کابل (سچ خبریں) افغانستان میں طالبان کے قبضے کے بعد شہر ہرات میں لڑکیاں تعلیم حاصل کرنے اسکول پہونچ گئیں جبکہ بہت سے لوگوں کو تشویش تھی کہ طالبان اقتدار میں آتے ہی اس پر پابندی لگائیں گے لیکن فی الحال طالبان کی جانب سے ابھی تک لڑکیوں کے اسکول جانے پر پابندی عائد نہیں کی گئی ہے۔
غیر ملکی خبررساں ایجنسی کے مطابق ایک طالبہ روقیہ نے کہا کہ ہم دیگر ممالک کی طرح ترقی کرنا چاہتے ہیں اور ہمیں امید ہے کہ طالبان سیکیورٹی کو برقرار رکھیں گے، ہم جنگ نہیں چاہتے، ہم اپنے ملک میں امن چاہتے ہیں۔
شاعری اور فنون کے لیے مشہور اس شہر میں عورتیں اور لڑکیاں گلیوں میں زیادہ آزادانہ طور پر چلتی پھرتی نظر آتی تھیں اور اس شہر میں اسکولوں اور کالجز میں ان کی بہت بڑی تعداد موجود تھی، تاہم اس شہر کا طویل المدتی مستقبل فی الوقت غیر یقینی ہے۔
واضح رہے کہ شرعی قوانین کے سخت نفاذ کے تحت، جو طالبان نے 1990 کی دہائی میں افغانستان پر کنٹرول کے دوران نافذ کیے تھے، خواتین اور لڑکیوں کو زیادہ تر تعلیم اور ملازمت سے محروم رکھا گیا تھا، خواتین پر عوام میں پورے چہرے کا پردہ لازمی قرار دیا گیا تھا اور عورتیں کسی محرم کے بغیر گھروں سے باہر نہیں نکل سکتی تھیں۔
کوڑے کی سزا اور پھانسی، بشمول زنا کے مجرمان کے لیے سنگسار کی سزاؤں پر عمل درآمد شہر کے چوکوں اور اسٹیڈیمز میں کیے گئے تھے، طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد خواتین کے لیے آگے کیا ہے یہ فی الوقت واضح نہیں ہے۔
عوامی سطح پر طالبان اس بیانیے کو آگے بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ انہوں نے اپنی چند انتہائی پوزیشن کو پیچھے چھوڑ دیا ہے، ان کے ترجمان نے جنگ میں شامل ہر ایک کے لیے سرکاری معافی کا اعلان کیا ہے۔
دوبارہ اقتدار سنبھالنے کے بعد کابل میں تنظیم کی پہلی سرکاری پریس کانفرنس کے دوران طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ سابقہ باغی خواتین کو اسلام کے اصولوں کے مطابق کام کرنے کی اجازت دینے کے لیے پرعزم ہیں۔
20 سال پہلے کی تحریک اور آج کے طالبان میں فرق کے حوالے سے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر سوال نظریے اور عقائد پر مبنی ہے تو کوئی فرق نہیں ہے اور تجربے پر بات کی جائے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ بہت سے اختلافات ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ آج کے اقدامات ماضی کے اقدامات سے مثبت طور پر مختلف ہوں گے، پھر بھی لوگ محتاط انداز میں زندگی کے معمولات سرانجام دے رہے ہیں، خواتین بڑی تعداد میں کابل کی سڑکوں سے غائب ہیں اور مرد اپنے مغربی کپڑے چھوڑ کر زیادہ تر روایتی افغانی لباس کی خریداری کر رہے ہیں۔
عالمی سطح پر طالبان کے انسانی حقوق کے ریکارڈ کے بارے میں بڑے پیمانے پر تشویش پائی جاتی ہے اور ہزاروں افغانی اب بھی ملک سے فرار ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اقتدار سنبھالنے کے چند روز بعد یہ واضح نہیں ہے کہ آیا کوئی سرکاری تعلیمی پالیسی ہے یا طالبان کے اسکولوں کے ساتھ مذاکرات ہورہے ہیں، تاہم رواں ہفتے برطانیہ کی اسکائی نیوز کو انٹرویو کے دوران، طالبان کے ایک اور ترجمان سہیل شاہین نے اس موضوع پر یقین دہانی کرائی تھی، انہوں نے کہا تھا کہ خواتین پرائمری سے لے کر اعلیٰ تعلیم تک حاصل کر سکتی ہیں، ان کا کہنا تھا کہ طالبان کے زیر قبضہ علاقوں میں ہزاروں اسکول اب بھی کام کر رہے ہیں۔
ہرات میں اسکول کی پرنسپل بصیرا بصیرتخا نے محتاط امید کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ ‘خدا کی شکر گزار ہیں’ کہ وہ اسکول دوبارہ کھولنے میں کامیاب ہوئیں، انہوں نے کہا کہ ہمارے پیاری طالبات حجاب کی پابندی کرتے ہوئے بڑی تعداد میں اپنی کلاسز میں شرکت کر رہی ہیں۔