سچ خبریں:سعودی عرب اپنے معاشی انحصار کو خام تیل کی فروخت سے ہٹانے کے ساتھ ساتھ موسم الریاض کے ذریعے دیگر اہم اہداف کو بھی حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
وژن 2030 کے تحت تبدیلی کا منصوبہ
سعودی حکومت نے حالیہ برسوں میں سیاسی، سماجی اور اقتصادی اصلاحات کے لیے جامع منصوبہ وژن 2030 متعارف کرایا ہے جس کا مقصد سعودی عرب کی حکومت اور معاشرے کی روایتی تصویر کو تبدیل کرنا، قومی برانڈ کو مضبوط بنانا اور قدامت پسند معاشرتی ڈھانچے میں تبدیلی لانا ہے۔
نئی نسل کی قیادت، خاص طور پر ولی عہد محمد بن سلمان، موسم الریاض جیسے نئے اور تخلیقی منصوبوں کے ذریعے اصلاحات کو فروغ دینے کی خواہاں ہے۔ یہ ثقافتی، فنکارانہ اور کھیلوں کے پروگرام معاشرے میں گہرے اثرات ڈالنے کے لیے ترتیب دیے گئے ہیں، اس ایونٹ کے ذریعے سعودی شہریوں کی ثقافتی شناخت اور سوچ کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:سعودی فیسٹیول؛ دنیا کا سب سے بڑے موسم خزاں کا تفریحی میلہ
موسم الریاض کیا ہے؟
موسم الریاض ایک ثقافتی اور تفریحی فیسٹیول ہے جو اکتوبر 2019 میں ترکی الشیخ کی قیادت میں وژن 2030 کے تحت شروع کیا گیا، اس پروگرام کے مالی معاونین میں نیشنل کمرشل بینک سعودی اور سعودی ٹیلی کام کمپنی شامل ہیں۔
اس فیسٹیول کا مقصد نہ صرف سعودی ثقافت کو دنیا بھر میں متعارف کرانا ہے بلکہ سعودی معیشت میں سیاحت کی معیشت کا حصہ بڑھانا بھی ہے، سعودی عرب کا ہدف ہے کہ 2030 تک سالانہ 100 ملین سیاحوں کو ملک میں لایا جائے۔
موسم الریاض کی کامیابیاں
پہلے ایڈیشن میں تقریباً 11 ملین افراد نے شرکت کی، اس دوران ہوائی سفر کی بکنگ میں 106 فیصد اور ہوٹل کی بکنگ میں 240 فیصد اضافہ ہوا، 4 نومبر 2021 کو ترکی الشیخ نے دنیا کے سب سے بڑے تفریحی ایونٹ کے انعقاد پر دو بین الاقوامی ایوارڈز جیتے اور موسم الریاض کو گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز میں شامل کیا گیا۔
موسم الریاض کے مقاصد
سعودی عرب خام تیل پر انحصار کم کرنے کے ساتھ عالمی شخصیات کو مدعو کرکے اور بین الاقوامی سیاحوں اور مقامی شہریوں کے درمیان روابط کو بڑھا کر ثقافتی تبدیلی کا عمل تیز کرنا چاہتا ہے،یہ اقدام سعودی عرب کی نرم طاقت اور عالمی سطح پر قومی برانڈ کو مضبوط بنانے کے لیے ایک اہم قدم ہے، حکومت امید کرتی ہے کہ اس طرح سعودی معاشرے کے قدامت پسند افراد دنیا کے مختلف طرز زندگی اور نظریات سے واقف ہوکر زیادہ متنوع خیالات کو قبول کریں گے۔
موسم الریاض اور سعودی عرب کے بدلتے سماجی رویے
عالمی شخصیات کی شرکت
موسم الریاض فیسٹیول کے دوران کئی مشہور شخصیات جیسے کریستیانو رونالڈو، ڈیوڈ بیکہم، اور وِل اسمتھ نے شرکت کی، مشہور گلوکاروں جینیفر لوپز، مارایا کیری، اور جسٹن بیبر نے بھی اس دوران لائیو پرفارمنسز پیش کیں۔
یہ ایونٹ سعودی عرب کی جنرل انٹرٹینمنٹ اتھارٹی کی میزبانی میں منعقد ہوا، جس پر 10 ارب ڈالر سے زیادہ بجٹ صرف کیا گیا۔ فیسٹیول کے پانچویں سیزن میں 14 مختلف علاقوں میں 150 ثقافتی اور تفریحی ایونٹس منعقد کیے گئے۔
عالمی برانڈز بھی اس ایونٹ میں نمایاں نظر آئے، جہاں لوی ویتون نے اپنی تاریخی کلیکشن کی نمائش کی، اور گوچی نے عربی-جدید ڈیزائنز کی منفرد کلیکشن پیش کی۔
بدلتے طرز زندگی کے خدشات
موسم الریاض کے حوالے سے عربی اور انگریزی میڈیا میں مثبت خبریں آ رہی ہیں، لیکن کچھ متنازع واقعات نے سعودی معاشرے میں سوالات کو جنم دیا ہے۔
قدامت پسند سعودی عرب، جو ماضی میں سلفی ازم اور وہابیت کا عالمی مرکز تھا، اب ولی عہد محمد بن سلمان کے تحت ایک نئے دور میں داخل ہو رہا ہے۔
تاہم، اس تبدیلی کے دوران، ایسے واقعات جیسے خواتین گلوکاروں کا مختصر لباس، اسلامی یا قدیم عربی علامات کا غیر مناسب استعمال، اور مغربی طرز زندگی کو فروغ دینے کی کوششوں نے کئی حلقوں میں تشویش پیدا کی ہے۔
یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ترکی اور امارات کے تجربات کو سعودی عرب میں دہرانا، بغیر سماجی اثرات کو سمجھے، سعودی معاشرے میں منظم مذہبی مخالفت کو ہوا دے سکتا ہے۔
نوجوان نسل اور پرانی اقدار کے درمیان کشمکش
سعودی قیادت کی توجہ نسل زیڈ کے ساتھ رابطے اور بین الاقوامی سطح پر سعودی عرب کی شبیہ بہتر بنانے پر ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس تبدیلی کے لیے معاشرے کی درمیانی اور پرانی نسلوں کو نظرانداز کرنا مناسب ہے؟
یہ رجحان شاید نوجوان نسل میں مقبولیت حاصل کر لے، لیکن طویل مدت میں یہ قدامت پسند طبقے میں سماجی اور ثقافتی نارضامتی کے بیج بو سکتا ہے۔
سکولرازم کے علامات کا استعمال سعودی معاشرے میں سلفی ازم کو ختم کرنے کے بجائے روایت اور جدیدیت کے تصادم کو ہوا دے سکتا ہے۔
موسم الریاض کی اخلاقی حدود کا مسئلہ
پانچواں سیزن کئی روایتی اور مذہبی ریڈ لائنز کو عبور کرتا دکھائی دیتا ہے۔
پچھلے ایونٹس میں خواتین کے کنسرٹس، فلموں کی نمائش، اور کیج فائٹنگ جیسے سرگرمیوں سے کئی قدامت پسند اصول ٹوٹے لیکن اس سیزن میں جدید جہالت کی علامتیں ظاہر ہو رہی ہیں۔
ایک متنازع واقعہ میں نیم برہنہ خواتین کو مکعب کی شکل والے اسٹیج پر پیش کیا گیا، جو کچھ حلقوں کے نزدیک اسلامی علامتوں کے خلاف تھا۔
سبق ماضی سے
ایرانی انقلاب سے پہلے جشن شیراز جیسے ثقافتی ایونٹس میں زبردستی مغربی ثقافت کے نفوذ نے ایرانی معاشرے میں ناپسندیدگی پیدا کی تھی۔
مزید پڑھیں:سعودی 2030 ویژن دستاویز
سعودی قیادت کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ آیا وہ بھی ماضی کی غلطیوں کو دہرانا چاہتی ہے یا اصلاحات کے لیے کوئی نیا راستہ اختیار کرے گی۔