سچ خبریں: شام کے صدر بشار الاسد تقریباً 2 دہائیوں کے بعد پہلی بار سرکاری دورے پر چین گئے۔
شام کے صدر بشار الاسد نے اپنے ملک کے خارجہ تعلقات کی بحالی کو آگے بڑھاتے ہوئے چین کے صدر شی جن پنگ کی دعوت پر جمعرات کو چین کے سرکاری دورے پر گئے، 2004 کے بعد چین کا یہ ان کا پہلا سرکاری دورہ ہے، اس سفر کے دوران اسد نے وزیراعظم اور صدر سمیت کئی چینی حکام سے ملاقاتیں کیں،ہانگزو میں 2023 کے ایشیائی کھیلوں کے موقع پر اسد کے ساتھ ملاقات میں، شی نے تزویراتی شراکت داری کو دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی تاریخ میں ایک اہم سنگ میل کے طور پر ذکر کیا۔
یہ بھی پڑھیں: چین اور شام میں مزید قربتیں
اس ملاقات میں شی نے کہا کہ شام اور چین کے درمیان تعلقات نے 67 سال سے بین الاقوامی حالات میں ہونے والی تبدیلیوں کا مقابلہ کیا ہے اور دونوں ممالک کے درمیان دوستی وقت کے ساتھ ساتھ مستحکم رہی ہے،انہوں نے یہ بھی کہا کہ غیر مستحکم اور غیر یقینی بین الاقوامی صورتحال کا سامنا کرتے ہوئے چین شام کے ساتھ مل کر ایک دوسرے کی حمایت اور بین الاقوامی انصاف اور امن کے دفاع کے لیے تعاون کو مضبوط بنانے کے لیے مشترکہ کوششیں جاری رکھے گا۔
بشار اسد نے بھی کہا کہ ہمیں بین الاقوامی میدان میں چین کے تعمیری کردار کی امید ہے، ہم چین کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرکے بیجنگ کے کردار کو کمزور کرنے کے لیے بعض ممالک کی کوششوں کو مسترد کرتے ہیں، یاد رہے کہ یہ سفر ایک اہم وقت اور صورتحال میں کیا گیا ہے کیونکہ آج ایک کثیر قطبی دنیا شکل اختیار کر رہی ہے، جو دنیا میں توازن اور استحکام کو بحال کرے گی، اور یہ ہم سب کا فرض ہے کہ اس لمحے کو روشن اور امید افزا مستقبل کے لیے استعمال کریں۔
اسد کا دورہ چین مختلف پہلوؤں سے اہم ہے۔
سیاسی تعلقات کو گہرا کرنا
اسد کا دورہ چین شام کو سیاسی تعلقات کو مزید گہرا کرنے کا بہترین موقع فراہم کرتا ہے،ایران اور روس کے ساتھ چین شامی حکومت کا سب سے اہم اتحادی ہے،بحران کے آغاز سے، چین کے مؤقف زیادہ تر اقوام متحدہ کے چارٹر کے اصولوں پر زور دینے کی شکل میں رہے ہیں، جن میں ملک کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت اور تنازعات کا پرامن حل شامل ہے جبکہ شام میں ایک دہائی سے زیادہ کے بحران اور جنگ کے دوران، چین نے ہمیشہ تنازع کے فریقین کے درمیان تشدد کے خاتمے کا مطالبہ کیا ہے،سلامتی کونسل میں شام کا دفاع کرنے اور شامی حکومت کی مخالفت میں یورپی ممالک اور امریکہ کی قراردادوں کے خلاف ووٹ دینے میں چین کا اہم ترین کردار شمار کیا جا سکتا ہے، اس ملک نے شام میں فوجی مداخلت یا اس ملک میں حکومت کی تبدیلی کے نفاذ کی بھی مخالفت کی ہے نیز بین الاقوامی سیاسی اور انسانی حقوق کے حلقوں میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے سفارتی اور اس ملک میں بحران کو ہوا دینے والے اقدامات کی مخالفت کی ہے
شام کے ارد گرد علاقائی تعاون میں اضافہ
اسد کے دورہ چین کی ایک جہت علاقائی تعاون میں شام کے کردار کو بڑھانا ہے، چینیوں کے لیے دمشق مشرق وسطیٰ کے حساس خطے کا گیٹ وے ہے، ترکی اور سعودی عرب نے بیجنگ اور دمشق کے درمیان تعلقات کو توڑنے کے لیے ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے اپنی کوششیں مرکوز کر رکھی ہیں،حتیٰ کہ اردگان ترکی کے پہلے وزیر اعظم تھے جو شام کے بحران کے دوران بشار الاسد اور شام کی حمایت پر مبنی چین کے موقف کو تبدیل کرنے کے لیے چین گئے تھے، دریں اثنا بیجنگ نے شام میں دہشت گردوں کی موجودگی کو اس ملک کی قومی سلامتی کے لیے براہ راست خطرہ قرار دیا۔
واضح رہے کہ چین کو شروع سے ہی اس حقیقت کا ادراک ہو گیا تھا کہ اگر شام میں اور عمومی طور پر مغربی ایشیا میں انتہا پسند دھارے طاقت حاصل کر لیتے ہیں تو مشرقی ترکستان موومنٹ کی مزید حمایت کا امکان ہو گا، جسے بیجنگ کی طرف سے دہشت گرد تنظیم قرار دیا گیا ہے، اس وقت شام علاقائی ممالک کو دمشق کے ساتھ تعلقات بڑھانے اور دوبارہ شروع کرنے کی ترغیب دینے کے لیے چین کے کردار کو دیکھ رہا ہے۔
یاد رہے کہ چین نے خاص طور پر سعودی عرب کے ساتھ متعدد معاہدوں پر دستخط کرنے کے بعد ریاض اور خلیج فارس تعاون کونسل کے ارکان سمیت دیگر عرب ممالک کو شام کو عرب لیگ میں واپس کرنے پر آمادہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا، ان برسوں میں چینی حکام نے شام اور دیگر عرب ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری کا خیرمقدم کیا ہے اور شام کی عرب برادری میں فوری واپسی کی حمایت کی ہے، چین کے نقطہ نظر سے یہ سورتحال عرب ممالک کو یکجہتی اور ترقی کے حصول نیز خطے کے ممالک کی تزویراتی آزادی کو وسعت دینے میں مدد دے گی،دوسری طرف ایسا لگتا ہے کہ عرب ممالک بھی یوکرین کی جنگ اور چین کی روک تھام جیسے مسائل پر امریکہ کی توجہ کی وجہ سے اس ملک کو اپنے اہم اتحادی کے طور پر دیکھتے ہیں اور اسی وجہ سے وہ شام کے ساتھ تعلقات کی تعمیر نو میں چین کے کردار کا خیرمقدم کرتے ہیں۔
اقتصادی تعاون
اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اگرچہ شام کے ساتھ اقتصادی تبادلے کو چین کی معیشت میں کوئی اہم مقام حاصل نہیں ہے تاہم دونوں ممالک نے اقتصادی تعلقات بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے،اس سفر کے دوران شام اور چین کے درمیان اقتصادی تعاون اور راہداری کے شعبے میں تین سمجھوتے کی دستاویزات پر دستخط کیے گئے جن میں اقتصادی تعاون کا معاہدہ اور اقتصادی ترقی کے شعبے میں تبادلے اور تعاون کے لیے مشترکہ مفاہمت کی یادداشت شامل تھی، 2022 میں شام میں چین کی برآمدات کی مقدار تقریباً 424 ملین ڈالر تھی جبکہ اس کی درآمدات کی مقدار 1 ملین ڈالر سے کچھ زیادہ تھی، چین کی شام کو برآمد کی جانے والی اہم مصنوعات میں چاول، ربڑ کے ٹائر اور ویکسین شامل ہیں جبکہ اس کی اہم درآمد شدہ مصنوعات صابن اور زیتون کا تیل، جانور اور اناج ہیں، دمشق کی توانائی کی تنصیبات کی تباہی کی وجہ سے شام کی چین کو توانائی کی برآمدات بھی بہت کم ہیں۔
فنڈ ریزنگ
چین کے دورے میں اسد کے اہم ترین مقاصد میں سے ایک چین سے سرمایہ کاری کو راغب کرنا تھا،شام کے لیے سرمایہ کاری کو راغب کرنا بہت ضروری ہے، جہاں ایک دہائی سے زیادہ کی جنگ میں اس کا زیادہ تر انفراسٹرکچر تباہ ہو چکا ہے اور اسے پابندیوں کا بھی سامنا ہے، ایسا لگتا ہے کہ شام چاہتا ہے کہ وہ چینی کمپنیاں جو 2011 سے عدم تحفظ اور معاشی کمزوری کی وجہ سے ملک چھوڑ کر چلی گئی تھیں واپس آجائیں۔
مزید پڑھیں: کیا چین اور شام کے تعقلقات میں نیا موڑ آنے والا ہے؟
چین کی وزارت تجارت کے مطابق شام میں چین کی سرمایہ کاری 2019 تک 135.7 بلین ڈالر تک پہنچ گئی،چین کے لیے شام میں سرمایہ کاری خطرات اور مواقع کے ساتھ ہے،ایک طرف، شام چین کے توانائی فراہم کرنے والے بڑے ممالک میں سے ایک کے طور پر عراق کے ساتھ مشترکہ سرحد رکھتا ہے اور ترکی ایشیا اور یورپ میں توانائی فراہم کرنے والے اہم ممالک میں سے ایک ہے، اس لحاظ سے یہ چین کے لیے اہم ہے،دوسری جانب چین کو شام میں سرمایہ کاری کے لیے امریکی پابندیوں کا سامنا کرنے کا خطرہ ہے، امریکی سینیٹ نے 2019 میں سیزر ایکٹ منظور کیا، یہ قانون جون 2020 سے نافذ کیا گیا ہے اور یہ 2024 تک کارآمد رہے گا، اس قانون کی بنیاد پر امریکہ شام کے ساتھ کاروبار کرنے والے کسی بھی شخص کے اثاثے منجمد کر سکتا ہے لیکن ساتھ ہی یہ یقین بھی ہے کہ صدر شی، جو نئے دور میں امریکہ کو مزید چیلنج کرنا چاہتے ہیں، مذکورہ پابندیوں کے خلاف کاروائی کریں گے۔
مغربی ایشیا میں چین کا متوازن سیاسی اور اقتصادی نقطہ نظر
اسد کا یہ دورہ مغربی ایشیا میں بیجنگ کے اثر و رسوخ کو بڑھانے کے حوالے سے بھی اہم ہے،گزشتہ دہائی میں اس خطے میں چین کے کردار میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور اس خطے کے ممالک بیجنگ کے توانائی کے سب سے بڑے شراکت داروں میں شامل ہیں، 2011 سے چینی اشرافیہ نے اس بات کو مدنظر رکھا ہے کہ اسد حکومت کو ہٹانے کی کوشش میں امریکہ کا ایک مقصد ایران پر مزید دباؤ ڈالنا ہے، اگلے سالوں میں، بیجنگ نے معیشت پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے اس خطے کے تمام اطراف کے ساتھ اپنے تعلقات کو وسعت دی، جس کی مثال 2021 اور 2023 میں ایران اور سعودی عرب کے ساتھ چین کے اسٹریٹجک تعاون کے معاہدے ہیں،اس کے علاوہ شام کے ارد گرد کے تمام ممالک بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کے اہم ارکان میں شامل ہیں،مثال کے طور پر، عراق کو 2021 میں بیلٹ اینڈ روڈ کے تحت منصوبوں کے لیے تقریباً 10.5 بلین ڈالر موصول ہوئے، جن میں چین سے تیل کا بھاری بجلی گھر بھی شامل ہے لہٰذا شام، ایران اور عرب ممالک کے ساتھ چین کی صف بندی کا اندازہ سب سے بڑھ کر چین کی اقتصادی دور اندیشی کے فریم ورک میں لگایا جا سکتا ہے جو اس ملک کی سیاست میں توازن کا نتیجہ ہے۔