سچ خبریں:صیہونی فوج کے کمانڈرز نے تل ابیب کی سیاسی قیادت کو خبردار کیا ہے کہ غزہ میں جاری فوجی کارروائیوں کا تسلسل نہ صرف ان کے لیے عسکری چیلنج ہے بلکہ حماس کی قید میں موجود صیہونی قیدیوں کی زندگیوں کو بھی شدید خطرے میں ڈال سکتا ہے۔
الجزیرہ نیوز چینل کی رپورٹ کے مطابق، صیہونی ٹی وی چینل 12 نے رپورٹ دی ہے کہ فوجی کمانڈرز نے تل ابیب کے اعلیٰ سیاسی حکام پر زور دیا ہے کہ غزہ میں جنگ کو فوری طور پر روکا جائے۔
یہ بھی پڑھیں: نیتن یاہو ابھی تک کیسے کرسی پر ہیں؟سابق صیہونی وزیر اعظم کی زبانی
کمانڈرز نے خبردار کیا کہ مسلسل جنگ کی صورت میں نہ صرف صیہونی قیدیوں کی زندگی خطرے میں پڑ سکتی ہے بلکہ موجودہ حالات میں فوجی وسائل کی کمی اور لبنانی و فلسطینی مزاحمتی فورسز کی سخت مزاحمت کے پیش نظر غزہ اور لبنان میں مزید کامیابی حاصل کرنا بھی ناممکن ہو سکتا ہے۔
نتین یاہو کی پالیسیوں پر شدید تنقید
صیہونی وزیر اعظم بنیامین نتین یاہو طوفان الاقصی آپریشن کے بعد مسلسل تنقید کی زد میں ہیں۔
ان پر الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ وہ حماس کی قید میں موجود صیہونی قیدیوں کی زندگیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے غزہ میں خونریز جنگ کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔
نتین یاہو کو نہ صرف عالمی دباؤ کا سامنا ہے بلکہ قیدیوں کے اہل خانہ بھی ان کی پالیسیوں کے خلاف شدید احتجاج کر رہے ہیں۔
ان مظاہروں کے باوجود، نتین یاہو نے اپنی حکمت عملی میں کوئی تبدیلی نہیں کی اور جنگ کو جاری رکھنے کے اپنے فیصلے پر قائم ہیں۔
قیدیوں کی رہائی کے لیے انعامی پیش کش
صیہونی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق، نتین یاہو نے اپنی کابینہ پر قیدیوں کے تبادلے میں ناکامی اور امن مذاکرات میں ناکامی کے الزامات کو کم کرنے کے لیے ایک نیا منصوبہ پیش کیا ہے۔
انہوں نے اعلان کیا کہ وہ حماس کی قید میں موجود ہر اسرائیلی قیدی کی رہائی کے بدلے فلسطینیوں کو 5 ملین ڈالر کا انعام دیں گے۔
نتین یاہو نے غزہ کے فلسطینی عوام سے مخاطب ہو کر کہا کہ ہم ان تمام فلسطینیوں کو 5 ملین ڈالر کا انعام دیں گے جو حماس کی قید میں موجود اسرائیلی قیدیوں کو رہا کرائیں گے۔
فوجی اور سیاسی چیلنجز کا سنگین امتزاج
صیہونی فوج کے کمانڈرز کے مطابق، غزہ اور لبنان میں جاری جنگ صیہونی فوج کے لیے بڑے عسکری چیلنجز کا باعث بن رہی ہے۔
ہتھیاروں کی قلت، افرادی قوت کی کمی، اور مزاحمتی فورسز کی مضبوط حکمت عملیوں نے صیہونی فوج کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔
نتین یاہو کی حکمت عملی اور سیاسی دباؤ
یہ انعامی پیش کش نتین یاہو کی جانب سے دباؤ کم کرنے اور اپنے سیاسی مقام کو مستحکم کرنے کی ایک کوشش کے طور پر دیکھی جا رہی ہے۔
تاہم، ماہرین کے مطابق، یہ اقدام نہ صرف متنازعہ ہے بلکہ اس سے فلسطینی مزاحمتی فورسز کے خلاف کوئی بڑی کامیابی حاصل کرنا بھی مشکل دکھائی دیتا ہے۔
نتیجہ
غزہ میں جاری جنگ اور صیہونی قیدیوں کی رہائی کا مسئلہ تل ابیب کے لیے ایک بڑا سیاسی اور عسکری چیلنج بن چکا ہے۔ صیہونی فوج کی مسلسل وارننگز اور سیاسی قیادت کی ہچکچاہٹ اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ مسئلہ مزید گہرا ہوتا جا رہا ہے۔
مزید پڑھیں: صیہونی شہریوں نے نیتن یاہو کا کیوں ناک میں دم کر رکھا ہے؟
نتین یاہو کی جانب سے قیدیوں کی رہائی کے لیے پیش کردہ انعامی پیش کش کو غزہ میں جاری صورتحال کے تناظر میں ایک غیر معمولی اور متنازعہ حکمت عملی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔