سچ خبریں:لبنانی حلقوں کا خیال ہے کہ ایسی صورتحال میں جب لبنان میں طائف معاہدہ کانفرنس کے نام سے جانا جانے والا اجلاس کوئی عملی نتیجہ نہیں نکال سکا، سعودی حکام اپنے کچھ اقدامات کے ذریعے یہ کہنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ فرانس اور امریکہ کے علاوہ سعودی عرب ابھی بھی لبنان کے معاملات میں اثر انداز ہو سکتا ہے۔
لبنان میں سعودی سفارتخانے کی جانب سے طائف کانفرنس کے انعقاد کی وجوہات پر لبنانیوں کے درمیان اب بھی بحث جاری ہے اور یہ سوال ان کے ذہنوں میں ہے کہ ریاض نے اچانک لبنان میں طائف معاہدے کا مسئلہ پیش کرنے کا کیوں سوچا ؟ اور کیوں بیروت میں اپنے سفیر ولید البخاری کو اس اجلاس کے انعقاد کے لیے مقرر کیا ۔
انٹر ریجنل اخبار رائے الیوم نے اسی مسئلے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا کہ ریاض کے پاس لبنان میں طائف معاہدے کو کمزور کرنے یا اسے مسخ کرنے کی کوشش کرنے کے بارے میں فکر کرنے کا کوئی ثبوت یا وجہ نہیں ہے، سوائے دو معاملات کے؛ پہلا بیروت کی بندرگاہ میں ہونے والے دھماکے کے بعد فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون کا اس ملک کا دورہ اور لبنان کی حکومتی ساخت کو تبدیل کرنے والے ایک نئے سماجی معاہدے کا مطالبہ تھا، تاہم اس مطالبے پر سعودی عرب نے احتجاج کیا جس کے بعد فرانسیسیوں نے سعودیوں کو یقین دلایا کہ ایسا نہیں ہوگا اور فرانس لبنان میں طائف معاہدے کو منسوخ کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔
دوسرا معاملہ جس نے لبنان میں طائف معاہدے کے کمزور ہونے کے بارے میں سعودیوں کی تشویش کو جنم دیا وہ اس اقدام سے متعلق ہے جس کی تجویز لبنان میں سوئس سفارت خانے نے چند ہفتے قبل تمام لبنانی سیاسی اور قومی تنظیموں کو عشائیہ دے کر پیش کی کہ وہ اپنے ملک میں سیاسی بحران کو حل کریں۔
قابل ذکر ہے کہ لبنانی حلقوں کا خیال ہے کہ سوئس سفارتخانہ صرف دعوت کرنے والا تھا جبکہ یہ اقدام امریکیوں کی طرف سے تجویز کیا گیا تھا جس کے بعد سعودی سفارت خانے نے لبنانی تنظیموں سے کہا کہ وہ اس دعوت کا بائیکاٹ کریں اور اس میں شرکت نہ کریں۔