سچ خبریں: رپورٹ کے مطابق، صیہونی ریاست کو طوفان الاقصی آپریشن کے ایک سال بعد بے شمار بحرانوں کا سامنا ہے، حالیہ دنوں میں مزاحمتی محاذ کے ساتھ جاری بڑھتی ہوئی کشیدگی نے تل ابیب کے لیے اقتصادی، سیکیورٹی اور عالمی تنہائی کے بحرانوں کو مزید سنگین کر دیا ہے۔
فلسطینی مزاحمتی گروپوں نے 7 اکتوبر 2023 کو غزہ سے "طوفان الاقصی ” نامی ایک حیران کن آپریشن کا آغاز کیا، جو صیہونی ریاست کی جانب سے فلسطینیوں پر کیے جانے والے کئی دہائیوں کے ظلم و جبر کا ردعمل تھا۔
یہ بھی پڑھیں: صیہونی ریاست سنگین اسٹریٹجک بحران کا شکار؛برطانوی اخبار کی زبانی
اس کے جواب میں، صیہونی ریاست نے غزہ کی پٹی کے تمام گذرگاہیں بند کر دیں اور ایک وسیع پیمانے پر نسل کشی کا آغاز کیا، جو آج تک جاری ہے، اس کارروائی کے دوران صیہونی ریاست نے غزہ کی بڑی آبادی کو نشانہ بنایا، جسے تاریخ کی سب سے بڑی نسل کشی قرار دیا جا رہا ہے۔
اکسیوسخبر رساں ایجنسی کے مطابق اس جنگ کے نتیجے میں غزہ کی تقریباً 60 فیصد عمارتوں اور بنیادی ڈھانچے کو نقصان پہنچا یا تباہ کر دیا گیا ہے۔
اوریگن اسٹیٹ یونیورسٹی کی جانب سے کیے گئے سیٹلائٹ ڈیٹا کے تجزیے کے مطابق، صیہونی فوجی کارروائیوں نے غزہ کی تقریباً 60 فیصد عمارتوں کو یا تو تباہ کر دیا ہے یا شدید نقصان پہنچایا ہے۔
اقوام متحدہ کے سیٹلائٹ سینٹر کے تازہ ترین تصویری تجزیے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ غزہ میں تقریباً 227591 رہائشی یونٹس اور 68 فیصد سڑکیں یا تو شدید متاثر ہوئی ہیں یا مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہیں۔
فلسطینی وزارت صحت کے مطابق 7 اکتوبر کے بعد سے اب تک صیہونی ریاست کے حملوں میں 41 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جن میں سے 11 ہزار سے زیادہ بچے اور 6 ہزار خواتین شامل ہیں۔
دوسری طرف اس جنگ نے اسرائیل کو بھاری قیمت چکانے پر مجبور کر دیا ہے، درج ذیل میں اس کی کچھ جھلکیاں پیش کی گئی ہیں:
صیہونی فوج کو درپیش پیچیدہ بحران
اسرائیلی فوج کو پچھلے ایک سال کے دوران بھاگنے کی کوشش، وقت سے پہلے ریٹائرمنٹ کی درخواستوں، خودکشی کے واقعات میں اضافے، نفسیاتی مسائل، اسلحے کی کمی اور جنگ میں اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکامی جیسے مسائل کا سامنا ہے، جس نے صیہونی حکام کے درمیان اختلافات کو بڑھا دیا ہے۔
نفسیاتی اور ذہنی مسائل
صیہونی وزارت دفاع نے حال ہی میں اعتراف کیا کہ 7 اکتوبر سے لے کر اب تک 9250 فوجیوں نے وزارت کے بحالی مراکز سے رجوع کیا ہے، جن میں سے تقریباً 37 فیصد کو مختلف نفسیاتی اور ذہنی مسائل کا سامنا ہے۔
یہ اعداد و شمار ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب متعدد صیہونی میڈیا اداروں نے فوج کی جانب سے اپنے جانی نقصان کے اعداد و شمار کو سختی سے چھپانے کی نشاندہی کی ہے۔
ماہرین کے مطابق یہ اقدام اسرائیلی فوجیوں کی بڑی تعداد میں ہلاکتوں اور اندرونی ردعمل کے خوف کے پیش نظر کیا گیا ہے۔
اسرائیلی ذرائع ابلاغ نے انکشاف کیا ہے کہ زخمیوں کی سرکاری تعداد جو صیہونی ریاست کی فوج کی جانب سے جاری کی جاتی ہے، اسپتالوں کے فراہم کردہ اعداد و شمار سے بہت زیادہ مختلف ہے۔
صیہونی ریاست کے چینل 12 نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ فوج نے اسپتال حکام کو ہدایت کی ہے کہ وہ فوج کی اجازت کے بغیر ہلاکتوں یا زخمیوں کی تعداد عوامی سطح پر جاری نہ کریں۔
تمام تر پردہ پوشی اور غلط اعداد و شمار کے باوجود، اسرائیلی فوج کو اپنی ہلاکتوں کا اعتراف کرنا پڑا، طوفان الاقصی آپریشن کی سالگرہ کے موقع پر اعلان کیا گیا کہ 7 اکتوبر 2023 سے اب تک 726 صیہونی فوجی ہلاک اور 4576 زخمی ہو چکے ہیں۔
خودکشی کا بحران
صیہونی فوج کو صرف ہلاکتوں اور نفسیاتی مسائل کا سامنا نہیں ہے، بلکہ اس کے لیے خودکشی بھی ایک اور سنگین مسئلہ بن چکا ہے، دستیاب ڈیٹا کے مطابق جنگ کے آغاز سے اب تک درجنوں فوجی اور افسران نے خودکشی کی ہے، تاہم فوج اس حوالے سے کوئی تفصیلات یا نام ظاہر کرنے سے گریز کر رہی ہے۔
جنگ سے فرار کی کوششیں اور ریٹائرمنٹ
جنگ میں شرکت سے بچنے کے لیے ریٹائرمنٹ کی درخواستیں بھی ایک اور مسئلہ بن چکا ہے، اسرائیلی چینل 12 نے رپورٹ دی ہے کہ طوفان الاقصی آپریشن اور غزہ کی جنگ کے آغاز سے اب تک 900 فوجی افسران، جن میں کیپٹن اور میجر شامل ہیں، نے ریٹائرمنٹ کی درخواست دی ہے جبکہ پچھلے برسوں میں اسی مدت کے دوران یہ تعداد 100 سے 120 کے درمیان تھی۔
فوجی قوت کی کمی اور حریدی یہودیوں پر دباؤ
اسرائیلی فوج اور حکومت کے بعض حکام نے حریدی یہودیوں (قدامت پسند یہودیوں) کو لازمی فوجی سروس میں شامل کرنے کے لیے دباؤ ڈالا ہے، جو ان دنوں مقبوضہ علاقوں اور دنیا بھر میں ایک اہم موضوع بن چکا ہے،یہ اقدام فوجی قوت کی شدید کمی کی عکاسی کرتا ہے۔
فلسطین کی مقبوضہ سرزمینوں میں اسرائیلی فوج کو درپیش انسانی وسائل کی کمی اور کابینہ کی جانب سے حریدی یہودیوں کو لازمی فوجی سروس سے معافیت ختم کرنے کی کوششوں نے ایک بڑے تنازعے کو جنم دیا ہے۔
حریدی یہودیوں نے صیہونی حکام کو دھمکی دی ہے کہ اگر ان پر فوج میں جبری بھرتی کا دباؤ جاری رہا تو وہ مقبوضہ علاقوں کو چھوڑ دیں گے۔
زوال پذیر معیشت اور واپس ہجرت کا بحران
اسرائیل کو اس ایک سال کے دوران داخلی سیاسی بحران، فوجی نقصان اور فوج کی کمزوری کے مسائل ہی کا سامنا نہیں ہے، اس کے ساتھ ساتھ معاشی بدحالی، صیہونی باشندوں کی الٹی ہجرت، بین الاقوامی سطح پر مذمت اور بین الاقوامی فوجداری عدالت اور عدالت انصاف جیسے اداروں کی طرف سے اسرائیل مخالف فیصلے بھی اس بحران کو مزید گہرا کر رہے ہیں۔
زوال پذیر معیشت اور ٹیکنالوجی
طوفان الاقصی آپریشن کے بعد اسرائیل کے سکیورٹی، اقتصادی اور ٹیکنالوجی کے بنیادی ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچا ہے، رپورٹوں کے مطابق، آپریشن کے آغاز کے بعد سے کئی اسرائیلی اسٹارٹ اپس اور ٹیکنالوجی کمپنیوں نے مقبوضہ سرزمینیں چھوڑ دی ہیں، جس سے اسرائیل کی ٹیکنالوجی پر مبنی معیشت کو شدید نقصان پہنچا ہے۔
جولائی 2024 میں معاریو اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق طوفان الاقصی کے آغاز کے بعد سے تقریباً 40 ہزار اسرائیلی کمپنیوں کو اپنی کاروباری سرگرمیاں بند کرنا پڑی ہیں اور اندازہ ہے کہ سال کے آخر تک یہ تعداد 60 ہزار تک پہنچ جائے گی۔
یہ اعداد و شمار جنگ کے اسرائیلی معیشت پر گہرے اثرات کی نشاندہی کرتے ہیں جو ماضی کے بحرانوں، جیسے کہ 2020 کے کورونا بحران، سے موازنہ کیے جا سکتے ہیں جس میں تقریباً 74 ہزار کمپنیوں کو بند کرنا پڑا تھا۔
حالیہ اقتصادی اور سکیورٹی بحرانوں نے اسرائیل کی سرمایہ کاری کے شعبے میں بھی بڑی مشکلات پیدا کی ہیں، بڑھتے ہوئے سکیورٹی خطرات اور اقتصادی عدم استحکام کی وجہ سے کئی سرمایہ کار اب مقبوضہ علاقوں میں اسٹارٹ اپس اور طویل المدتی ٹیکنالوجی پروجیکٹس میں سرمایہ کاری کرنے سے گریز کر رہے ہیں، خاص طور پر ان شعبوں میں جہاں زیادہ سرمایہ کاری اور خطرات ہیں۔
عبری مالیاتی اخبار کاتالیست کے مطابق7 اکتوبر کو حماس کے ساتھ جنگ شروع ہونے کے بعد سےادارہ جاتی سرمایہ کاروں نے 151 بلین شیکل (تقریباً 40 بلین ڈالر) مقبوضہ علاقوں سے نکال لیے ہیں۔
قوت مدافعت کی شکست اور جنگی اخراجات
صیہونی ریاست کی دفاعی ناکامی واضح طور پر 7 اکتوبر کے آپریشن کی سالگرہ پر اس کی فوج کے جاری کردہ بیان میں نظر آتی ہے، جس میں بتایا گیا کہ غزہ سے 13200 اور لبنان سے 12400 میزائل داغے گئے نیز وعدہ صادق 1 اور 2 کی کارروائیوں میں 400 سے زائد میزائل شامل تھے۔
طوفان الاقصی سے پہلے، اسرائیل خود کو دنیا کی سب سے بڑی فوج اور جدید ترین فضائی دفاعی نظام کا حامل ملک قرار دیتا تھا، لیکن اب ایرانی بیلسٹک میزائل تل ابیب کی فضاؤں میں دیکھے جا سکتے ہیں، اور یہ میزائل آئرن ڈوم کی صلاحیتوں کو باآسانی شکست دے رہے ہیں، جس سے آئرن ڈوم کی ناکامی سب پر واضح ہو گئی ہے۔
حالیہ دنوں میں ایران اور حزب اللہ کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی نے تل ابیب پر 5 ارب ڈالر کا بوجھ ڈال دیا ہے، صیہونی ریاست کی چینل 12 نے 31 ستمبر کو رپورٹ دی کہ اسرائیل نے اب تک غزہ اور لبنان کے خلاف جنگ میں 100 ارب ڈالر خرچ کیے ہیں۔
اس چینل نے اسرائیلی حکام کو خبردار کیا کہ جنگی اخراجات کی وجہ سے اسرائیل ایک گہرے اقتصادی بحران کے دہانے پر کھڑا ہے۔
عالمی مذمت اور اسلحہ پابندیاں
صیہونی ریاست کی غزہ میں جاری بربریت اور یمن، لبنان، شام اور عراق کے دیگر مزاحمتی گروہوں کے ساتھ محاذ آرائیوں نے اسرائیل کو اسلحے کی فراہمی میں بھی مشکلات کا شکار کر دیا ہے۔
بین الاقوامی فوجداری عدالت اور عالمی عدالت انصاف کی طرف سے جاری ہونے والے اسرائیل مخالف فیصلے، اور مختلف ممالک کی طرف سے مذمتوں نے اس بحران کو مزید گہرا کر دیا ہے اور کئی ممالک نے اسرائیل کو اسلحہ فراہم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
چند روز پہلے صیہونی اخبار کالکالیست نے ایک رپورٹ شائع کی جس کا عنوان تھا کئی ممالک اسرائیل کو روایتی ہتھیاروں کی فروخت سے گریز کر رہے ہیں اور اس میں بتایا گیا کہ کینیڈا، بیلجیم اور اٹلی نے اسرائیل کو فوجی ساز و سامان کی فروخت معطل کر دی ہے۔
حالیہ دنوں میں فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے بھی غزہ میں اسرائیلی جرائم اور لبنان پر جاری فوجی کارروائیوں کی وجہ سے اسرائیل کو اسلحے کی فراہمی روکنے کا اعلان کیا، میکرون کے اس بیان پر نیتن یاہو نے شدید غصے کا اظہار کیا اور الیزہ کے اس فیصلے کو شرمناک قرار دیا۔
صیہونی ریاست کی جانب سے مسلسل جنگی حالات اور مقبوضہ علاقوں پر چھائے ہوئے عدم تحفظ کے سائے ہر روز زیادہ نمایاں ہو رہے ہیں۔
غزہ کے قریب واقع صیہونی بستیوں کے خالی ہونے کے ساتھ ساتھ، تقریباً 200000 صیہونی باشندے لبنان کے ساتھ ملحقہ بستیوں سے بھی نقل مکانی کر چکے ہیں اور تل ابیب اور مقبوضہ علاقوں کے مرکزی حصوں میں پناہ گزین ہو گئے ہیں۔
رائے عامہ کے جائزے اس حقیقت کو ظاہر کرتے ہیں کہ ان بے دخل ہونے والے صیہونی باشندوں میں سے بیشتر کبھی اپنی غیر محفوظ بستیوں میں واپس جانے کا ارادہ نہیں رکھتے۔
اس کے ساتھ ساتھ ایران کے کامیاب میزائل حملوں نے یہ بھی ثابت کر دیا کہ حتیٰ کہ تل ابیب بھی اب صیہونیوں کے لیے محفوظ نہیں رہا اور ان کے سامنے واحد راستہ مخالف سمت کی ہجرت یعنی مقبوضہ علاقوں کو چھوڑنا ہی رہ گیا ہے۔
عبری زبان کے خبر رساں ادارے والا نیوز نے حالیہ دنوں میں اسرائیلی شماریات مرکز کے حوالے سے رپورٹ دی کہ 55300 سے زیادہ افراد نے فلسطین کے مقبوضہ علاقوں کو مستقل طور پر چھوڑ دیا ہے، جو اسرائیل کی تاریخ میں پہلی بار اس پیمانے پر دیکھا گیا ہے۔
مزید پڑھیں: اسرائیل بحران کا شکار کیسے ہوا؟
پیش گوئی کی جاتی ہے کہ 2024 کے دوران یہ تعداد 69200 سے تجاوز کر جائے گی، جو صیہونی میڈیا کے مطابق ایک غیر متوقع اور غیر معمولی ہے۔
مزید یہ بھی امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ حزب اللہ اور ایران کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی کے ساتھ یہ تعداد مزید تیز ہو جائے گی۔