سچ خبریں:ایک صہیونی عسکری تجزیہ کار نے فلسطینی مزاحمتی تحریک کے سامنے اسرائیل کی ناکامی اور حماس کے ساتھ جاری مذاکرات میں تل ابیب کی جانب سے دی جانے والی مراعات کا اعتراف کیا ہے۔
عربی 21 نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق صہیونی تجزیہ کار عاموس ہرئیل نے عبرانی روزنامہ ہارٹیز میں اپنے شائع ہونے والے اپنے کالم میں لکھا کہ تل ابیب اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے کے لیے مذاکرات اپنے اختتام کو پہنچ رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: حماس اور حزب اللہ کے خلاف اسرائیل کی ناکامی
انہوں نے کہا کہ تل ابیب اس معاہدے کو حتمی شکل دینے کے لیے تیار ہے، لیکن کچھ رکاوٹیں اب بھی موجود ہیں، نیتن یاہو نے داخلی اور بین الاقوامی دباؤ کے تحت اپنی پہلے کی سخت پوزیشنز خاص طور پر فیلڈلفیا محور کے حوالے سے ،تبدیل کر لی ہیں۔
ہرئیل نے مزید لکھا کہ ہم نے غزہ میں اپنے اسرائیلی قیدیوں اور فوجیوں کو کھو دیا، اور تل ابیب اس معاہدے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے تکلیف دہ مراعات دینے پر مجبور ہے۔
انہوں نے کہا کہ نیتن یاہو کے اعلانات، جن میں غزہ سے فلسطینی مزاحمت کو مکمل ختم کرنے اور حماس کو نابود کرنے کے دعوے شامل تھے، کبھی پورے نہیں ہوں گے۔
یہ اعتراف اس بات کا مظہر ہے کہ اسرائیل، جو کئی دہائیوں سے فلسطینی علاقوں پر قبضہ اور مظالم جاری رکھے ہوئے ہے، آج اپنی عسکری اور سیاسی حیثیت میں شدید زوال کا شکار ہے۔
فلسطینی مزاحمت نے اسرائیل کے خلاف اپنی حکمت عملی کو نہ صرف میدان جنگ میں بلکہ سفارتی محاذ پر بھی کامیاب بنایا ہے۔
اسرائیلی حکومت پر خاص طور پر جنگ بندی کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات اور مراعات کے حوالے سے ، بین الاقوامی برادری اور داخلی عوامی دباؤ میں اضافہ ہو رہا ہے۔
مزید پڑھیں: صیہونیوں کی حماس کے خلاف ناکامی کی وجوہات؛ صیہونی جنرل کا تجزیہ
تل ابیب نے فلسطینیوں کے ساتھ مذاکرات کے دوران ایسے مطالبات اور شرائط قبول کیے ہیں جو اس سے قبل ناممکن تصور کیے جا رہے تھے۔
ہرئیل کے مطابق، اسرائیل کی حالیہ پالیسیز نے اس کی داخلی کمزوری اور فلسطینی مزاحمت کی بڑھتی ہوئی طاقت کو واضح کر دیا ہے۔ تل ابیب کی جانب سے مراعات، اس حقیقت کا ثبوت ہیں کہ صہیونی حکومت اپنے دعووں کے برخلاف جنگ بندی کے معاہدے میں شکست خوردہ حیثیت میں ہے۔