سچ خبریں: مسئلہ فلسطین میں انقرہ کے حکمرانوں کے منافقانہ رویے پر تنقید میں اضافہ ہونے کے بعد ترکی کے وزیر توانائی الپ ارسلان بیرقدار نے کل دعویٰ کیا کہ اس ملک نے غزہ کی صورتحال کے جواب میں صیہونی حکومت کے ساتھ توانائی کے شعبے میں اپنے تمام مشترکہ منصوبے معطل کر دیے ہیں۔
قدس آن لائن کی رپورٹ کے مطابق ترکی کے وزیر توانائی الپ ارسلان بیرقدار کا صیہونی حکومت کے ساتھ توانائی کے شعبے میں تمام مشترکہ منصوبے معطل کیے جانے کا دعویٰ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے کہ تل ابیب کے حوالے سے انقرہ حکام کے دوہرے رویے کو کئی تنقیدوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کیا ترکی اسرائیل کے ساتھ تجارت جاری رہے گی ؟
واضح رہے کہ خود اردگان سمیت اس ملک کے رہنما غزہ میں بمباری اور بے گناہ لوگوں کے قتل عام کی مذمت کرتے ہیں لیکن دوسری طرف وہ اسرائیلی حکومت سے اقتصادی اور سیاسی تعلقات منقطع کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اعداد و شمار کے مطابق جنگ کے دوران باکو-تفلیس – جیہان پائپ لائن کی سپلائی بڑھ گئی ہے،صیہونی حکومت کے توانائی کے اہم ذرائع میں سے ایک اس پائپ لائن نے 2023 کے 9 مہینوں میں 23 ملین ٹن تیل عالمی منڈیوں کو برآمد کیا جو گزشتہ سال کی اسی مدت کے مقابلے میں ایک ملین ٹن زیادہ ہے،اس وقت صیہونی حکومت کا تقریباً 60 فیصد تیل اسی راستے سے سپلائی کیا جاتا ہے جو جمہوریہ آذربائیجان اور ترکی کے زیر انتظام ہے۔
ترکی میں 80 صیہونی کمپنیوں کی سرگرمیاں
اسلامی جمہوریہ ایران نے حال ہی میں مسلم ممالک کو صیہونی حکومت کو تیل کی فراہمی سے باز رہنے اور اس کا بائیکاٹ کرنے کی تجویز دی تھی،اگر ترکی واقعی فلسطین کا حامی ہے تو تیل کی پائپ لائن کو بند کر دینا کافی ہے تاکہ صیہونی حکومت کی فوجی مشین کو ایندھن کے مسئلے کا سامنا کرنا پڑے،لیکن اردگان ایسا نہیں کرتے، کیوں؟
ترکی کے مسائل کے ایک ماہر نے قدس کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ مشرقی بحیرہ روم میں گیس کے ذخائر کی دریافت کے ساتھ دونوں اطراف کے اقتصادی زونوں میں ترکی اسے دوطرفہ تعاون کو بحال کرنے نیز اسرائیل، یونان اور قبرص کے درمیان تعاون کی شدت کو کم کرنے کا ایک اچھا موقع سمجھتا ہے ،ترکی اور اسرائیلی حکومت کے درمیان گیس کے شعبے میں تعاون دونوں فریقوں کے لیے گیس کی یورپی مانگ اور یوکرین کے بحران کے بعد اس کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے منافع بخش سمجھا جاتا ہے۔
ترکی کے امور کے ایک ماہر نے گزشتہ ماہ خطے میں پیش آنے والی صورتحال رفت کے بارے میں کہا کہ طوفان الاقصیٰ نے مغربی ایشیا کے ممالک، قفقاز کے علاقے اور ترکی کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات کو شدید دھچکا پہنچایا ہے، حالانکہ بعض حکومتیں بالخصوص انقرہ، صیہونی حکومت سے تعلقات منقطع کرنے کی بات کر رہے ہیں لیکن 80 سے بھی زیادہ صیہونی تجارتی اور اقتصادی کمپنیاں ترکی میں بالواسطہ اور با واسطہ طور پر سرگرم ہیں۔
اسرائیل کی گیس کی یورپ کو برآمد کے حوالے سے اس ماہر نے کہا کہ دراصل یہ گیس لبنان، شام اور فلسطین کے عوام کی ہے لیکن اردگان اسلامی ممالک کے تیل اور گیس کو لوٹنے کے لیے تیار ہیں اور کسی نہ کسی طریقے سے اس کی تعمیر و ترقی کے لیے کوشاں ہے، ان کی تل ابیب اور یورپ کے درمیان زیادہ تعاون ایسے ہی ہے جیسے قافلہ سالار ہی چوروں کا ساتھی ہو۔
اردگان اسرائیل کے ساتھ تعلقات منقطع نہیں کر رہے؟
انہوں نے گزشتہ روز ریاض (سعودی عرب) میں عرب اور اسلامی سربراہی اجلاس کے موقع پر اردگان الفاظ دہراتے ہوئے کہا کہ ارگان آج یہ الفاظ بول رہے ہیں جبکہ انہوں نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ انہیں اسرائیلی حکومت سے کوئی مسئلہ نہیں ہے بلکہ غزہ میں ہونے والے جرائم کی وجہ سے انہیں ذاتی طور پر نیتن یاہو سے مسئلہ ہے،یہاں تک کہ انہوں نے نیتن یاہو کا نام اپنے دفتر سے حذف کر دیا۔
انہوں نے واضح کیا کہ اردگان صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات منقطع کرنے کے خواہاں نہیں ہیں بلکہ اسرائیل کے وزیر اعظم اور قابض حکومت کو الگ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور دوسری طرف اس حکومت کے ساتھ اپنے اقتصادی اور تجارتی تبادلے کے معاملات میں بھی خلیج پیدا نہیں کرنا چاہتے۔
مزید پڑھیں: صیہونی حکومت کے ساتھ ترکی کا تنازع، سچائی یا سیاسی کھیل؟
آخر میں ترک مسائل کے ماہر نے کہا کہ ترکی کے عوام اور علماء نے مقبوضہ علاقوں میں تیل کی منتقلی روکنے کا مطالبہ کیا ہے،انہوں نے اردگان سے کہا ہے کہ وہ باکو اور انقرہ سے توانائی کی برآمدات میں کمی کرکے غزہ میں اسرائیلی جنگی مشین کو روک دیں،تاہم گزشتہ ماہ اردگان کے الفاظ کا زیادہ تر مقصد مسلمانوں اور ترکی کے عوام کی رائے کو اپنی طرف متوجہ کرنا تھا کیونکہ گزشتہ دو دہائیوں میں صیہونی حکومت کے ساتھ ترکی کے اقتصادی مفادات کو فلسطین سمیت عالم اسلام کے تمام مسائل پر ترجیح دی گئی ہے۔