لندن (سچ خبریں) لندن میں ہونے والے جی-7 اجلاس میں شرکت کرنے والے ممالک نے چین کے خلاف اہم قدم اٹھانے کا اعلان کرتے ہوئے چین کے خلاف مشترکہ محاذ بنانے کے طریقہ کار پر تبادلہ خیال کیا۔
تفصیلات کے مطابق امریکی صدر جو بائیڈن کی جمہوری جماعتوں کے مضبوط اتحاد کے مطالبے کی حمایت کرتے ہوئے میزبان برطانیہ نے وسطی لندن میں 3 روزہ مذاکرات کے لیے بھارت، جنوبی کوریا اور آسٹریلیا سمیت دیگر مہمانوں کو مدعو کیا۔
پیر کو ایران اور شمالی کوریا کے جوہری پروگراموں پر مرکوز استقبالیہ عشائیے کے بعد وزرائے خارجہ نے لنکاسٹر ہاؤس میں باضابطہ مذاکرات کا آغاز کیا جہاں کم عملے کے ساتھ انہوں نے ایک دوسرے کا کورونا کی حفاظتی اقدامات کو مد نظر رکھتے ہوئے استقبال کیا۔
جی 7 نے اپنے پہلے اجلاس میں چین پر تبادلہ خیال کیا جس کی بڑھتی ہوئی مقامی اور بیرون ملک فوجی اور معاشی اثر و رسوخ پر مغربی ریاستیں پریشانی کا شکار ہیں۔
امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ہمارا مقصد چین پر قابو پانا یا چین کو دبانے کی کوشش کرنا نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم جو کر رہے ہیں وہ بین الاقوامی قوانین پر مبنی آرڈر کو برقرار رکھنے کے لیے ہے جس کے حصول کے لیے ہمارے ممالک نے دہائیوں میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ہے، میں صرف اپنے ہی شہریوں کی ہی نہیں بلکہ چین سمیت پوری دنیا کے لوگوں کا مؤقف پیش کروں گا۔
انٹونی بلنکن نے سنکیانگ خطے کے حوالے سے چین پر دباؤ ڈالنے کے لیے برطانیہ کے ساتھ مضبوط تعاون کے عزم کا اظہار کیا جہاں بیجنگ کی طرف سے 10 لاکھ ایغور اور دیگر مسلمانوں کو قید کرنے پر واشنگٹن نے نسل کشی کا الزام لگایا تھا۔
برطانوی سیکریٹری خارجہ ڈومینک راب نے بیجنگ سے اپنے وعدوں پر عمل پیرا ہونے کا مطالبہ کیا، بشمول ہانگ کانگ پر جسے لندن کی جانب سے1997 میں کالونی کے حوالے کرنے سے قبل الگ نظام کا وعدہ کیا گیا تھا، تاہم بائیڈن انتظامیہ کی طرح ڈومینک راب نے ماحولیاتی تبدیلی سمیت جہاں ممکن ہو چین کے ساتھ باشعور اور مثبت انداز میں کام کرنے کے لیے تعمیری راستے تلاش کرنے پر بھی زور دیتے ہوئے کہا کہ ہم چین کو قدم اٹھاتے اور اپنا بھرپور کردار ادا کرتے دیکھنا چاہتے ہیں۔