سچ خبریں:افغانستان میں طالبان کی حکومت کو قائم ہوئے ڈیڑھ سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن اس ملک کے عوام پر توجہ دینے کی ضرورت کے پیش نظر طالبان حکومت کے ساتھ بعض ممالک کے رابطوں کے باوجود ابھی تک دنیا کے کسی بھی ملک نے طالبان کی حکومت کو تسلیم کیا۔
جن ممالک نے افغانستان کے عوام پر توجہ دینے کی ضرورت کے پیش نظر اس حکومت کو تسلیم کیے بغیر طالبان حکومت کے ساتھ رابطے اور بات چیت کے کچھ ذرائع اختیار کیے ہیں، ان میں افغانستان کے پڑوسی ممالک اسلامی جمہوریہ ایران، پاکستان اور چین شامل ہیں، افغانستان کی طالبان حکومت نے بارہا دعویٰ کیا ہے کہ اس کے پاس بین الاقوامی میدان میں تسلیم کیے جانے کے لیے ضروری شرائط موجود ہیں اور اس نے بارہا دنیا کے ممالک کے ساتھ بات چیت اور کابل میں دیگر ممالک کے سفارت خانوں کی سرگرمیاں باضابطہ طور پر شروع کرنے کا مطالبہ کیا ہے،تاہم دوسرے ممالک کے کچھ تحفظات ہیں۔ جیسے سکیورٹی کے مسائل ، خواتین کے حقوق اور لڑکیوں کا مسئلہ اور ان کی تعلیم کی راہ میں رکاوٹوں کی وجہ سے طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کا عمل سست روی کا شکار ہے۔
اس دوران ایسا لگتا ہے کہ پاکستان اور چین ایک محفوظ اور مستحکم افغانستان کی ضرورت کے پیش نظر افغان حکومت کو تسلیم کرنے سے بہت زیادہ گریزاں نہیں ہیں شاید اسی لیے چین کے وزیر خارجہ چن گینگ اور طالبان کے قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی کل پاکستان پہنچے جہاں اور اسلام آباد میں وزرائے خارجہ کی سطح پر سہ فریقی اجلاس ہونے والا ہے۔
یاد رہے کہ چین طالبان حکومت کو ایسی پالیسیاں اپنانے پر راضی کرنے کی کوشش کر رہا ہے جو اس حکومت کو تسلیم کرنے کی راہ ہموار کر سکیں، واضح رہے کہ افغانستان کے پڑوسی ملک اور تیس لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کی میزبانی کرنے والا پاکستان ان ممالک میں سے ایک ہے جو اس ملک کی اندرونی صورتحال سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے اس لیے کہ افغانستان کی سلامتی کی صورتحال کا پاکستان کی سلامتی کی صورتحال پر براہ راست اثر پڑتا ہے نیز افغان طالبان اور دہشت گرد گروہ تحریک طالبان پاکستان کے درمیان تعاون کے بعض دعوؤں اور کچھ چینلز کی موجودگی نے اسلام آباد کی حکومت کو اس بات پر آمادہ کیا ہے کہ وہ ان حملوں کو روکنے کے لیے اقدامات کرے کیونکہ افغانستان میں طالبان کی حکومت کے قیام کے بعد سے پاکستان تحریک طالبان گروپ کی دہشت گردانہ کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے جو اس ملک کی حکومت اور فوج کے لیے شدید تشویش کا باعث بنا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ تجارتی اور اقتصادی اہداف چین کی پہلی ترجیح ہیں اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ خطے میں جتنا زیادہ استحکام اور سلامتی مضبوط ہوگی، تجارتی اور اقتصادی سرگرمیوں اور تعاون کو مضبوط بنانے کے لیے اتنے ہی مناسب مواقع فراہم کیے جائیں گے لہذا مشرق وسطیٰ اور مغربی ایشیاء میں امن و استحکام کو مضبوط بنانے اور تناؤ اور تنازعات کو کم کرنے کے عمل کو اپنانے والے اور اس سلسلے میں نمایاں کامیابیاں حاصل کرنے والا چین، وسطی ایشیا میں اسی طرح کے عمل کی پیروی کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور اس پر توجہ دے رہا ہے،وہ قدرتی وسائل کے میدان میں افغانستان کی نمایاں صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ ایک ایسا ملک جو بیلٹ اینڈ روڈ کے بہت بڑے منصوبے کی راہ میں کردار ادا کر سکتا ہے، اس وقت وہ افغانستان میں استحکام اور امن کے قیام میں مدد کے لیے کوشاں ہے اور اگر اسے اس مقصد کے حصول کے لیے ضروری لگا تو وہ دوسرے ممالک کے سامنے طالبان کو تسلیم کرنے کا منصوبہ پیش کر سکتا ہے، بہرصورت اسلام آباد کی میزبانی میں ہونے والا چین پاکستان افغان طالبان سہ فریقی اجلاس عالمی توجہ کا مرکز رہے گا اور اس سہ فریقی اجلاس میں کوئی بھی ممکنہ معاہدہ علاقائی صورتحال کو متاثر کر سکتا ہے۔