اسلام آباد: (سچ خبریں) سپریم کورٹ میں ملک میں عام انتخابات 90 روز میں کرانے کے لیے دائر درخواستوں پر سماعت کے دوران الیکشن کمیشن آف پاکستان کے وکیل نے کہا ہے کہ 11 فروری کو الیکشن کرادیں گے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس اطہر من اللّٰہ اور جسٹس امین الدین خان پر مشتمل تین رکنی بینچ نے درخواستوں پر سماعت کی۔
آج کی سماعت کے دوران الیکشن کمیشن آف پاکستان کے وکیل سجیل سواتی نے عدالت کو بتایا کہ حلقہ بندیوں کا عمل 29 جنوری تک مکمل کر لیا جائے گا جس کے بعد 11 فروری کو انتخابات ہوں گے۔
بعد ازاں چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کو ہدایت کی کہ وہ آج ہی اس معاملے پر صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی سے مشاورت کرے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا صدر کو جواب بظاہر آئین کے خلاف ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کسی خط و کتابت میں نہیں جائے گی، فاروق نائیک نے کہا کہ صدر کا کام تھا تاریخ دیتے، الیکشن کمیشن شیڈیول جاری کرتا، انتخابات 90 دن میں کرانے کیلئے تاریخ دینے کی ذمہ داری صدر کی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ابھی تک تو 90 دن گزرے ہی نہیں، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ مناسب ہوگا پہلے الیکشن کمیشن کا موقف سن لیں، صدر الیکشن کمیشن کی مشاورت کے بغیر کیسے تاریخ کا اعلان کر سکتے ہیں؟ کیا مشترکہ مفادات کونسل میں پیپلزپارٹی نے حلقہ بندی کی مخالفت کی تھی؟
فاروق نائیک نے کہا کہ پیپلزپارٹی نے حلقہ بندی اور مردم شماری کی مخالفت نہیں کی تھی، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ پیپلزپارٹی سمیت تمام لوگ انتخابات میں تاخیر کے ذمہ دار ہیں، وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ عام انتخابات 11 فروری ہوں گے، عدالت نے الیکشن کمیشن کے وکیل کو تنبیہ کی کہ سوچ سمجھ کر جواب دیں۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ حلقہ بندی کے بعد 54 دن کا شیڈول ہوتا ہے، 3 سے 5 دن حتمی فہرستوں میں لگیں گے، 5 دسمبر کو حتمی فہرستیں مکمل ہو جائیں گی، 5 دسمبر سے 54 دن گننیں تو 29 جنوری بنتی ہے، انتخابات میں عوام کی آسانی کے لیے اتوار ڈھونڈ رہے تھے،4 فروی کو پہلا اتوار بنتا ہے جب کہ دوسرا اتوار 11 فروری کر بنتا ہے۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ ہم نے اپنے طور پر یہ فیصلہ کیا کہ 11 فروری والے اتوار کو الیکشن کروائے جائیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آئینی خلاف ورزی پر جس کے خلاف کارروائی کرنی ہے اس کے فورمز موجود ہیں، وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ حلقہ بندیوں کے بعد انتخابات کرائیں گے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے تو صدر سے مشاورت نہ کر کے آئین کو دوبارہ تحریر کر لیا، چیف جسٹس نے کہا کہ کیا صدر مملکت آن بورڑ ہیں، وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ ہم صدر مملکت کو آن بورڑ لینے کے پابند نہیں ہیں۔
سپریم کورٹ نے تاریخ دینے سے قبل صدر سے مشاورت نہ کرنے پر اظہاربرہمی کیا، چیف جسٹس نے کہا کہ صدر بھی پاکستانی ہیں اور الیکشن کمیشن بھی پاکستانی ہے، الیکشن کمیشن صدر سے مشاورت نہ کرنے پر کیوں ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔
عدالت نے کیس کی سماعت میں آدھے گھنٹے کا وقفہ کردیا، وقفے کے بعد الیکشن کمیشن نے صدر مملکت سےمشاورت کرنے کے فیصلے سے سپریم کورٹ کو آگاہ کیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر وہ آپ کو نہ بھی بلائیں پھر بھی آپ ان کا دروازہ کھٹکھٹا دیں، چیف جسٹس نے آج ہی صدر مملکت سے مشاورت کرنے کی ہدایت کی، چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل مشاورت میں ان بورڈ رہیں۔
چیف جسٹس نے آج کی سماعت کا حکمنامہ لکھوانا شروع کردیا، چیف جسٹس نے کہا کہ جو تاریخ دی جائے گی اس پر عملدرآمد کرنا ہوگا، سپریم کورٹ بغیر کسی بحث کے انتخابات کا انعقاد چاہتی ہے، عدالت صرف اس مسلئے کا حل چاہتی ہے تکنیکی پہلوؤں میں الھجنا نہیں چاہتے۔
عدالت نے اپنے حکمنامے میں کہا کہ الیکشن کمیشن نے کہا حلقہ بںدیوں کا عمل 30 نومبر کو مکمل ہو گا، الیکشن کمیشن کیمطابق اس کے بعد الیکشن شیڈول جاری ہو سکتا ہے، الیکشن کمیشن کے مطابق تمام مشق 29 جنوری بروز پیر کو مکمل ہو گی، الیکشن کمیشن نے انتخابی عمل میں زیادہ عوامی شرکت کے کیے اتوار کے روز کی تجویز دی۔
چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کو ہدایت کی کہ آج ہی صدر سے رابطہ کریں، اٹارنی جنرل مشاورتی عمل میں آن بورڈ رہیں، اٹارنی جنرل الیکشن کمیشن اور صدر پاکستان کی چائے پر ملاقات کرانے کا اہتمام کرے، میٹنگ میں قانونی معاونت بھی فراہم کریں۔
چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے وکیل کو ہدایت کی کہ فون اٹھائیں اور صدر کے ملٹری سیکریٹری کو ملیں، عام انتخابات کی حتمی تاریخ کا اعلان سپریم کورٹ سے ہوگا، الیکشن کمیشن صدر سے مشاورت کر کے کل سپریم کورٹ کو آگاہ کرے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن اور صدر مشاورت کر کے دستاویزات عدالت میں پیش کریں، دستاویز پر سب کے دستخط ہوں گے تا کہ کوئی مکر نہ سکے، حتمی تاریخ کے بعد اس میں توسیع کی درخواست نہیں سنی جائے گی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم اس فیصلے کو ریکارڈ پر رکھیں گے، حکمنامہ کمرہ عدالت ہی میں ٹائپ اور پرنٹ کیا گیا۔ عدالت نے گزشتہ سماعت اور آج کی سماعت کے دونوں حکمنامے فریقین کو فراہم کرنے کی ہدایات کی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم ابھی حکمنامہ پر دستخط کر کے کاپی آپ کو دے رہے ہیں، تلخیاں اپنی جگہ پر مگر تمام سیاسی جماعتیں اپنا منشور لے کر عوام میں جائیں، عوام کو جس کا مشور پسند آئے گا وہ اسے ووٹ دے دیں گے۔
بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی۔
ایڈووکیٹ عابد زبیری اور پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر روسٹرم پر آئے، چیف جسٹس نے وکلا سے مکالمہ کیا کہ دلائل کون دے گا؟ وکیل علی ظفر نے کہا کہ پہلے مجھے دلائل دینے کا موقع دیں، سجیل سواتی نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی طرف سے میں وکیل ہوں، وکیل فاروق نائیک نے کہا کہ پیپلزپارٹی کی وکالت میں کررہا ہوں۔
علی ظفر نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ اپنی استدعا کو صرف ایک نقطہ تک محدود مروں گا، استدعا ہے الیکشن ٹائم کے مطابق وقت پر ہونے چاہیے۔
وکیل پیپلز پارٹی فاروق نائیک نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے اس کیس میں فریق بننے کی درخواست دائر کی ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ کسی فریق کو اعتراض تو نہیں اگر عدالت فاروق نائیک صاحب کو اس کیس میں سنے۔
وکیل پی ٹی آئی علی ظفر نے کہا کہ ہم فاروق ایچ نائیک صاحب کو خوش آمدید کہتے ہیں، عدالت نے پیپلز پارٹی کو انتخابات کیس میں فریق بننے کی اجازت دے دی۔
وکیل علی ظفر نے کہا کہ انتخابات 90 روز میں کروائے جائیں، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی 90 دنوں میں انتخابات کی استدعا تو اب غیر موثر ہو چکی، وکیل علی ظفر نے کہا کہ ہم بنیادی انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عوام کی رائے جاننے سے بہتر اور کیا ہو سکتا ہے۔
چیف جسٹس نے پی ٹی آئی وکیل سے مکالمہ کیا کہ اب آپ صرف انتخابات چاہتے ہیں، وکیل علی ظفر نے کہا کہ جی ہم انتخابات چاہتے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ کیا اس کی کوئی مخالفت کرے گا، میرا نہیں خیال کوئی مخالفت کرے گا۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا آپ مخالفت کریں گے جس پر اٹارنی جنرل نے انکار میں جواب دیا، وکیل علی ظفر نے کہا کہ آرٹیکل 58اور 224 پڑھا جا سکتا ہے، انتخابات نہیں ہوں گے تو نہ پارلیمنٹ ہوگئی نا قانون بنیں گے، انتخابات کی تارہخ دینا اور شیڈول دینا دو چیزیں ہیں، الیکشن کی تاریخ دینے کا معاملہ آئین میں درج ہے۔
علی ظفر نے کہا کہ وزارت قانون نے رائے دی کہ صدر مملکت تارہخ نہیں دے سکتے، 90 دنوں کا شمار کیا جائے تو 7 نومبر کو انتخابات ہونے ہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ صدر مملکت کو الیکشن کمیشن کو خط لکھنے مئں اتنا وقت کیوں لگا، چیف جسٹس نے کہا کہ کیا صدر مملکت نے سپریم کورٹ سے رائے لینے کے لیے ہم سے رجوع کیا۔
علی ظفر نے کہا کہ نہیں ایسا نہیں ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ پھر آپ خط ہمارے سامنے کیوں پڑھ رہے ہیں، صدر کے خط کا متن بھی کافی مبہم ہے، صدر نے جب خود ایسا نہیں کیا تو وہ کسی اور کو یہ مشورہ کیسے دے سکتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ علی ظفر کیا آپ کہہ رہے ہیں صدر نے اپنا آئینی فریضہ ادا نہیں کہا، 9 اگست کو اسمبلی تحلیل ہوئی اور صدر نے ستمبر میں خط لکھا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آئین کی کمانڈ بڑی واضح ہے صدر نے تاریخ دینا تھی اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اختلاف کرنے والے چاہیں اختلاف کرتے رہیں ، ہم اس معاملہ کا جوڈیشل نوٹس بھی لے سکتے ہیں، آخری دن جا کر خط نہیں لکھ سکتے۔
وکیل علی ظفر نے کہا کہ میری نظر میں صدر نے الیکشن کی تاریخ تجویز کر دی، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ہم سے اب کیا چاہتے ہیں، کیا آپ چاہتے ہیں کہ ہم صدر کو ہدایت جاری کریں کہ آپ تاریخ دیں، صدر کہتے ہیں فلاں سے رائے لی فلاں کا یہ کہنا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کیا اب یہ عدالت صدر کے خلاف رٹ جاری کر سکتی ہے، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آرٹیکل 98 بہت واضح ہے اس پر اس عدالت کا کردار کہاں آتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے مطابق تاریخ دینا صدر کا اختیار ہے، پھر آپ بتائیں کہ کیا اس عدالت کو بھی تاریخ دینے کا اختیار ہے، اگر صدر نے بات نہ مانی تو ہم انہیں توہین عدالت کا نوٹس جاری کریں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ صدر مملکت نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جس دن قومی اسمبلی تحلیل ہوئی اسی دن صدر تاریخ دیتے تو کوئی بھی اعتراض نہ اٹھا سکتا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ انتخابات کے انعقاد کے لیے پوری مشینری شامل ہوتی ہے، کیا سپریم کورٹ انتحابات کی تاریخ دے سکتی ہے، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا الیکشن کمیشن نے کبھی کہا کہ صدر تاریخ دے۔
وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے کہا کہ انتحابات کی تاریخ دینے کا اختیار ہمارا ہے، صدر مملکت کی تاریخ نہ دینے کے پہلو کو ایک طرف رکھ کر ہمیں سپریم کورٹ کو بھی دیکھنا چاہیے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کیا ہم صدر کے خلاف جا کر خود انتخابات کی تاریخ دے سکتے ہیں، آئین پاکستان نے ہمیں تاریخ دینے کا اختیار کہاں ہے۔
علی ظفر نے کہا کہ سپریم کورٹ ایک مرحلے میں مداخلت کر چکی ہے، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اس وقت سوال مختلف تھا، چیف جسٹس نے کہا کہ انتخابات کا انعقاد تو اچھی چیز ہے پرابلم نہیں ہے، آپ کے لیڈر صدر کے بھی لیڈر ہیں، صدر کو فون کر کے کیوں نہیں کہا گیا کہ انتخابات کی تاریخ دیں۔
جسٹس امین الدین نے کہا کہ آپ کی دلیل تو یہ ہے کہ صدر نے آئین سے انحراف کیا، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ بادی النظر میں حکومت، الیکشن کمیشن اور صدر مملکت تینوں ذمہ دار ہیں، اب سوال یہ ہے کہ اس کے نتائج کیا ہوں گے، انتخابات تو وقت پر ہونے چاہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ علی ظفر صاحب کیا آپ سیاسی جماعت کی نمائندگی کر رہے ہیں؟ آپ صدر کو ایک فون کر کے کیوں نہیں کہتے کے تاریخ دیں، علی ظفر نے کہا کہ وہ صدر پاکستان ہیں پورے ملک کے صدر ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ہم سے ان کے خلاف کارروائی چاہ رہے ہیں، صدر اپنے ہاتھ کھڑے کر کے کہ رہے جاؤ عدالت سے رائے لے لو، صدر پھر خود رائے لینے آتے بھی نہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ انتخابات میں التوا کے لیے الیکشن کمیشن سمیت سب ذمہ دار ہیں، مقررہ مدت سے اوپر وقت گزرنے کے بعد ہر دن آئینی خلاف ورزی ہورہی ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ صدر نے صرف بتایا ہے 89 دن فلاں تاریخ بنتی ہے، صدر کی گنتی تو ٹھیک ہے۔