(سچ خبریں) گزشتہ نصف صدی سے اسرائیل مسلسل فلسطین میں ظلم و بربریت کا ننگا ناچ کررہاہے مگر تمام نام نہاد انسانیت دوست ممالک، حقوق انسانی کی محافظ تنظیمیں اور مظلوموں کے علم بردار خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ اگر عالم اسلام اسرائیلی مظالم اور جارحیت کے خلاف متحد ہوکر مقاومت کی کوشش کرتا تو آج نوبت یہاں تک نہیں پہونچتی، مگر عالم اسلام کی بے حسی، استعماری طاقتوں کی تملق پرستی اور امت مسلمہ کے مشترکہ مفادات سے چشم پوشی کرتے ہوئے صہیونی سازشوں اور منصوبوں کو پایۂ تکمیل تک پہونچانے میں ان کی معاونت نے قبلۂ اول، مفادات امت اور فلسطینی مظلوم عوام کے حقوق کو دشمن کے ہاتھوں نیلام کردیا۔
صدی معاہدہ کی آمادگی اور اس کے نفاذ میں متعدد اسلامی ملکوں کی شمولیت اور گذشتہ سال متحدہ عرب امارات کی اسرائیل کے ساتھ تعلقات میںتوسیع نے یہ ثابت کردیاکہ عالم اسلام قدس کی بازیابی کے لیے سنجید ہ نہیں ہے، وہ دشمن کے عزائم کی کامیابی میں حصے دار اور مسلمانوں کی لاشوں کے ڈھیر پر بیٹھ کر اپنے مفادات کے لیے سمجھوتہ کرنے والی قوم ہے، ورنہ اگر مسلمان ممالک متحد ہوکر قدس کی بازیابی کے لیے جدوجہد کریں تو ممکن ہی نہیں ہے کہ بیت المقدس صہیونی طاقتوں کے قبضے سے آزاد نہ ہو۔
فلسطینی مظلوموں کی زبانی حمایت اور درپردہ صہیونیت نوازی نے اسرائیل کو مکمل ریاست کا درجہ دیدیا، آج یمن، شام، عراق، کشمیر اور فلسطین کے ناگفتہ بہ حالات دشمن کی سازشوں اور منصوبہ بندیوں کا نتیجہ کم، عالم اسلام کی غلامی اور بے حسی کا نتیجہ زیادہ ہے۔
عالم اسلام کی بے حسی اپنی جگہ لیکن بعض انسانی حقوق کی محافظ تنظیمیں فلسطین میں جاری اسرائیلی جارحیت اور انسانیت مخالف جرائم پر تحقیقی رپورٹ پیش کرکے اسرائیلی جرائم کا پردہ فاش کرتی رہی ہیں، ان رپورٹوں پر عمل درآمد تو ممکن نہیں ہوسکا لیکن ان کی اہمیت سے انکار بھی نہیں کیا جاسکتا۔
ان رپورٹوں کے تناظر میں عالمی دنیاکسی حد تک فلسطینی عوام کی مظلومیت اور اسرائیلی بربریت سے باخبر ہوتی رہی ہے، نیویارک میں قائم حقوق انسانی کی محافظ تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے اپنی تازہ رپورٹ میں اسرائیل کے ظالمانہ چہرے کو ایک بار پھر بے نقاب کردیا۔
ہیومن رائٹس واچ نے اپنی213 صفحات پر مشتمل رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہاکہ اسرائیل اپنی سرحدوں کے اندر اور اپنے زیر تسلط علاقوں میں فلسطینیوں کے خلاف جیسا سلوک برت رہا ہے، وہ بین الاقوامی جرائم کے زمرے میں آتاہے، اگر اسرائیل میں عرب نسل کے اقلیتی شہریوں اورغزہ پٹی نیز مغربی کنارے کے مقامی باشندوں کی مجموعی آبادی کو دیکھا جائے تو یہ تعداد اسرائیل کی آبادی کے تناسب میں نصف تعداد بنتی ہے، مگر اسرائیلی ریاست اپنی پالیسیوں کے ساتھ نہ صرف اپنے عرب اقلیتی شہریوں بلکہ غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے کے فلسطینیوں کو بھی منظم طورپر ان بنیادی حقوق سے محروم کررہی ہے جو یہودی شہریوں کو حاصل ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیاہے کہ اسرائیل بین الاقوامی جرائم کے زمرے میں آنے والی جن پالیسیوں پر عمل پیراہے، ان کی نوعیت انسانیت کے خلاف سنگین جرائم کی ہے۔
انسانی حقوق کی محافظ اس تنظیم نے رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا کہ اس رپورٹ کا مقصد اسرائیلی اور نسلی امتیاز کے دور کی جنوبی افریقی ریاست کا موازنہ نہیں بلکہ وہ یہ تعین کرنا چاہتی ہے کہ آیا مخصوص نوعیت کی اسرائیلی پالیسیوں اور اقدامات کو موجودہ بین الاقوامی قانون کے تحت نسلی امتیاز کا مرتکب قرار دیا جاسکتاہے۔
ہیومن رائٹس واچ کی اس حقیقت کشا رپورٹ کو اسرائیل نے مسترد کردیا ہے البتہ فلسطینی صدر محمود عباس نے اس کا پرتپاک خیرم مقدم کیاہے۔
انہوں نے رپورٹ کے نکات کی تعریف کرتے ہوئے کہاکہ اس وقت بین الاقوامی برادری کی طرف سے مداخلت (فلسطین اور اسرائیل کے مابین )کی اشد ضرورت ہے، اس لیے کہ تمام ممالک، ان کے ادارے اور تنظیمیں اس امر کو یقینی بنائیں کہ وہ کسی بھی طرح اور کسی بھی شکل میں ان جنگی جرائم میں نا تو مدد کریں اور نہ ہی ان جرائم کا حصہ بنیں جن کا ارتکاب انسانیت اور فلسطین کے خلاف کیا جارہاہے۔
اسرائیل نے اس رپورٹ کو یک طرفہ اور متعصبانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ انسانی حقوق کے لیے سرگرم یہ تنظیم کئی برسوں تک بار بار اسرائیل کا بائیکاٹ کروانے کے لیے سرگرم رہی ہے، کاش ایسی ایک رپورٹ کسی مسلمان ملک کی سرکاری یا غیر سرکاری تنظیم کی طرف سے بھی جاری کی جاتی تاکہ دنیا فلسطینی عوام کی مظلومیت کو قریب سے دیکھ پاتی اور اسرائیلی جارحیت اور جنگی جرائم کی حقیقت عیاں ہوتی، مگر مسلمان ملکوں میں اتنی غیرت اور حمیت موجود نہیں ہے کہ وہ اسرائیل کی غلامی کا قلادہ اپنی گردن سے اتارکر اس کے مظالم اور بربریت کے خلاف سینہ سپر ہوسکیں۔
امریکہ جس نے یروشلم کو اسرائیلی پایۂ تخت تسلیم کروانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی ہے، اس کے شہر نیویارک میں قائم حقوق انسانی کی محافظ تنظیم کی اس رپورٹ کا عام ہونا کم بڑی بات نہیں ہے، گذشتہ نصف صدی میں مسلمان ممالک میں موجود انسانی تنظیموں نے فلسطینیوں کی مظلومیت اور اسرائیلی دہشت گردی پر کتنی تحقیقاتی رپورٹیں پیش کی ہیں، یہ خود تحقیق طلب ہے۔
انتفاضۂ فلسطین پر عالم اسلام کی یہ بے حسی ظاہر کرتی ہے کہ انہیں مسئلہ القدس کی کتنی فکر ہے، مسلمان ملکوں کی اکثریت فلسطین کو آزاد ریاست کے طورپر دیکھنا نہیں چاہتی، بعض ممالک ظاہری طورپر اور بعض مخفیانہ طور پر اسرائیل کو ایک مکمل ریاست کی حیثیت سے تسلیم کرچکے ہیں۔
صدی معاہدہ کے تحت وہ یروشلم، اور مغربی کنارے کا سارا علاقہ اسرائیل کو سونپنے کے لیے آمادہ ہیں، اگر فلسطینی عوام کی مزاحمت اور ایرانی قیادت کا جذبۂ مقاومت نہ ہوتا تو شاید آج فلسطین مکمل طورپر اسرائیلی ریاست میں تبدیل ہوچکا ہوتا، فلسطینی عوام کی مزاحمت اور اسرائیلی جارحیت کے خلاف ان کی مقاومت ایرانی قیادت و رہبریت کی مرہون منت ہے جس نے پرآشوب حالات میں بھی مظلوموں کی حمایت اور پشت پناہی میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔
عالمی سطح پر اگر مسئلہ القدس کو آج اس قدر اہمیت حاصل ہے تو یہ امام خمینیؒ اور ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کی عالمانہ بصیرت اور مدبرانہ سیاست کی بدولت ہے، کاش دیگر مسلمان ملک بھی القدس کی بازیابی اور فلسطینی مظلوم عوام کی حمایت کو اپنا دینی و ملّی فرض سمجھ کر جدوجہد کریں تاکہ عالم اسلام صہیونی سازشوں کے عتاب سے محفوظ رہ سکے۔
موجودہ صورتحال یہ ہے کہ اسرائیلی فوجی آئے دن فلسطینی عوام پر تشدد کرتی رہتی ہے، انہیں قبلہ اول میں نماز کی ادائیگی کی بھی اجازت نہیں ہے، ان کی عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کے ساتھ زیادتی کی جاتی ہے، نوجوانوں کو بلا کسی جرم کے گرفتار کرکے مرنے کے لیے جیلوں میں ڈال دیا جاتاہے یا موقع پر ہی گولی ماردی جاتی ہے۔
اسرائیل فلسطینی عوام کے تمام تر حقوق اور اختیارات کو اپنے ہاتھ میں لینا چاہتاہے، صدی معاہدہ کا نفاذ فلسطینیوں کو بنیادی حقوق سے محروم کردے گا، جس کے تحت انہیں شہری حفاظت کے لیے اپنی پولیس اور سرحدی تحفظ کے لیے اپنی فوج تک رکھنے کا اختیار نہیں ہوگا۔
میونسپلٹی سے لیکر دفاعی امور تک کی ذمہ داری اسرائیل کے سپرد ہوگی، اس لیے عالم اسلام کو مسئلہ فلسطین کی حساسیت اور اس کی اہمیت کو سمجھنا ہوگا، اگر قدس کے مسئلے پر عالم اسلام متحد نہیں ہوتاہے تو ان کے پاس اتحاد کا اس سے بہتر مرکز نہیں ہے۔