سچ خبریں: ہل میگزین نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ امریکی فوج کو بھرتی کے ایک غیر معمولی بحران کا سامنا ہے اور اس بحران کو حل کرنے کے لیے اس کے پاس پر دو ہی راستے ہیں۔
ہل میگزین نے ریاستہائے متحدہ میں فوج میں بھرتی کے غیر معمولی بحران کے بارے میں ایک رپورٹ میں لکھا کہ امریکی فوج (اے وی ایف) کی تمام رضاکار افواج گزشتہ ماہ خاموشی سے 50 سال کی ہو گئیں، اگرچہ 1973 میں بھرتی کا خاتمہ امریکی فوج اور معاشرے دونوں کے لیے ایک فیصلہ کن لمحہ تھا، لیکن اس لمحے کی سالگرہ کا سرکاری طور پر پرتپاک استقبال نہیں کیا گیا۔درحقیقت تمام رضاکار افواج کی سالگرہ کی بڑی تقریب شاید ایک تلخ اعتراف اور سچائی کو منطرعام پر لائی کہ امریکی فوج بھرتی کے ایک غیر معمولی بحران کے درمیان ہے یا یوں کہا جائے کہ اس ملک کی فوج تباہ ہو رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: مسلح فوج پر عوام کا اعتماد کیوں کم ہو رہا ہے؟
امریکی فوج کے منصوبہ سازوں نے صرف چند سال قبل (2018) میں 2023 تک افواج میں اضافے کا مطالبہ کیا تھا لیکن آج اس ملک کی فوج اپنی افواج کی موجودہ تعداد کو بھی برقرار رکھنے کے قابل بھی نہیں ہے،گزشتہ سال امریکی فوج نے 485000 کل وقتی فوجیوں کا ہدف مقرر کیا تھا لیکن بھرتی نہ ہونے کی وجہ سے اس ملک کی کانگریس نے 2023 کے لیے مذکورہ تعداد کو کم کر کے 33000 کر دیا اور بعد میں اعلان کیا کہ وہ اس تعداد کو حاصل کرنے کے قابل بھی نہیں ہے، یاد رہے کہ مختلف وجوہات نے اس بحران کو جنم دیا ہے یہاں تک کہ رجسٹریشن بونس میں اضافہ اور فوج کی طرف سے یونیورسٹی کا قرض ادا کرنے کا بھی وعدہ نوجوان امریکیوں کی ایک وسیع رینج کے لیے زیادہ پرکشش نہیں ہے، وہ اس ملک کی انتہائی مسابقتی لیبر مارکیٹ میں ملازمت کے دیگر مواقع تلاش کر رہے ہیں، دوسری طرف عراق اور افغانستان کی تباہ کن جنگوں نے امریکی فوج کی قیادت پر اعتماد کو ختم کر دیا ہے۔
ہل کے مطابق، مالیاتی بحران کے ساتھ ساتھ کورونا وبائی امراض کے درمیان پروان چڑھنے والی نسل خطروں کا سامنا کرنے سے گریز کرتی ہے،تاہم اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ 17 سے 24 سال کی عمر کے 77 فیصد امریکی جسمانی یا ذہنی مسائل، منشیات کے استعمال، یا تعلیم کی کمی کی وجہ سے فوج میں بھرتی اور خدمات انجام دینے کے لیے نااہل ہیں،یاد رہے کہ امریکی افواج کی یہ کمی ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جبکہ فوج کو اس ملک کی سرحدوں کے اندر اندر اور باہر کہیں زیادہ مشنز کا سامنا ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن کا حالیہ ایگزیکٹو آرڈر جس نے یورپ میں ملکی افواج کو مضبوط بنانے کے لیے 3000 ریزرو فوجیوں کو متحرک کرنے کی اجازت دی ہے، دنیا بھر میں بڑی فوجی موجودگی کو برقرار رکھنے کے لیے واشنگٹن کے لامتناہی مطالبے کی تصدیق کرتا ہے۔
یاد رہے کہ امریکی فوج ایسے وقت میں بھی تباہی کے دہانے پر پہنچ سکتی ہے جبکہ واشنگٹن کسی جنگ میں مصروف نہیں ہے،کل وقتی فوجی اہلکاروں کی تعداد جلد ہی پرل ہاربر پر حملے کے بعد اپنی کم ترین سطح پر ہو گی۔
تاہم دوسری جنگ عظیم سے قبل کے برعکس، آج اس ملک کی مسلح افواج بیک وقت یورپ، مشرق وسطیٰ اور مشرقی ایشیا میں کئی مشن انجام دے رہی ہیں،اسی وقت جب یوکرین میں جنگ بھڑک رہی ہے، نیٹو کی دفاعی افواج کو مضبوط کرنے کے لیے پانچ جنگی بریگیڈز اور اسپورٹ فورسز مستقل طور پر یا گھومتی بنیادوں پر تعینات ہیں۔
مشرق وسطیٰ سے فوجیوں کے انخلا کے بارے میں بیان بازی کے باوجود میں اس خطہ میں بھی امریکی فوجی موجودگی مضبوط ہے، عراق میں 2500 امریکی فوجی ہیں جبکہ اس کے پڑوسی ملک کویت سے، شام اور عراق میں داعش کے خلاف کاروائیوں کی حمایت کے لیے فضائی جنگی بریگیڈ گھومتی بنیادوں پر کام کرتے ہے، فضائی اور میزائل دفاعی یونٹس، جو امریکی فوج کے خستہ حال اجزاء سمجھے جاتے ہیں، سعودی عرب بھیجے گئے ہیں تاکہ ایرانی میزائلوں اور پراکسی فورسز کے خلاف اس ملک کی حفاظت کی جاسکے، یہ اس حقیقت کے باوجود ہے کہ اس میں سیاسی اشتعال انگیزی ہے اس لیے کہ علاقہ بڑی حد تک معتدل ہو چکا ہے۔
انڈو پیسیفک محاذ میں امریکی فوج کا کردار جنوبی کوریا اور جاپان کے ساتھ دیرینہ وعدوں سے جڑا ہوا ہے،جنوبی کوریا میں 28500 امریکی اہلکاروں میں سے صرف دو تہائی اندراج شدہ ہیں،اگرچہ زیادہ تر ماہرین کا خیال ہے کہ چین کے خلاف بحرالکاہل میں آنے والی امریکی جنگ بنیادی طور پر ایک فضائی اور سمندری جنگ ہوگی، واشنگٹن کی فوج خود کو ایک اہم جز سمجھتی ہے جو لاجسٹک اسپورٹ، طویل فاصلے تک فائر کرنے اور فضائی دفاع فراہم کرنے کے قابل ہے۔
ہل کے مطابق سرحد پار مشنوں میں افواج کی مناسب ایڈجسٹمنٹ کے بغیر امریکی فوج کی کمی نے امن کے وقت میں اس ملک کی آپریشنل تال کو انتہائی حد تک بڑھا دیا ہے جس کے نتیجے میں، ممکنہ جنگ کے لیے اس ملک کی فوج کی تیاری میں کمی واقع ہوئی ہے،پینٹاگون کی جانب سے فوجیوں کی تعیناتی اور رخصتی کا تناسب ایک سے تین ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر 6 ماہ کی تعیناتی کے لیے فوجیوں کو 18 ماہ کی چھٹی پر جانا پڑتا ہے تاکہ وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ وقت گزار سکیں اور اپنے کیریئر کی ترقی کو فالو اپ کرسکیں لیکن اس ملک کی فوج اس معیار پر پورا نہیں اترتی اور اس کی وجہ سے فورسز کی کمی کی وجہ سے یہ تناسب فی 6 ماہ کی تعیناتی کے لیے کم کر کے 12 ماہ کی چھٹی کر دیا گیا ہے۔
مزید پڑھیں: امریکہ ایشیائی ممالک کو روس کے مدار سے کیوں ہٹانا چاہتا ہے؟
سرحد پار مشنوں کے علاوہ امریکہ کو اپنی سرزمین پر فوجی دستوں کی بھی ضرورت ہے،حالیہ برسوں میں اس ملک کے نیشنل گارڈ کے حساس مشنوں میں کووِڈ-19 وبائی مرض میں حکومت کے اقدامات کی حمایت، شہری بدامنی کے انتظام،خاص طور پر 6 جنوری 2021 کے ہنگاموں کا ذکر کیا جا سکتا ہے جہاں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں نے کانگریس کی عمارت پر حملہ کیا،اس فہرست میں، بحرانوں اور قدرتی آفات، جیسے سمندری طوفان، سیلاب اور جنگل کی آگ سے نمٹنے کے لیے نیشنل گارڈ اور امریکی فوج کے مشن کو چھوڑا نہیں جانا چاہیے،ایسے مشن جنہوں نے امریکی فوج کی توانائی اور وسائل کو بہت حد تک ختم کر دیا ہے۔
ان تشریحات کے ساتھ، امریکی فوج کے پاس دو راستے ہیں؛ یا تو زیادہ فوجی بھرتی کرنا یا مشنوں کی تعداد (ملکی اور غیر ملکی) کو کم کرنا تاکہ اسے کم مشکل بنایا جاسکے،امریکی فوج میں فوجیوں کی بھرتی میں جو شماریاتی اور سماجی رکاوٹیں موجود ہیں، ان کو مدنظر رکھتے ہوئے مستقبل قریب میں فوجیوں کی تعداد میں اضافہ کرنا بہت مشکل ہوگا۔