سچ خبریں: خواتین کے قتل کے بحران نے فرانس، جرمنی اور انگلینڈ جیسے بڑے یورپی ممالک پر سایہ ڈالا ہے اس طرح سے ان میں سے ہر ایک میں ہر سال 100 سے زیادہ خواتین کو ان کے شوہروں، سابق ساتھیوں یا رشتہ داروں کے ہاتھوں قتل کیا جاتا ہے۔
مغربی میڈیا کےغیرمغربی ممالک میں خواتین کے قتل کے بڑھتے ہوئے رجحان کے بارے میں منفی پروپیگنڈے کے باوجود، اعداد و شمار ایک اور حقیقت کا پتہ دیتے ہیں اور وہ ہے خود یورپ میں اس بحران میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق یورپ میں ہر سات میں سے ایک خاتون کو شوہر، بوائے فرینڈ یا سابق شوہر کی جانب سے گھریلو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے اور بعض صورتوں میں وہ جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھی ہیں۔
درج ذیل رپورٹ میں، ہم نے سویڈن پر مرکوز یورپی ٹرائیکا (فرانس، جرمنی اور انگلینڈ) اور اسکینڈینین ممالک پر توجہ مرکوز کی ہے۔
فرانس میں ڈراؤنا خواب؛ صرف 2022 میں 118 خواتین کا قتل
حال ہی میں فرانس کی وزارت داخلہ نے اعلان کیا کہ 2022 میں اس بظاہر مہذب یورپی ملک میں 118 خواتین کو ان کے شوہروں یا سابقہ شوہروں نے قتل کیا،اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ فرانس میں اوسطاً ہر تین دن میں ایک خاتون کو قتل کیا جاتا ہے، فرانسیسی وزارت کے مطابق خواتین کے قتل کے 118 واقعات میں سے 37 خواتین کو ان کے شوہروں یا سابقہ شوہروں نے تشدد کا نشانہ بنایا، جن میں سے 24 نے پولیس کو حقیقت کی اطلاع دی جن میں سے 16 نے خود سے پولیس کو شکایت کی تھی۔
اس سوال کے جواب میں کہ ان خواتین کے قتل کا سبب کون سے مسائل تھے؟‘ یہ کہا جا سکتا کہ (26%) اختلاف اور جھگڑا اور (23%) علیحدگی سے انکار جوڑوں کے درمیان قتل کے مرتکب ہونے کے اصل محرکات ہیں، واضح رہے کہ ان میں سے زیادہ تر واقعات گھروں میں ہوتے ہیں اور زیادہ تر واقعات غیر منصوبہ بند ہوتے ہیں، ان میں سے بہت سے معاملات میں سرد ہتھیار (43%) اور بعض صورتوں میں آتشیں ہتھیار (20%) استعمال کیے جاتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: یورپ میں خواتین کے لباس کے بارے میں ہسپانوی میڈیا کا اظہارخیال؛ حجاب کی آزادی کی ضرورت
فرانسیسی وزارت داخلہ کی گزشتہ سال کی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ مجرموں کی پروفائل گزشتہ سالوں کے مقابلے میں تبدیل نہیں ہوئی ہے، جان بوجھ کر قتل کرنے والے شادی شدہ مرد ہیں، جن کی فرانسیسی شہریت ہے، ان کی عمریں 30 سے 49 سال ہیں اور وہ بے روزگار ہیں، 70 سال سے زیادہ عمر کے مرد اپنی شریک حیات کے قتل کی درجہ بندی کی اگلی پوزیشن پر ہیں۔
جرمنی میں خواتین کا قتل؛ 2020 میں 139 خواتین کو قتل کیا گیا۔
سب سے زیادہ صنعتی یورپی ملک جرمنی میں خواتین کی صورت حال فرانس سے بہتر نہیں، ایک ایسا ملک جو خود کو جمہوریت اور اخلاقیات کا رہنما تصور کرتا ہے،2019 میں اس میں 117 خواتین کو قتل کیا گیا جبکہ 2020 میں پچھلے سال کے مقابلے میں 4.9 فیصد اضافہ دیکھا اور 139 خواتین کو قتل کیا گیا۔
جرمنی میں خواتین کے خلاف تشدد کے حوالے سے انسانی حقوق کے ہیڈ کوارٹر کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جرمنی میں خواتین کے قتل کی شرح یورپ میں سب سے زیادہ ہے،فیڈرل کریمنل پولیس آفس کے دسمبر 2021 کے اعدادوشمار کے مطابق، اس ملک میں خواتین کے قتل کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، جرمن انسانی حقوق کے کارکن خواتین کے قتل کو سنجیدگی سے لینے میں پولیس کی نااہلی کے ساتھ ساتھ جرمن قانون میں خامیوں کی بھی مذمت کرتے ہیں۔
اس رپورٹ کے مطابق جرمنی میں گزشتہ پانچ سالوں میں گھریلو تشدد کا شکار ہونے والوں کی تعداد میں 3.4 فیصد اضافہ ہوا ہے جن میں اکثریت خواتین کی ہے، جرمنی میں ہر تین میں سے ایک عورت اپنی زندگی میں صنفی بنیاد پر تشدد کا سامنا کرتی ہے، وہ خواتین جو گینگ تشدد سے صدمے کا شکار ہو کر پولیس کے پاس آتی ہیں انہیں تین میں سے دو کیسوں میں دوبارہ تشدد کے خلاف کسی تحفظ کے بغیر چھوڑ دیا جاتا ہے۔
اقوام متحدہ کی دو ایجنسیوں نے اپنی ایک رپورٹ میں اعلان کیا ہے کہ 2021 میں اوسطاً ہر گھنٹے میں پانچ سے زیادہ خواتین یا لڑکیاں خاندان کے ایک فرد کے ہاتھوں قتل ہوتی ہیں، نومبر 2022 میں اقوام متحدہ سے متعلقہ 11 اداروں کی ایک مشترکہ رپورٹ کے مطابق خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد دنیا بھر میں انسانی حقوق کی سب سے زیادہ خلاف ورزی ہے۔
اسکینڈینیویا میں خواتین کا قتل؛ سویڈن میں ہر سال 25 سے 30 خواتین کو قتل کیا جاتا ہے۔
یہ تشویش سکینڈے نیوین خطے کے خوشحال ممالک میں بھی پائی جاتی ہے،اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ سویڈن میں ہر تین ہفتے میں ایک خاتون کو اس کے رشتہ داروں نے قتل کیا ہے، نیشنل کرائم پریوینشن کونسل(Brå) کے اعدادوشمار نے حال ہی میں انکشاف کیا ہے کہ 2017 اور 2018 کے درمیان سویڈن میں موجودہ یا سابق پارٹنر کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد دوگنی سے بھی زیادہ ہو گئی ہے۔ تقریباً ایک چوتھائی کیسز، مجموعی طور پر موجودہ یا سابق پارٹنر کے ذریعے کیے گئے جو پچھلے سال کے مقابلے میں دوگنا سے بھی زیادہ تھے جبکہ ایسے کیسز کی تعداد صرف 11 تھی، موجودہ یا سابق ساتھی کے ہاتھوں مارے جانے والی زیادہ تر خواتین تھیں،لہذا، ان تمام قسم کے قتل میں سے تقریباً 67% خواتین تھیں جبکہ صرف پانچ فیصد مرد جان لیوا تشدد کا شکار ہوتے ہیں ۔
مزید پڑھیں: مغربی ملک میں گھریلو تشدد؛پورا مغربی سماج خاموش تماشائی
2017-2012 کے عرصے میں، مہلک تشدد کی وجہ سے ہر سال اوسطاً 25 خواتین ہلاک ہوئیں، لیکن موجودہ یا سابق ساتھی کے ہاتھوں مرنے والوں کی تعداد اس تعداد سے نصف تھی،1990 اور 1995 کے درمیان ہر سال اوسطاً 17 خواتین کسی موجودہ یا سابق ساتھی کے ہاتھوں موت کا شکار ہوئیں، یہ تعداد 2015-2010 میں ہر سال 14 خواتین تھی۔
شماریاتی ویب سائٹ Statista نے سویڈن میں 2011 سے 2021 تک قتل کی تعداد کو متاثرہ کی جنس کی بنیاد پر شائع کیا ہے۔ 16 جون 2022 کو شائع ہونے والی اس رپورٹ کے مطابق سویڈن میں خواتین سے زیادہ مرد قتل کا نشانہ بنتے ہیں۔ 2012 سے 2015 تک پرتشدد جرائم میں مارے جانے والے مردوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ۔
دریں اثنا، پچھلی دہائی میں قتل کا شکار ہونے والی خواتین کی تعداد عام طور پر 25 اور 30 کے درمیان رہی 2021 میں، سویڈن میں 89 مرد اور 24 خواتین کے قتل ہونے کی تصدیق ہوئی، تاہم دیگر یورپی ممالک کے مقابلے سویڈن میں قتل کی شرح تقریباً اوسط تھی۔
آخری بات
اگرچہ مغربی میڈیا مغرب بالخصوص یورپی براعظم میں خواتین کے قتل کے رجحان کو چھپانے کی کوشش کرتا ہے، لیکن کچھ اعداد و شمار اس حقیقت کو ظاہر کرتے ہیں اور یہ بتلاتے ہیں کہ اس براعظم کے بڑے ممالک میں ہر سال سینکڑوں خواتین کو قتل کر دیا جاتا ہے، ان اعدادوشمار کی بنیاد پر 2022 میں 118 خواتین اور 2020 میں 139 خواتین کو فرانس اور جرمنی میں بالترتیب ان کے موجودہ شریک حیات، سابق ساتھیوں یا رشتہ داروں نے قتل کیا۔ فرانس اور جرمنی کی طرح انگلینڈ میں بھی خواتین کے لیے ایسا ڈراؤنا خواب ہے کہ گارڈین اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس ملک میں 2018 میں گھریلو تشدد کے باعث خواتین کے قتل کی تعداد میں گزشتہ پانچ کے مقابلے میں اضافہ ہوا۔
اس ملک کی پولیس کے مطابق اس سال اس ملک کے 173 شہری گھریلو تشدد کی وجہ سے ان کے شریک حیات یا خاندان کے افراد کے ہاتھوں قتل ہوئے جن میں تین چوتھائی خواتین اور نوجوان لڑکیاں تھیں،بعض لوگوں کے لیے یہ تصور کرنا مشکل ہو سکتا ہے کہ یورپ کے سب سے خوشحال خطہ ہونے کے ناطے اسکینڈینیوین ممالک میں خواتین تشدد اور قتل سے محفوظ نہیں ہیں، لیکن یہ حقیقت ہے،مثال کے طور پر، سویڈن میں اگرچہ اس خوشحال ملک میں خواتین اور بیویوں کے قتل کی تعداد فرانس، جرمنی اور انگلینڈ کے مقابلے کم ہے لیکن پھر بھی اس ملک میں ہر سال 25 سے 30 کے درمیان خواتین کو قتل کیا جاتا ہے۔
اسی سلسلے میں کچھ عرصہ قبل نیشنل یونین اگینسٹ فیمیسائیڈ کی سربراہ سنڈرین بوشے نے اس صورتحال پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ واضح نہیں ہے کہ ہم کب تک تماشائی بنے رہنا چاہتے ہیں اور صرف متاثرین کو شمار کرنا چاہتے ہیں۔ ،ہم خواتین کی آزادی سے انکار نہیں کر سکتے لیکن خواتین برسوں سے چیخ رہی ہیں لیکن ہم ان کی آواز نہیں سنتے،یہ صورتحال واقعی تشویشناک ہے۔