سچ خبریں:عراق کی عہداللہ تحریک کے سکریٹری جنرل، سید ہاشم الحیدری نے فلسطین کے معاملے میں اسلامی جمہوریہ ایران کے اہم کردار کو سراہتے ہوئے عرب ممالک کی بے عملی پر سخت تنقید کی، انہوں نے کہا کہ ہم ان عرب ممالک کے ساتھ ہیں جنہوں نے فلسطین کی حمایت میں ایک گولی تک نہیں چلائی۔
سید ہاشم الحیدری، جو ابوباقر کے لقب سے مشہور ہیں اور عراق کے سید حسن نصراللہ کے نام سے جانے جاتے ہیں، الحشد الشعبی کے معاون ثقافتی امور اور عہداللہ تحریک کے رہنما ہیں۔ ان کی وفاداری ایران کے رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ سید علی خامنہای اور عراق کے مرجع تقلید آیت اللہ سید علی سیستانی کے لیے واضح ہے۔
سید ہاشم الحیدری نے کہا کہ زمانے کے مطابق جوابدہی ضروری ہے
ہمیں نبی اکرم کے بعد کے واقعات، کربلا، یا دیگر تاریخی سانحات کے بارے میں نہیں، بلکہ اپنے وقت کے حالات کے بارے میں جواب دینا ہوگا۔
انہوں نے مزید کہا کہ آج کے دور میں کوئی درمیانی راستہ نہیں ہے۔ ہمارے سامنے صرف دو راستے ہیں، آج کا دشمن یزید کا اسلام نہیں بلکہ امریکہ ہے، ان کے مطابق امریکہ کے سب سے بڑا دشمن سید علی خامنہای ہیں۔
سید حسن نصراللہ کے ساتھ اپنی فکری مماثلت کے بارے میں سید ہاشم الحیدری کا کہنا ہے کہ سید حسن نصراللہ نے انہیں کہا تھا کہ تم میری تصویر ہو۔
عہداللہ تحریک کی بنیاد
عہداللہ تحریک کی بنیاد سید ہاشم الحیدری نے شہید قاسم سلیمانی کی شہادت کے چند ماہ بعد رکھی، ان کے مطابق، امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف ثقافتی محاذ پر کام کرنا عسکری مقابلے سے زیادہ مشکل ہے، اس تحریک کے اہم اہداف میں دینی، ثقافتی، اور سماجی منصوبے شامل ہیں۔
فلسطین اور صیہونی حکومت کے خلاف عراق کا کردار
انہوں نے فلسطین کے حق میں عراق کے کردار اور 7 اکتوبر کے بعد سے صیہونی حکومت کے خلاف بڑھتے ہوئے اقدامات کو اجاگر کیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ مزاحمتی محاذ کے اتحاد کے ساتھ علاقائی تبدیلیاں عراق اور پورے خطے پر اثر ڈالیں گی۔
گفتگو کے اہم نکات:
1. عراق میں مزاحمتی گروہوں کی تشکیل کی تاریخ۔
2. داعش کے خلاف جنگ میں عراق کی صورت حال۔
3. عہداللہ تحریک کی تشکیل کے محرکات اور اہداف۔
4. فلسطین کے حق میں عراق کے کردار اور صیہونی حکومت کی مذمت۔
5. امریکی انتخابات کے خطے، خاص طور پر عراق پر اثرات۔
6. مزاحمتی محاذ کی موجودہ صورت حال۔
سید ہاشم الحیدری: عراقی مقاومت اور داخلی صورت حال پر ایک اہم گفتگو
سوال: عراق میں بہت سے مزاحمتی گروہ موجود ہیں۔ کیا یہ گروہ آپس میں متحد ہیں؟ عراق کی حکومت اور عوام ان کے ساتھ کس حد تک ہم آہنگ ہیں؟ کیا امریکی فوج کو دشمن سمجھا جاتا ہے؟
سید ہاشم الحیدری: عراق میں مزاحمتی گروہوں کی تشکیل مختلف مراحل میں ہوئی ہے، 2003 سے 2011 تک جب امریکہ کی فوج عراق میں موجود تھی، یہ گروہ فعال نہیں تھے، اس وقت چند گروہ موجود تھے جو امریکی فوج کے خلاف اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: حماس کا غزہ کی حمایت میں عرب اسلامی اتحاد پر زور
داعش کا ظہور اور مزاحمتی گروہوں کی نئی تشکیل
2014 میں داعش کے عراق میں داخلے اور موصل پر قبضے کے بعد، آیت اللہ سید علی سیستانی کے فتویٰ پر الحشد الشعبی کی تشکیل ہوئی، جس میں مختلف مزحمتی گروہ شامل تھے، اس دوران جنرل قاسم سلیمانی اور ابومهدی المهندس کی قیادت میں ان گروہوں کو منظم کیا گیا، ہر گروہ کو ایک مخصوص جغرافیائی علاقے کی ذمہ داری دی گئی اور ان کے درمیان کاموں کی تقسیم کا نظام بنایا گیا۔
سیاسی اختلافات اور اتحاد
عراق کے تمام گروہوں کا مشترکہ پہلو مزاحمت کا جذبہ ہے لیکن ان کے درمیان سیاسی اختلافات بھی موجود ہیں، مزاحمتی تحریک کے بہت سے رہنما بعد میں انتخابات میں حصہ لے کر حکومت کا حصہ بن گئے، کچھ گروہ، خاص طور پر وہ جو حکومت کا حصہ ہیں، امریکی دباؤ کی وجہ سے صیہونی حکومت کے خلاف جنگ میں شامل نہیں ہوتے، جبکہ وہ گروہ جو حکومت کا حصہ نہیں ہیں، فلسطینی عوام کی حمایت میں صیہونی حکومت کے خلاف میزائل اور ڈرون حملے کرتے ہیں۔
امریکی افواج اور عراق کی صورت حال
عراق میں امریکی فوجی اڈے اس وقت فعال نہیں ہیں، اور عراقی حکومت ان کے انخلا کے لیے مذاکرات کر رہی ہے۔
سوال: عراق کی مذہبی اتھارٹی کا مزاحمتی تحریک کے بارے میں کیا موقف ہے؟
سید ہاشم الحیدری: عراق کی مذہبی اتھارٹی خاص طور پر آیت اللہ سیستانی کا موقف نظام سیاسی اور حکومتی ڈھانچے سے ہم آہنگ ہے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہتھیاروں کا استعمال صرف حکومتی دائرہ کار میں ہونا چاہیے۔
غیر قانونی یا غیر سماجی طور پر ہتھیاروں کا استعمال ہمیشہ نقصانات کا باعث بنتا ہے، مثال کے طور پر، انتقام لینے کے لیے ہتھیاروں کے استعمال کو مزاحمتی گروہوں سے منسوب کر دیا جاتا ہے، جس سے اس تحریک کو بدنام کیا جاتا ہے۔
قانونی دائرہ کار میں ہتھیاروں کا استعمال
آیت اللہ سیستانی نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا ہے کہ ہتھیار صرف حکومتی اور قانونی دائرے میں استعمال کیے جائیں لیکن مرجعیت کی جانب سے مزاحمتی گروہوں کے خلاف کسی قسم کی مخالفت میں بیان جاری نہیں ہوا۔
عراق میں مزاحمتی گروہوں کی سرگرمیاں مذہبی اتھارٹی، حکومت اور عوام کے تعاون سے جڑی ہوئی ہیں۔ تاہم، امریکی دباؤ اور سیاسی اختلافات ان کے درمیان چیلنجز پیدا کرتے ہیں۔ مزاحمت کا جذبہ اور فلسطین کی حمایت عراق کے ان گروہوں کی پہچان ہے، جو عراق کی داخلی اور خارجی پالیسی میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
سوال: امریکہ کی جانب سے ایران کو عرب دنیا کا دشمن قرار دینا ایک جھوٹا پروپیگنڈا ہے، اس سلسلہ میں عراقی عوام کا کیا کہنا ہے؟
سید ہاشم الحیدری: عراق میں امریکی پروپیگنڈے کے باوجود، عوام کی اکثریت ایران کو دشمن نہیں سمجھتی، امریکہ عراق میں ایران کے خلاف نرم جنگ میں مصروف ہے، لیکن عراقی عوام اس بیانیے کو قبول نہیں کرتے۔
عراق میں حکومتی ڈھانچے مضبوط نہیں ہیں، سیاسی اختلافات اور آزادیٔ اظہار رائے موجود ہے، جس سے امریکی پروپیگنڈا کو پھیلنے کا موقع ملتا ہے۔
بعض دانشور، جو اسلامی میڈیا سے دور ہیں، ممکن ہے اس پروپیگنڈا سے متاثر ہوں۔ عراق میں میڈیا کا فقدان ایک کمزوری ہے؛ مرکزی سرکاری ٹیلی ویژن کی عدم موجودگی کے باعث عوام زیادہ تر سیٹلائٹ اور سوشل میڈیا پر انحصار کرتے ہیں، جو امریکی بیانیے کے پھیلاؤ میں معاون ثابت ہوتا ہے۔
سوال: آپ نے ایران کے خلاف امریکی پروپیگنڈے اور اس کے اثرات کے بارے میں بات کی۔ ایران کے نظام کی وضاحت اور اس کا دفاع کس حد تک ضروری ہے؟
سید ہاشم الحیدری: یہ پہلی بار ہے کہ میں اس مسئلے کو کھل کر بیان کر رہا ہوں، اسلامی جمہوریہ ایران کے میڈیا کی کارکردگی بیرون ملک انتہائی کمزور ہے۔
ایران کی اقتصادی ترقی، مزاحمتی محاذ میں اس کے کردار اور اسلامی انقلاب کے مؤقف کا دفاع کرنے کی صلاحیت بین الاقوامی میڈیا میں متوازن اور موثر نہیں۔
یہی وجہ ہے کہ کچھ دانشور امریکی پروپیگنڈا کو قبول کر لیتے ہیں، جو ایران کے خلاف جھوٹ پھیلاتے ہیں، جیسے: ایران عراق کا دشمن ہے یا ایران عرب دنیا کا دشمن ہے۔
ہم جیسے لوگ اپنی تقریروں میں ایران کا دفاع کرتے ہیں اور اس کے مؤقف کی وضاحت کرتے ہیں۔ ہمارے لیے شرعی طور پر یہ ضروری ہے کہ ہم ایران کے نظام اور اس کے انقلاب کی حقیقت کو واضح کریں، کیونکہ اسلامی جمہوریہ ایران فلسطین کا سب سے پہلا مدافع ہے۔ ایران کے کردار کو مزاحمتی محاذ اور خطے میں مزید نمایاں اور مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔
میڈیا کی کمزوری
اہل میڈیا، مقررین اس میدان میں اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کر رہے ہیں، بصیرت کا مطلب یہ ہے کہ میں منبر پر کیا کہوں جو دشمن کے خلاف ہو اور اسلامی نظام کے حق میں ہو۔ بدقسمتی سے، کچھ لوگوں میں اخلاص تو ہے لیکن بصیرت نہیں، الحمدللہ، ایسے بہت سے علما اور رہنما ہیں جو اسلامی جمہوریہ کے موقف کو واضح کرنے میں مصروف ہیں۔
سوال: عہداللہ تحریک کی بنیاد کیسے رکھی گئی، اور اس کے کیا مقاصد ہیں؟
سید ہاشم الحیدری: عہداللہ تحریک کی بنیاد جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کے چند ماہ بعد رکھی گئی، یہ تحریک سید حسن نصراللہ سمیت دیگر رہنماؤں سے مشاورت کے بعد وجود میں آئی، اس تحریک نے قومی اور اسلامی شناخت کے ساتھ اپنے وجود کا اعلان کیا۔
تحریک کے مقاصد:
1. ثقافتی، دینی اور سماجی کاموں کی انجام دہی: عرب دنیا میں ایک بڑا خلاء ثقافتی میدان میں ہے، ہم نے دیکھا کہ ان ممالک میں مزاحمتی محاذ کے ساتھ کوئی مضبوط ثقافتی محاذ نہیں ہے۔
2. فکری اور تہذیبی مزاحمتی میدان کی تشکیل: عرب دنیا میں ایک مضبوط ثقافتی اور فکری محاذ تشکیل دینے کی اشد ضرورت ہے، تاکہ دشمن کے پروپیگنڈے کا مقابلہ کیا جا سکے۔
عہداللہ تحریک کی فعالیت اور اثرات
عہداللہ تحریک مزاحمتی محاذ کا ایک اہم حصہ ہے، جو نہ صرف عراق بلکہ پورے خطے میں فکری اور ثقافتی میدان میں اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔ یہ تحریک عرب دنیا کے ثقافتی خلا کو پر کرنے اور مزاحمت کی فکری بنیادوں کو مضبوط کرنے کے لیے کوشاں ہے۔
مزاحمتی تحریک صرف ایک مسلح تنظیم نہیں بلکہ ایک جامع فکر ہے: سید ہاشم الحیدری
سید ہاشم الحیدری نے مزاحمتی تحریک کی حقیقت اور اس کے مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس تحریک کا مطلب صرف ہتھیار اٹھانا ہے، جبکہ یہ سوچ بالکل غلط ہے، مزاحمت صرف مسلح جدوجہد نہیں بلکہ ایک جامع فکری، سماجی اور دینی تحریک ہے۔
حزب اللہ کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حزب اللہ صرف ایک سیاسی جماعت یا تنظیم نہیں ہے بلکہ یہ لبنان کے عوام میں رچ بس گئی ہے، یہی وجہ ہے کہ لبنان میں مزاحمتی عوام کہا جاتا ہے۔
عراق میں مقاومت اور عہداللہ تحریک
عراق میں مختلف مزاحمتی گروہ موجود ہیں، جن میں الحشد الشعبی ایک نمایاں مثال ہے، عراق میں اس طرح کے گروہوں کی تعداد کم نہیں، لیکن ان گروہوں کو ایک فکری اور سماجی تحریک میں ڈھالنے کی ضرورت تھی، اس ضرورت کے تحت عہداللہ تحریک کا قیام عمل میں آیا، جو مقاومت کے فکری اور دینی پہلو کو نمایاں کرتی ہے۔
عہداللہ کی سرگرمیاں اور اہداف:
– عوام میں مزاحمت کی فکر کا فروغ: عراقی عوام مذہبی اور دینی رجحانات رکھتے ہیں، وہ اربعین کے موکبوں اور دیگر مذہبی سرگرمیوں میں بھرپور شرکت کرتے ہیں، لیکن مزاحمت کی فکر کو ابھی سماجی سطح پر عام کرنا باقی ہے۔
– تعلیمی اور تربیتی پروگرام:
– کشافہ العباس: یہ رضاکاروں کی طرز پر نوجوانوں کے لیے ایک تربیتی پروگرام ہے، جو 6 سے 14 سال کے لڑکوں اور لڑکیوں کو امام خمینی کے دینی مکتب کے مطابق تربیت دیتا ہے۔
-کالج کے طلبہ کے لیے اجتماعات: عہداللہ تحریک اسکول اور کالج کی سطح پر بھی فعال ہے اور عراقی نوجوانوں کو مقاومت کی فکری تربیت فراہم کرتی ہے۔
– خانہ بدوشوں کے لیے منصوبے: عراقی قبائل کے ساتھ بھی عہداللہ تحریک کا قریبی رابطہ ہے، جو انہیں مزاحمت کے دینی اور سماجی پہلوؤں سے جوڑتا ہے۔
– یونیورسٹیوں میں موجودگی: عہداللہ تحریک عراق کی یونیورسٹیوں میں بھی فعال کردار ادا کر رہی ہے تاکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو مقاومت کی فکر سے جوڑا جا سکے۔
انہوں نے سید حسن نصراللہ کے قول کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ عہداللہ کی تحریک، امام خمینی کی دینی تحریک کی روشنی میں ایک دینی تحریک ہے، نہ کہ صرف ایک تنظیم یا گروہ۔
میڈیا کی کمزوری اور مزاحمتی تحریک کا پیغام
انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی سطح پر مزاحمتی تحریک کے پیغام اور فکر کو عام کرنے کے لیے میڈیا کا کردار ناکافی رہا ہے، ان کے مطابق، میڈیا کو مزاحمت کے فکری، دینی اور سماجی پہلوؤں کو اجاگر کرنے کے لیے زیادہ موثر انداز میں کام کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ عراق ایک مذہبی ملک ہے، لیکن بدقسمتی سے یہاں اسلامی حکومت ویسی نہیں جیسی ایران میں ہے، یہ کمی ثقافتی کام اور تبیین کے ذریعے پوری کی جا سکتی ہے۔
فکری اور ثقافتی میدان میں چیلنجز
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ فکری اور ثقافتی جنگ، عسکری محاذ سے زیادہ مشکل ہے، آج امریکہ کے خلاف فکری اور ثقافتی میدان میں مقابلہ عسکری محاذ سے زیادہ مشکل ہو چکا ہے۔
عراق میں کردار:
عراق میں اپنے کردار کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انہیں دبیرکل عہداللہ عراق کہا جاتا ہے، لیکن وہ اپنے لیے یہ عنوان اہم نہیں سمجھتے۔ ان کے مطابق، مزاحمتی محاذ کا خادم اور کارکن ہونا ان کے لیے زیادہ اہم ہے۔
فوجی میزائل اور ثقافتی میزائل کی ضرورت
انہوں نے کہا کہ جیسے عسکری میدان میں میزائل کی ضرورت ہوتی ہے، ویسے ہی ثقافتی میدان میں میزائل کی ضرورت ہے، عہداللہ عراق کا مشن مزاحمت کی ثقافت کو فروغ دینا اور عوام کو اس کی طرف راغب کرنا ہے۔
عہداللہ عراق دوسرے مقاومتی گروہوں سے کسی قسم کا اختلاف نہیں رکھتا، یہ ایک الگ میدان میں کام کرتا ہے، جہاں مزاحمت کی ثقافت کو نشر کرنا اور عوام کو مزاحمت کے ساتھ جوڑنا اس کی ترجیحات میں شامل ہے۔
عہداللہ عراق: مزاحمتی ثقافت کی علمبردار
عہداللہ تحریک عراق میں نہ صرف مقاومت کی ثقافت کو فروغ دینے کے لیے سرگرم ہے، یہ تحریک عراق کے نوجوانوں، طلبہ، اور قبائلی عوام کو ایک مضبوط فکری بنیاد فراہم کرنے کے لیے کام کر رہی ہے۔
سوال:عراق کے مزاحمتی گروہوں کا طوفان الاقصی کے بعد فلسطین کے لیے کیا کردار رہا ہے؟
سید ہاشم الحیدری:۷ اکتوبر ۲۰۲۳کو طوفان الاقصی کی جنگ کے آغاز کے بعد، عراقی مقاومت گروہوں نے فلسطینی عوام کی حمایت اور صیہونی حکومت کی مذمت میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
حکومتی شراکت اور محدود کارروائیاں:
– وہ افراد جو محمد شیاع سودانی کی حکومت کا حصہ بنے، وزیراعظم کی جانب سے عراق میں امن و امان قائم رکھنے کی درخواست کے باعث براہ راست عسکری کارروائیوں میں شامل نہیں ہوئے۔
– اس میں امریکہ کے دباؤ کا بھی کردار رہا۔
میدان جنگ میں عوامی مزاحمت:
– عراق میں مقاومت کے عوامی گروہ روزانہ کی بنیاد پر فلسطین کی حمایت میں عسکری کارروائیاں انجام دیتے ہیں۔
– وزیراعظم محمد شیاع سودانی نے کئی بار اپنی تقاریر میں صیہونی حکومت پر شدید تنقید کی ہے۔
فلسطین کی حمایت میں عراقی علما کا کردار
آیت اللہ سیستانی کا کردار:
– طوفان الاقصی کے آغاز کے تین دن بعد، آیت اللہ سیستانی نے غزہ کی حمایت میں پہلا پیغام جاری کیا۔
– کچھ وقت بعد دوسرا پیغام بھی جاری کیا گیا، جس میں فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی پر زور دیا گیا۔
– آیت اللہ سیستانی نے سابقہ حکومتوں، حتیٰ صدام حسین کے دور میں بھی فلسطین کی حمایت میں بیانات جاری کیے تھے۔
عراقی عوام کی حمایت:
– عراق کے لوگ، جو بڑی تعداد میں آیت اللہ سیستانی کے مقلد ہیں، ان کے فلسطین کے بارے میں ان کے موقف کی حمایت کرتے ہیں۔
– طوفان الاقصی کے بعد عراقی عوام نے احتجاجی مظاہرے، کانفرنسز، اور شبِ شعر کے ذریعے فلسطین کے لیے اپنی حمایت کا اظہار کیا۔
لبنان کے ساتھ تعاون اور تاریخی کردار
– سید حسن نصراللہ کی شہادت کے بعد، عراق کے عوام نے لبنان کے لیے اپنی حمایت میں ایران کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مزاحمتی محاذ کو مدد فراہم کی۔
– جنگ لبنان کے دوران، کئی لبنانی خاندانوں کو عراقی عوام نے پناہ دی، جس سے عرب دنیا میں اتحاد کی ایک مثال قائم ہوئی۔
صیہونی حکومت کی قتل کی سیاست اور مزاحمت کی پائیداری
صیہونی حکومت کی قتل کی حکمت عملی:
صیہونی حکومت کی قتل کی سیاست دنیا بھر میں بے مثال ہے۔
> "کوئی اور حکومت صیہونی حکومت کی طرح اپنے سرحدوں کے باہر اس قدر وسیع پیمانے پر ترور نہیں کرتی۔”
شہید رہنما:
صیہونی حکومت نے مقاومت کے کئی اہم رہنماؤں اور کمانڈرز کو نشانہ بنایا، جن میں نمایاں نام درج ذیل ہیں:
– جنرل قاسم سلیمانی
– ابومہدی المہندس
– فواد شکر
– اسماعیل ہنیہ
– سید حسن نصراللہ
– ہاشم صفی الدین
– یحییٰ سنوار
عراق میں قتل کی تاریخ:
عراق میں بھی ترور کی ایک طویل تاریخ رہی ہے، جن میں نمایاں شخصیات شامل ہیں:
– محمد باقر صدر
– خاندان حکیم
– مشتاق السعیدی
مزاحمتی محاذ کی پائیداری اور شہداء کی قربانی
شہادت کا اثر:
مزاحمتی محاذ کے کمانڈرز کی شہادت کے باوجود، یہ محاذ نہ صرف زندہ رہا بلکہ مزید مضبوط ہوا
شہادت مزاحمتی محاذ کے لیے نقصان نہیں بلکہ ایک نئی زندگی ہے۔
اسلامی تحریکات کی سنت:
اسلامی تاریخ میں انبیاء اور اہل بیت کی زندگیاں شہادت پر ختم ہوئیں، لیکن اسلام کی تحریک ہمیشہ جاری رہی۔
– اہل بیت کی شہادت کے باوجود اسلام کی حرکت کبھی رکی نہیں۔
– امام خمینی کی وفات کے بعد، آیت اللہ خامنہ ای نے ان کے مشن کو مزید تقویت دی اور عصر حاضر کے مطابق اس تحریک کو آگے بڑھایا۔
تشکیلاتی بنیاد:
مزاحمتی محاذ کی کامیابی کسی ایک شخص پر منحصر نہیں بلکہ یہ تشکیلاتی کام پر مبنی ہے۔
– سید حسین بدرالدین الحوثی کی شہادت کے بعد انصاراللہ مزید مضبوط ہوا۔
– حزب اللہ، حماس، الحشد الشعبی، اور سپاہ قدس بھی انہیں اصولوں پر مضبوط بنیادوں پر کھڑے ہیں۔
خونِ شہداء کا اثر:
– شہداء کا خون مقاومت کی تحریک کو نئی طاقت دیتا ہے۔
– شہادت ایک ذاتی فتح ہے اور اس کا اثر اجتماعی طور پر محسوس کیا جاتا ہے۔
مزاحمتی محاذ کا اعتقادی ڈھانچہ:
مزاحمتی تحریک ایک اعتقادی تحریک ہے جو اسلامی اصولوں پر قائم ہے اور یہی اس کی طاقت اور پائیداری کی وجہ ہے۔
عراق کے داعش کے خلاف جنگ: ایک تاریخی جائزہ
داعش کا ظہور اور عراق کی صورت حال:
سوال:داعش کے خلاف جنگ میں عراق کے کردار کے بارے میں آپ کیا کیا کہنا ہے؟
سید ہاشم الحیدری : داعش ایک امریکی منصوبہ تھا، جسے امریکہ نے کبھی باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا، لیکن 2011 میں یہ شام اور 2012 میں عراق پہنچا، اس وقت عراق کو شدید سیاسی اختلافات، سماجی تقسیم اور سکیورٹی کمزوریوں کا سامنا تھا۔ اہم شہر موصل صرف تین گھنٹوں میں داعش کے قبضے میں چلا گیا، جس کے ساتھ ہی عراقی عوام کے دل بھی ٹوٹ گئے، بہت سے لوگ فوراً فرار کر گئے، اور ملک میں ایک خوفناک بحران پیدا ہو گیا۔
تین اہم عوامل: داعش کے خلاف کامیابی کی کنجی
1. آیتالله سیستانی کا فتوای جهاد:
آیتالله سیستانی کے جهاد کے فتویٰ نے عراقی عوام میں نیا جوش پیدا کیا، ہزاروں نوجوان فتوے پر لبیک کہتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے اور اپنے ملک کی حفاظت کے لیے تیار ہو گئے۔
2. ایران اور جنرل قاسم سلیمانی کا کردار:
حاج قاسم سلیمانی اور جمهوری اسلامی ایران نے عراق کی حمایت میں فوری اقدام کیا۔ ایران کی قیادت اور حاج قاسم کی حکمت عملی نے مقاومت کے لیے بنیادی ڈھانچہ فراہم کیا۔
3. الحشد الشعبی کی تشکیل:
الحشد الشعبی کا قیام داعش کے خلاف جنگ میں ایک فیصلہ کن اقدام ثابت ہوا۔ اس میں ابومهدی المهندس اور جنرل قاسم سلیمانی کی قیادت نے مختلف گروہوں کو متحد کیا، حزب اللہ کے چند کمانڈر بھی اس جنگ میں شامل ہوئے۔
امریکی کمانڈرز کا اندازہ تھا کہ داعش کو عراق سے نکالنے میں 30 سال لگیں گے، لیکن ان تین عوامل کی وجہ سے عراق نے 3 سال کے اندر داعش کو شکست دی اور اپنے علاقے آزاد کرائے۔
داعش اور اربعین: مجاہدین کا تاریخی کردار
اگر الحشد الشعبی اور مجاہدین نہ ہوتے تو اربعین کے زائرین کا سفر بھی ممکن نہ ہوتا، انہوں نے نہ صرف اربعین کے راستے محفوظ کیے بلکہ زائرین کو ہر ممکن سہولت فراہم کی۔ مجاہدین نے اپنی جانیں قربان کر کے راہ مشایه کو کھلا رکھا اور زائرین امام حسین (ع) کے لیے امن کو یقینی بنایا۔
سوال:امریکی انتخابات کا عراق پر کیا اثر ہے؟
سید ہاشم الحیدری :امریکہ کے سیاسی نظام میں جمہوریہ پسندوں اور ڈیموکریٹس کے درمیان کوئی حقیقی فرق نہیں۔
امریکہ میں فیصلہ سازی صرف صدر کے ہاتھ میں نہیں ہوتی، بلکہ یہ بڑی تیل، اسلحہ، اور میڈیا کی کمپنیاں ہیں جو پالیسیز بناتی ہیں۔
سیاسی مثالیں:
– باراک اوباما اور جو بائیڈن کے دور میں بھی جنگوں کا سلسلہ جاری رہا۔
– ڈونالڈ ٹرمپ کے دور میں حاج قاسم سلیمانی کی شہادت نے امریکی پالیسیز کے حقیقی چہرے کو مزید عیاں کیا۔
امریکی سیاست کا تسلسل:
امریکی پالیسی کی بنیاد سلطہ، اشغالگری، اور صیہونی حکومت کی حمایت پر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صدر کا چہرہ بدلنے سے عراق اور خطے پر اثرات کم ہی تبدیل ہوتے ہیں۔
سوال: نیتن یاہو اور اسرائیل کے منصوبے اور مزاحمتی تحریک نیز فلسطین کی حمایت میں ایران کا کیا کردار ہے؟
سید ہاشم الحیدری :صیہونی حکومت کے وزیراعظم بنیامین نتنیاہو کے ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ دوستانہ تعلقات نے اسرائیل کو امریکہ کی مزید مدد اور حمایت حاصل کرنے میں مدد دی۔
ٹرمپ کے دورِ صدارت میں اسرائیل کی حمایت میں اضافہ اور جنگ کے امکانات مزید شدت اختیار کر گئے۔ پروجیکٹ نیو مڈل ایسٹ، جسے گریٹر اسرائیل بھی کہا جاتا ہے، کئی دہائیوں سے امریکہ کا ایجنڈا رہا ہے۔ حوادثِ غزہ اور ضاحیہ (جنوبی لبنان) کے بعد اب یہ ممکنہ طور پر مرحلہ سوم، یعنی شام کی طرف بڑھ رہا ہے۔
محور مقاومت اور وحدت ساحات کی موجودہ صورت حال
وحدت ساحات:
وحدت ساحات یا میدانوں کا اتحاد، سید حسن نصراللہ کا ایک اہم تصور تھا، جو طوفان الاقصی کے بعد محور مقاومت کے لیے ایک اہم موقع بن گیا۔
– حزب اللہ لبنان نے ۷ اکتوبر ۲۰۲۳ کے ایک دن بعد یعنی ۸ اکتوبر کو شہید سید حسن نصراللہ کی قیادت میں فلسطینی عوام کی حمایت کا اعلان کیا۔
– شام کی صورت حال مشکل ہے، لیکن لبنان اور فلسطین کے جغرافیائی تعلق کی وجہ سے حزب اللہ کا کردار کلیدی ہے۔
– عراقی مقاومت گروہ بھی چند دن بعد اس جنگ میں شامل ہوئے اور تاحال فلسطینی عوام کی حمایت میں روزانہ کئی کارروائیاں کر رہے ہیں۔
– یمن کی شمولیت اور عبدالملک بدرالدین الحوثی کا فیصلہ تاریخی اور شرعی بنیادوں پر ایک اہم اقدام تھا۔
ایران کا کردار:
ایران نے دمشق میں اپنے قونصل خانے پر حملے کے بعد محور مقاومت میں عملی طور پر شمولیت اختیار کی۔
– وعدہ صادق 1 اور وعدہ صادق 2 جیسے آپریشنز میں شرکت اور فلسطین کی حمایت میں بڑے قدم اٹھائے گئے۔
– ایران کی مزید شمولیت کے لیے وعدہ صادق 3 کی توقع کی جا رہی ہے۔
ایران: محور مقاومت کا ستون
فلسطین کے لیے ایران کی حمایت:
چند مقاومت رہنماؤں کی رائے تھی کہ ایران فلسطین کے مسئلے سے دور ہو چکا ہے۔ تاہم، سید حسن نصراللہ نے ایران کے کردار کی وضاحت کی اور بتایا کہ ایران محور مقاومت، خاص طور پر جهاد اسلامی اور حماس کے لیے بنیادی حمایت فراہم کرتا ہے۔
> جمهوری اسلامی ایران فلسطین کے مسئلے میں نمبر ون کردار ادا کرتا ہے۔
عرب ممالک کا کردار:
اس کے برعکس، عرب ممالک نے فلسطین کے لیے نہایت کمزور کردار ادا کیا۔
– طوفان الاقصی کو ایک سال اور ایک ماہ گزرنے کے باوجود، عرب ممالک نے فلسطینی عوام کے لیے حتیٰ کہ پانی اور خوراک فراہم کرنے میں بھی کوتاہی کی۔
حماس کی فوجی طاقت:
حماس کی موجودہ فوجی طاقت کئی سالوں کی ایرانی حمایت کا نتیجہ ہے، جس میں سپاه قدس اور حاج قاسم سلیمانی کا اہم کردار شامل ہے۔
– آج مقاومت کے گروہ جو اسلحہ تیار کرتے ہیں، وہ ایرانی تجربات اور حاج قاسم کی رہنمائی کا نتیجہ ہیں۔
– شہید اسماعیل ہنیہ نے شہید جنرل قاسم سلیمانی کی نماز جنازہ میں تین بار انہیں شہید القدس کے خطاب سے یاد کیا، جو فلسطین کی آزادی کے لیے ان کے عظیم کردار کو واضح کرتا ہے۔
وحدت میدان: قدرت نظامی، ثقافتی، و جهاد ترکیبی
اسلامی جمہوریہ ایران کی فوجی طاقت
مزاحمتی محاذ میں ایران کا کردار بے مثال ہے، وعدہ صادق 2 کے دوران ایران کے میزائل حملے، جنہیں مغربی میڈیا نے سنسر کیا، نے صیہونی حکومت پر گہرا اثر چھوڑا۔ یہ حملے مزاحمتی تحریک کے بعض گروہوں کے کئی مہینوں کے حملوں سے زیادہ موثر تھے۔
ایران کے میزائلوں کی دقت اور طاقت مقاومت کے دیگر گروہوں سے قابل موازنہ نہیں۔
حزب اللہ کا کردار:
شمالی فلسطین میں حزب اللہ کی موثر موجودگی، مقاومت کے لیے ایک مضبوط دفاعی اور حملہ آور قوت ہے۔ حزب اللہ نے میدان میں اپنی ثابت قدمی سے مقاومت کو مزید تقویت بخشی ہے۔
میدانوں کے اتحاد کو فوجی میدانوں سے زیادہ وسیع مفہوم
صرف عسکری میدان نہیں:
وحدت میدانها صرف نظامی کارروائیوں تک محدود نہیں بلکہ یہ ثقافتی، فکری، اور جهاد تبیین جیسے محاذوں پر بھی ہونی چاہیے۔
– یمن کی مثال دیتے ہوئے، ہر جمعہ کو لاکھوں یمنی فلسطینی عوام کی حمایت میں سڑکوں پر نکلتے ہیں، جو جهاد تبیین اور مظلومیت کے پیغام کو عام کرنے کی اہم مثال ہے۔
– مزاحمت صرف میزائل نہیں! عوام کا مظاہروں، کانفرنسوں، اور اجتماعات میں شرکت کرنا وحدت میدانها کی عکاسی کرتا ہے۔
مغرب میں مقاومت کی تمدنی جنگ
تمدنِ مزاحمت کا اثر:
غزہ کی مظلومیت اور جبهه مقاومت کا اثر نہ صرف مشرق وسطیٰ بلکہ امریکا جیسے ممالک میں بھی محسوس کیا جا رہا ہے۔
– آج امریکی یونیورسٹیوں میں بھی مقاومت کے پیغام نے جگہ بنائی ہے۔
– امریکہ میں ایسے افراد، جو مسلمان نہیں ہیں یا اسلامی طرزِ زندگی اختیار نہیں کرتے، انسانی ہمدردی اور فطرت کی بنیاد پر مقاومت کے ساتھ کھڑے ہو رہے ہیں۔
یہ نوجوان، جو مغربی تمدن کے اندر ابھرے ہیں جو آیت اللہ خامنہ ای کے بقول مزاحمتی تحریک کا حصہ ہیں۔
غزہ کی مظلومیت کا اثر:
غزہ کے عوام کی مظلومیت نے دنیا بھر میں لوگوں کے دلوں کو جھنجھوڑا ہے۔
– امریکی نوجوانوں اور طلبہ کا میدان میں آنا، غزہ کے مظلوم عوام کی طاقت اور ان کے پیغام کی گہرائی کو ظاہر کرتا ہے۔
جهاد ترکیبی کی ضرورت:
جنگ ترکیبی کے مقابلے میں جهاد ترکیبی کی ضرورت ہے، جو مختلف میدانوں پر مشتمل ہو:
1. نظامی جهاد: عسکری میدان میں دشمن کے خلاف کارروائی۔
2. فکری اور ثقافتی جهاد: دشمن کے نظریاتی حملوں کا جواب۔
3. میڈیا جهاد: میڈیا میں مظلومیت اور مقاومت کے پیغام کو عام کرنا۔
4. نفسیاتی جهاد: دشمن کی سازشوں کو بے نقاب کرنا اور عوام کو حقائق سے آگاہ کرنا۔
جهاد ترکیبی کا مقصد:
یہ جهاد دشمن کے نظامی، فکری، ثقافتی، اور نفسیاتی حملوں کا ایک جامع اور موثر جواب فراہم کرنے کے لیے ترتیب دیا گیا ہے۔
جهاد کے لیے تین اہم پہلو ضروری ہیں:
1. دشمن کی موجودگی: دشمن چاہے خارجی ہو یا داخلی، ہر جهاد میں موجود ہوتا ہے۔
2. استقامت: جهاد کے راستے میں صبر اور حوصلے کی ضرورت ہوتی ہے۔
3. وضاحت اور بیداری: جهاد کے مقاصد کو عوام تک پہنچانا۔
مزید پڑھیں: عربوں کی بے عملی سے اسرائیل فلسطینیوں کے خلاف مزید مغرور ہو گیا ہے: حماس
عملیات وعده صادق 3 جیسی کارروائیوں کو انجام دینا عسکری گروہوں کا کام ہے، لیکن ان کی تشریح اور عوامی وضاحت جهاد تبیین کا حصہ ہے۔
اربعین: ایک بین الاقوامی اتحاد
اربعین عالمی سطح پر اسلامی اتحاد اور مقاومت کے لیے ایک مثال ہے۔
– ایران اور عراق کے عوام کے درمیان مشترکہ مذہبی و ثقافتی اقدار، اربعین کے اجتماع کو خاص اہمیت دیتے ہیں۔
– زائرین کی موجودگی اور دیگر ممالک سے شرکت کرنے والے افراد، اربعین کو ایک عالمی اسلامی اجتماع میں تبدیل کرتے ہیں۔
اربعین کا مقصد:
اربعین کے دوران امام حسین کے مقاصد کو بیان کرنا، اتحاد اور مقاومت کے پیغام کو عام کرنا ضروری ہے۔
جهاد ترکیبی کی خصوصیات:
1. فوجی جهاد: دشمن کے عسکری حملوں کا جواب۔
2. ثقافتی جهاد: دشمن کے نظریاتی حملوں کو بے نقاب کرنا۔
3. میڈیا جهاد: میڈیا کے ذریعے مقاومت کا پیغام پھیلانا۔
4. نفسیاتی جهاد: عوام کو بیدار کرنا اور دشمن کی چالوں کو ناکام بنانا۔