سچ خبریں:بائیڈن کا یہ تلخ اعتراف کہ امریکہ بچوں کے لیے غیر محفوظ ہے اور ان کی انتظامیہ کی طرف سے بندوق کے قانون میں علامتی اصلاحات، اس ملک میں بندوقوں کی زیادہ تعداد اور بندوق کی حامی لابیوں کے نمایاں اثر و رسوخ کے باوجود، بحران کو حل نہیں کرتیں۔
امریکی اسکولوں میں متعدد پرتشدد حملوں ، وہ بھی آتشیں اسلحے سے، کے بعد لوگوں کے احتجاج کی آوازیں حکام کو پہلے سے کہیں زیادہ سنائی دے رہی ہیں، یہاں تک کہ اس ملک کے صدر جو بائیڈن نے حال ہی میں سرکاری طور پر اس صورتحال کے جاری رہنے کے بارے میں بڑی تشویش کا اظہار کیا ہے، ریاستہائے متحدہ کے صدر نے کہا کہ امریکہ میں بندوقیں بچوں کی سب سے اہم قاتل ہیں اور ان واقعات کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے،ا نہوں نے مزید کہا کہ ہماری قوم کہاں پہنچ گئی ہے کہ بچے سالگرہ کی تقریبات میں بغیر کسی خوف کے حصہ نہیں لے سکتے؟ جب بھی بچے اسکول، سنیما یا پارک جانے کے لیے باہر جاتے ہیں تو ان کے والدین کو پریشان ہونا چاہیے؟ Statista شماریاتی ڈیٹا بیس اسکولوں میں مسلح ہلاکتوں میں نمایاں اضافے کے بارے میں بائیڈن کے بیانات کی تصدیق کرتا ہے،مندرجہ ذیل اعداد و شمار میں مسلح حملوں کے بڑھتے ہوئے رجحان اور 1980 سے 2022 تک امریکی اسکولوں میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد کو دکھایا گیا ہے۔ ایک ایسا رجحان جو آنے والے سالوں میں بلاشبہ جاری رہے گا۔
دہشت کے اسکول
بائیڈن کے تبصرے اور خدشات ریاست الاباما کے ڈیڈیویل میں ایک نوجوان کی سالگرہ کی تقریب میں سامنے آئے جہاں فائرنگ کے دوران کم از کم 4 افراد ہلاک اور 20 سے زائد زخمی ہوئے ، اسی وقت کینٹکی کے شہر لوئس ول میں مسلح تشدد کے باعث 2 دیگر افراد ہلاک ہو گئے جبکہ چند ماہ قبل ٹیکساس کے جنوب میں راب ایلیمنٹری اسکول پر حملے میں 19 بچے اور 2 اساتذہ ہلاک ہوگئے، یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب 18 سالہ سلواڈور راموس نے اس ایلیمنٹری اسکول میں فائرنگ شروع کر دی اور بالآخر افسر کے ہاتھوں مارا گیا یاد رہے کہ امریکی اسکولوں میں مسلح حملوں اور قتل و غارت کا سلسلہ اب تک نہیں رکا ہے اور اس کے بعد اس میں تیزی آنے کا امکان ہے، 1999 میں کولمبائن ہائی اسکول کے قتل عام کے بعد علمی حلقوں کو نشانہ بنایا گیا جو سلسلہ اب تک جاری ہے اس طرح سے کہ 2007 میں ورجینیا ٹیک یونیورسٹی،2012 میں سینڈی ہک ایلیمنٹری اسکول اور2018 میں پارک لینڈ ہائی اسکول میں بڑے پیمانے پر قتل عام دیکھنے میں آئے ، 1999 میں کولمبائن اسکول میں فائرنگ کے بعد سے، ریاستہائے متحدہ میں 338000 سے زیادہ طلباء کو اپنے اسکولوں میں بندوق کے تشدد کا سامنا کرنا پڑا ہے، سینڈی ہک پرومیس انسٹی ٹیوٹ، جس کی سرگرمی کا مقصد اسکولوں میں مسلح تشدد کے واقعات کو ریکارڈ کرنا اور ان حملوں کا مقابلہ کرنے کی تربیت دینا ہے، کا کہنا ہے کہ مسلح تشدد اور اسکولوں میں فائرنگ اور مسلح تشدد ایک منفرد امریکی وبا ہے جس کے نتیجہ میں ہر روز 12 بچے ہلاک ہوتے ہیں،اس کے علاوہ روزانہ کی بنیاد پر 32 دیگر بچے فائرنگ سے زخمی ہو رہے ہیں۔
اسکول یا فوجی بیرک؟
امریکی اسکولوں میں فائرنگ کے واقعات کی تکرار کے بعد بہت سے لوگوں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ ممکنہ خطرات سے نمٹنے کے لیے ہارڈ ویئر کے ذریعے تعلیمی اداروں کو تیار کرنا بہترین ممکنہ حل ہے، امریکی اسکول فائرنگ کے ماہر Cheryl LeRo Johnson کا کہنا ہے کہ کہ ہر بڑے واقعے کی وجہ سے اسکولوں میں سکیورٹی بڑھانے کا مطالبہ کیا جاتا ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ ان کے بچے کولمبین، ورجینیا ٹیک یا سینڈی ہک کے اگلے شکار نہ بنیں۔
بحران کی جڑ؛ بندوقوں اور لابنگ کے خوفناک اعدادوشمار
سالگرہ کی تقریبات اور اسکولوں سے لے کر عوامی مقامات تک بندوق کے تشدد کا براہ راست تعلق امریکہ میں بندوقوں کی زیادہ تعداد سے ہے،ایک اندازے کے مطابق 4.6 ملین امریکی بچے ایسے گھر میں رہتے ہیں جس میں کم از کم ایک بندوق گولی چلانے کے لیے تیار ہوتی ہے جبکہ تقریباً نصف والدین جن کے گھر میں بندوقیں ہیں غلط سوچ رہے ہوتے ہیں کہ ان کے بچے نہیں جانتے کہ بندوقیں کہاں رکھی ہیں،اگرچہ غیر قانونی فروخت اور غیر رجسٹرڈ اسلحے کی وجہ سے امریکی شہریوں کے پاس موجود اسلحے کی صحیح تعداد معلوم نہیں ہوسکی ہے لیکن اسمال آرمز سروے کے اعداد و شمار کے مطابق عام امریکی شہریوں کے پاس لاکھوں ہتھیار ہیں۔
نتیجہ
امریکی حکام نے جرائم اور مسلح قتل کا مقابلہ کرنے میں موثر اور بنیادی اقدام کرنے کے بجائے ایک غلط راستے پر قدم رکھا ہے کہ اس جرم کی سزا جیل ہے، یہ ایک ایسا حل جس نے اب تک الٹا نتیجہ دیا ہے،امریکہ دنیا کی 5 فیصد سے بھی کم آبادی کے ساتھ، کرہ ارض کی کل جیلوں کی آبادی کا تقریباً 20 فیصد کا حامل ہے،کچھ عرصہ قبل گلوبل ٹائمز نے اس بارے میں لکھا تھا کہ اس وقت امریکی نظام انصاف کے زیر نظر 1833 ریاستی جیلوں، 110 وفاقی جیلوں، 1772 نابالغ اصلاحی مراکز اور 3134 جیلوں میں تقریباً 2.3 ملین افراد ہیں، اس کے علاوہ غیر ملکیوں کے 218 حراستی مراکز اور 80 جیلیں بھی ہیں نیز فوجی جیلوں، سول عزم کے مراکز، ریاستی نفسیاتی ہسپتالوں اور دہشت گردوں کے لیے جیلیں بھی مجود ہیں،قیدیوں کی اتنی زیادہ تعداد اور مسلح ہلاکتوں میں اضافہ امریکی حکام کی پالیسیوں کی غیر موثریت کو ظاہر کرتا ہے،یہاں تک کہ ڈیموکریٹک بائیڈن حکومت میں قوانین میں اصلاحات کا بھی آج تک کوئی نتیجہ نہیں نکلا، جیسا کہ بائیڈن نے گزشتہ موسم گرما میں دونوں بڑی امریکی جماعتوں کی حمایت سے کیا تھا اور گن کنٹرول کے منصوبے پر دستخط کیے تھے،ایک ایسا منصوبہ جس کی بنیاد پر 21 سال سے کم عمر کے لوگوں کے ہتھیار خریدنے سے پہلے ان کا ریکارڈ چیک کیا جاتا ہے، تاہم ہم نے دیکھا کہ قانون کی یہ ترمیم کارگر نہیں رہی، لہذا بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ بندوق کی حامی لابیوں کے اثر و رسوخ کے ساتھ سنگین تصادم کے بغیر اور اس کے ساتھ ساتھ اس ملک میں دستیاب ہتھیاروں کو کم کیے بغیر، ہم مسلح قتل کی ٹرین کو روکنے یا اس کی رفتار کم کرنے کی توقع نہیں کر سکتے۔