کیا صدر اردگان ترکی کی سیاسی میدان سے رخصت ہونے والے ہیں؟

ترکی

?️

سچ خبریں: صدر رجب طیب اردگان کے ترکیہ کے آئندہ انتخابات کے حوالے سے فیصلہ سازی نے خبروں کی زینت بنایا ہے۔
انہوں نے 21 مئی کو ہنگری سے واپسی کے دوران صحافیوں سے گفتگو میں ترکیہ کے آئین میں اصلاحات کی ضرورت پر بات کرتے ہوئے کہا کہ میرا آئین میں ترمیم کا مطالبہ ملک کی موجودہ ضروریات کی وجہ سے ہے۔ میری خواہش یہ نہیں کہ میں دوبارہ انتخاب لڑنے کے لیے قانون بدلوں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ملک کو نئے قانون کی ضرورت ہے۔
اردگان کے یہ بیان ترکیہ کے بعض میڈیا اور خطے کے بیشتر ذرائع ابلاغ میں اس طرح پیش کیا گیا کہ وہ چوتھی بار صدارتی انتخاب لڑنے کے خواہشمند نہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کے بیان کے دیگر پہلو بھی ہیں اور یہ بات قطعی طور پر اقتدار چھوڑنے کے فیصلے کے مترادف نہیں۔
ترکیہ کے آئین کی صریح شقوں کے مطابق، کوئی بھی شخص مسلسل دو بار سے زیادہ صدر نہیں بن سکتا، جبکہ اردگان اس وقت تک تین بار صدر منتخب ہو چکے ہیں! تاہم، وہ اور ان کے سیاسی اتحادی دولت باغچلی بارہا کہہ چکے ہیں کہ انہیں ایک بار پھر اقتدار سنبھالنا ہوگا۔ اسی لیے آئین میں ترمیم، عدالت و ترقی پارٹی کا ایک اہم ترین ایجنڈا ہے۔ یہاں تک کہ کہا جاتا ہے کہ اردوان کا اوجالان اور پی کے کے کے خاتمے کے معاملے پر اتفاق کا بنیادی مقصد کرد اراکین کی ووٹوں سے آئین میں تبدیلی کرنا ہے۔
مخالفین کا بنیادی اعتراض کیا ہے؟
102 سالہ پرانی تاریخ رکھنے والی ریپبلکن پیپلز پارٹی (CHP)، جو ترکیہ کی سب سے قدیم اور اردگان کی اہم مخالف جماعت ہے، بارہا کہہ چکی ہے کہ ترکیہ کا آئین 1980 کی فوجی بغاوت کے دور میں فوجی اثرات کے تحت تشکیل پایا اور اس کی متعدد شقوں میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ لیکن یہ جماعت اردوان کے آئین میں ترمیم کے مطالبے کے جواب میں کہتی ہے،نئے آئین کی تشکیل ان لوگوں کے ساتھ نہیں ہو سکتی جو قانون پر عمل نہیں کرتے۔
ترکیہ کے معروف تجزیہ کار مراد یتکین کا کہنا ہے کہ نہ CHP اور نہ ہی دیگر مخالفین اردوان کے پیغام پر یقین رکھتے ہیں۔ کوئی بھی یہ نہیں مانتا کہ اردوان 2028 میں گھر بیٹھ جائیں گے اور کسی اور کو امیدوار بنائیں گے۔ یتکین نے مزید لکھ کہ اردوان حالیہ عرصے میں بڑھتے ہوئے مسائل کا شکار ہیں اور انہوں نے اپنی سماجی حیثیت اور وقار کا ایک بڑا حصہ کھو دیا ہے۔ حتیٰ کہ کرد مسئلے کا سیاسی حل جیسا اہم منصوبہ بھی عوام میں مقبول نہیں، کیونکہ اکثر شہری اسے ایک غیر مخلصانہ چال سمجھتے ہیں۔ اکرم امام اوغلو کی کرپشن کے الزام میں گرفتاری بھی اسی زمرے میں آتی ہے۔ لہٰذا، اردوان کا نیا بیان بھی فی الحال محض ایک پراپیگنڈا کا حربہ لگتا ہے۔
اردگان نے CHP سے کہا ہے کہ ہم کہتے ہیں کہ مل کر کام کریں۔ اپنی کمیٹیاں بنائیں اور ایک سول آئین کو جلد از جلد تشکیل دیں۔ نیا آئین قومی اور مقامی ہو۔ میں واضح کرتا ہوں کہ پہلی چار شقوں میں کوئی تبدیلی نہیں چاہتا۔ ہم صرف ایک راہنمائی کا تعین کر رہے ہیں۔ میرا مقصد دوبارہ انتخاب لڑنا نہیں، بلکہ ملک کی عزت ہے۔
ان کا بار بار پہلی چار شقوں کو تبدیل نہ کرنے کا ذکر کرنا اس لیے ہے کہ یہ شقیں ترکیہ کے سیاسی نظام کو جمہوریت، کمال ازم اور سیکولرزم کی بنیاد پر استوار کرتی ہیں۔ اردوان قوم پرستوں اور سیکولر طبقے کو یقین دلانا چاہتے ہیں کہ وہ ترکیہ کو اسلامی ریاست بنانے کے درپے نہیں۔
سوال یہ ہے کہ اردگان کن شقوں میں تبدیلی چاہتے ہیں؟
آئین کی شق 66، جو تمام شہریوں کو ترک قرار دیتی ہے، تبدیلی کا سب سے اہم ہدف ہے۔ کردوں کو مطمئن کرنے کے لیے اس شق میں تبدیلی کی جائے گی تاکہ یہ تاثر ختم ہو کہ تمام شہری ترک ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس شق کو بدلنا آسان نہیں، اور قوم پرست پہلے ہی مخالفت پر اتر آئے ہیں۔
درویش اوغلو: شرم کرو!
انتہائی دائیں بازو کی پارٹی "خوب” (İYİ Parti) کے رہنما مساوات درویش اوغلو شق 66 میں تبدیلی کے سخت خلاف ہیں۔ ان کے نزدیک، ترکیہ کے تمام شہری ترک ہیں اور اس پر بحث کی کوئی گنجائش نہیں۔ دیگر قوم پرست رہنما جیسے امید اوزداغ (ظفر پارٹی) اور مصطفیٰ دستیجی (بڑی اتحاد پارٹی) بھی اس تبدیلی کی مخالفت کر چکے ہیں۔
ایک اور متنازعہ تبدیلی:
اردگان چاہتے ہیں کہ صدر کے انتخاب کے لیے ضروری ووٹ 50% + 1 سے گھٹا کر 34% کر دیا جائے، یعنی اب صرف ایک تہائی ووٹوں سے صدر منتخب ہو سکے گا!
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگرچہ آئین میں ترمیم ہو جائے، تب بھی اردوان کے دوبارہ جیتنے کے امکانات کم ہیں۔ اول، ان کی عمر اور تھکاوٹ عیاں ہے۔ دوم، معاشی بحران نے ترکیہ کو گھیر رکھا ہے۔ مخالفین کا دعویٰ ہے کہ ترکیہ سیاسی و معاشی بن بست میں ہے اور جلد از جلد انتخابات کرانے چاہئیں۔
لیکن اردگان کا کہنا ہے کہ قبل از وقت انتخابات کی کوئی وجہ نہیں، ہم قانونی طور پر 2028 تک حکومت کریں گے۔
جبکہ علی باباجان (ڈیموکریسی اینڈ پروگریس پارٹی) کہتے ہیں، اردگان کو ترکیہ کی جمہوریت کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننا چاہیے۔ انہیں اقتدار نئی نسل کے حوالے کر دینا چاہیے۔

مشہور خبریں۔

تھامس فریڈمین: غزہ میں نیتن یاہو کی جنگ اسرائیل کو خودکشی کی طرف لے جا رہی ہے

?️ 27 اگست 2025سچ خبریں: ممتاز امریکی مصنف اور نظریہ نگار تھامس فریڈمین نے یہ

بھارت سے کشیدگی کی واحد وجہ کشمیرہے: وزیراعظم

?️ 16 فروری 2022اسلام آباد (سچ خبریں) وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ بھارت

سابق وزیراعظم کا ایک اور پروگرام ’کوئی بھوکا نہ سوئے‘ بھی بند کردیا گیا

?️ 13 اپریل 2022لاہور(سچ خبریں)ہسپتالوں کی طرف سے صحت کارڈ پر علاج سے انکار کے بعد سابق وزیراعظم کا

ترک صدر طیب اردوان کی تقریبِ حلف برداری، شہباز شریف شرکت کیلئے ترکیہ پہنچ گئے

?️ 3 جون 2023اسلام آباد:(سچ خبریں) ترک صدر رجب طیب اردوان کی تقریب حلف برداری

یمن کی تقسیم کا منصوبہ ناکام

?️ 19 جنوری 2022سچ خبریں:ابوظہبی اور دبئی پر یمنی افواج کا حالیہ حملہ متحدہ عرب

اسلام آباد میں کاروباری اوقات محدود

?️ 19 جون 2022 اسلام آباد(سچ خبریں)سندھ اور پنجاب کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے

افغانستان میں ایک بار پھر بم حملہ، متعدد افراد ہلاک اور زخمی ہوگئے

?️ 7 جون 2021کابل (سچ خبریں)  افغانستان میں آئے دن ہلاکتوں کا سلسلہ جاری ہے

وفاقی کابینہ اور صوبوں کے معاملات وزیراعظم کے لیے درد سر بن گئے۔

?️ 18 اپریل 2022اسلام آباد(سچ خبریں)نئی حکومت میں شامل اتحادیوں کے مطالبات اور وزیراعظم شہبازشریف

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے