سننے اور درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر دلائل دینے کا موقع دیا گیا مگر انہوں نے جان بوجھ کر اس سے فائدہ نہیں اٹھایا۔

حکم نامے میں جسٹس طارق جہانگیری کی فریق بننے کی درخواست پر بھی بات کی گئی، عدالت نے کہا کہ انہوں نے اجازت سے عزت و وقار کے ساتھ اپنا موقف پیش کیا، تاہم وہ کسی درخواست یا لسٹڈ اپلیکیشن پر بات نہ کر سکے اور بعد میں موقع دیے جانے کے باوجود وہ بھی عدالت سے چلے گئے، اس لیے ان کی درخواست بھی عدم پیروی پر خارج کی جاتی ہے۔

مشہور خبریں۔

غزہ میں انسانی قتل عام انسانیت کے لئے چیلنج

?️ 9 نومبر 2023سچ خبریں:Griffiths نے X سوشل میڈیا پر اپنے صارف اکاؤنٹ پر لکھا

پاکستانی وزیر اعظم: علاقائی امن کے لیے تہران کی سفارت کاری قابل تعریف ہے

?️ 26 مئی 2025سچ خبریں: پاکستانی وزیر اعظم نے پیچیدہ علاقائی اور عالمی مسائل میں

آئی ایم ایف کو لکھا جائے گا کہ سیاسی استحکام کے بغیر معاشی استحکام نہیں آسکتا، عمران خان

?️ 27 فروری 2024راولپنڈی: (سچ خبریں) پاکستان تحریک انصاف کے قائد عمران خان نے کہا ہے کہ میں جیل سے

رفح میں صیہونیوں کے ہاتھوں فلسطینیوں کے مکانات مسمار

?️ 18 جون 2024سچ خبریں: عرب میڈیا نے گذشتہ چند گھنٹوں میں غزہ کی پٹی

وزیراعظم شہباز شریف کی مختلف ممالک کے سربراہان کو عید کی مبارکباد

?️ 3 مئی 2022اسلام آباد(سچ خبریں) وزیراعظم شہباز شریف نے ترک صدر رجب طیب اردوان، قطر کے امیر شیخ تمیم

جولانی حکومت کا چیف آف اسٹاف مقرر

?️ 9 جنوری 2025سچ خبریں: ذرائع نے الجزیرہ کو بتایا ہے کہ میجر جنرل نورالدین

قومی سلامتی کمیٹی کا کالعدم جماعت کیساتھ مذاکرات جاری رکھنے کا فیصلہ

?️ 29 اکتوبر 2021اسلام آباد(سچ خبریں)وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت ہونے والے قومی سلامتی

مصری صدر نے فلسطینی کاز کی حمایت جاری رکھنے پر زور دیا

?️ 7 ستمبر 2022سچ خبریں:      فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے منگل

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے