سچ خبریں:اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کے ایک اعلیٰ رہنما عزت الرشق نے اعلان کیا کہ حماس نے جنگ بندی معاہدے میں اپنے تمام مطالبات صہیونی حکومت پر مسلط کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔
فلسطینی خبر رساں ایجنسی شہاب کی رپورٹ کے مطابق اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کے ایک اعلیٰ رہنما عزت الرشق نے کہا کہ ہم نے جنگ کے آغاز سے ہی اسرائیل کے ہاتھوں ہونے والی نسل کشی اور جارحیت کے خاتمے کے لیے جو شرائط رکھی تھیں، ان میں اسرائیلی افواج کا مکمل انخلا، مستقل جنگ بندی، بے گھر افراد کی آزادانہ اور باوقار واپسی، قیدیوں کا تبادلہ، سرحدی گزرگاہوں کا کھلنا، اور امداد کی ترسیل شامل تھی، الحمدللہ یہ تمام مطالبات تسلیم کیے گئے۔
یہ بھی پڑھیں: غزہ میں جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کی مکمل تفصیلات
انہوں نے مزید کہا کہ یہ سب کچھ اللہ کے فضل سے ممکن ہوا، اور صہیونی حکومت کو جھکنا پڑا۔
حماس کے ایک اور رہنما، اسامہ حمدان، نے الجزیرہ لائو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ معاہدہ تقریباً وہی ہے جو مئی میں سابق امریکی صدر جو بائیڈن نے تجویز کیا تھا اور جسے حماس نے قبول کیا تھا۔
انہوں نے وضاحت کی کہ یہ معاہدہ اسرائیلی افواج کے مکمل انخلا اور 7 اکتوبر سے پہلے کی صورتحال کی بحالی پر مبنی ہے یہ معاہدہ مزاحمت کی طاقت کی بنیاد پر طے پایا ہے، نہ کہ کسی کمزوری کی بنیاد پر۔
حمدان نے مزید کہا کہ معاہدے کے تین مراحل کے اختتام پر مکمل جنگ بندی نافذ ہو جائے گی، انہوں نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ اس معاہدے میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت نے کردار ادا کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ جنگ کے بعد غزہ کی انتظامیہ کا فیصلہ فلسطینیوں کا ہوگا، اور وہ اپنے معاملات کا انتظام کرنے کے حق سے کبھی دستبردار نہیں ہوں گے۔
مزید پڑھیں: وعدہ صادق کی تکمیل؛ غزہ میں جنگ بندی معاہدے کو صہیونیوں کی بڑی شکست کیوں قرار دیا جا رہا ہے؟
حمدان نے اس بات پر زور دیا کہ فلسطینی مزاحمتی تحریک غزہ میں شکست کے آگے جھکنے کے بجائے پہلے سے زیادہ مضبوط ہے اور مزاحمت جاری رہے گی۔