سرینگر: (سچ خبریں) معروف عرب ٹی وی چینل الجزیرہ نے اپنی ایک رپورٹ میں کہاہے کہ غیرقانونی طورپر بھارت کے زیر قبضہ جموں وکشمیر میں لوگوں کو اندیشہ ہے کہ مودی حکومت کے بڑے بڑے منصوبوں کی وجہ سے وہ زرعی اراضی کے وسیع رقبے سے محروم ہو جائیں گے جس پر وہ اپنی روزی روٹی کے لیے انحصار کرتے ہیں۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق رپورٹ میں اس خدشے کو ایک مثال کے ذریعے سمجھانے کی کوشش کی گئی کہ پلوامہ کے مقام پر ایک انجینئرنگ کالج کی تعمیر کے بھارتی حکومت کے فیصلے سے ہزاروں کاشتکاروں کوزرعی زمین چھن جانے کا خطرہ ہے جو تقریبا 40 لاکھ کشمیریوں کاذریعہ معاش ہے ۔ اس میں ملک ہارون نامی شخص کی تقریبا تمام اراضی بھی شامل ہے۔ ملک ہارون کی 1.25ایکڑباغات کی اراضی سے ہر سال تقریبا 30ٹن سیب، ناشپاتی اور بادام وغیرہ پیدا ہوتے ہیں۔
اس آمدنی سے 2019کے بعد جب مودی حکومت نے دفعہ 370منسوخ کرکے علاقے کی خصوصی حیثیت ختم کردی تھی، مقبوضہ جموں وکشمیر میں وسیع پیمانے پر معاشی عدم استحکام اور بے روزگاری کے بحران میں ملک ہارون کے خاندان کو کافی مدد ملی۔خطے کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کے علاوہ مودی حکومت نے اسے مرکز کے زیر انتظام دوعلاقوں جموں و کشمیر اور لداخ میں تقسیم کردیا تھا۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ محض ایک کالج کا منصوبہ نہیں ہے۔2019کے بعد سے بھارتی حکومت نے بڑے بڑے منصوبوں کی منظوری دی ہے جن میںسڑکیں، سرنگیں، ریلوے لائنیں اور رہائشی کمپلیکس شامل ہیں ،جن سے نہ صرف اہم زرعی زمین اور ذریعہ معاش بلکہ ہمالیائی خطے کی نازک ٹوپو گرافی بھی تباہ ہو سکتی ہے۔
کشمیریوں کا کہنا ہے کہ بھارتی حکومت ان کی زمینوں کے بارے میں فیصلے کرتے ہوئے انہیں نظرانداز کررہی ہے اوران کی رضامندی اورمناسب معاوضے کے بغیر ان سے زمینیں چھین لیتی ہے۔ضلع اسلام آباد کے ایک چھوٹے سے گائوں درہامہ کے رہنے والے 65سالہ غلام محمد تانترے 1.25ایکڑباغات کی اراضی کے مالک ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ باغات سے مجھے ہر سال تقریبا 13,000ڈالر آمدنی ہوتی ہے لیکن ایک سال قبل بھارتی ریلوے حکام کی طرف سے علاقے میں زمینوں کے سروے کے بعد انہیں اپنی زمینوں سے محروم ہونے کا خدشہ ہے۔
انہوں نے کہا ہمیں اس وقت تک اندازہ نہیں تھا کہ کیا ہو رہا ہے جب تک کہ بھارتی ریلوے کی وزارت نے یہ انکشاف نہیں کیا کہ اس نے خطے میں پانچ نئے ریلوے ٹریکس کی تعمیر کے لیے حتمی سروے شروع کر دیا ہے۔ تانترے نے کہاکہ ہم نے اس سرزمین اور ان درختوں کو اپنے بچوں کی طرح پالا ہے۔بھارتی منصوبوں میں سے ایک جس نے پلوامہ کے رہائشیوں میں کافی پریشانی کو جنم دیا ہے وہ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (NIT)کا قیام ہے۔ این آئی ٹیزحکومت کے زیر انتظام بھارت کے سب سے بڑے انجینئرنگ کالجوں کا ایک سلسلہ ہے۔
24دسمبر کو جاری ہونے والے ایک سرکاری نوٹیفکیشن کے مطابق کالج کے لیے کل 600ایکڑاراضی حاصل کی جا رہی ہے، اس میں سے زیادہ تر اہم زرعی اور باغبانی کی زمین اور چراگاہیں ہیں جن پر علاقے کے لوگ روزی روٹی کے لیے انحصار کرتے ہیں۔ملک ہارون کہتے ہیں کہ مجوزہ اراضی کی منتقلی سے پلوامہ کے 10گائوں متاثرہونگے ۔انہوں نے کہاکہ یہ زمین ہماری لائف لائن ہے اوران دیہات کے زیادہ تر لوگوں کے پاس باغبانی کے علاوہ کوئی اورذریعہ معاش نہیں ہے۔کچھ لوگ روزی روٹی کے لیے بھیڑیں پالتے ہیں ۔ لیکن منصوبے میں وہ زمین بھی شامل ہے جہاں یہ لوگ مویشی چرنے آتے ہیں۔
مقبوضہ جموں وکشمیر میں طویل عرصے سے صرف ایک ریلوے لائن ہے جو بانہال کو ضلع بارہمولہ سے ملاتی ہے۔لیکن بھارتی حکومت مزید پانچ لائنیں تعمیر کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جس کے لیے سینکڑوں ایکڑ اراضی حاصل کی جائے گی، اس طرح سیب کے پھلتے پھولتے باغات اور دیگر درخت ختم کئے جائیں گے۔پانچ نئی ریلوے لائنوں میں سے ایک درہامہ سے گزرے گی جہاں ایک ریلوے اسٹیشن بھی بنایا جائے گا۔تانترے کا کہنا ہے کہ ریلوے منصوبے کی تکمیل کے بعد درہامہ میں 150میں سے کم از کم 80 خاندان اپنی آمدنی کے اہم ذریعے سے محروم ہو جائیں گے۔
انہوںنے کہاکہ میری ایک ایکڑ زمین نئے ریلوے اسٹیشن کے لیے استعمال کی جائے گی ،میرے پاس کیا بچے گا۔انہوں نے کہاکہ گائوں کے لوگوں نے ریلوے اسٹیشن کو منتقل کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کئی احتجاجی مظاہرے کیے۔انہوں نے کہاکہ زمین ہماری خاندانی وراثت ہے۔ اس نے نسلوں تک ہماری روزی روٹی کو یقینی بنایا ہے۔بے روزگاری کے بڑھتے ہوئے بحران کے پیش نظر میرے تینوں بیٹوں کے پاس نوکری نہ ملنے کی صورت میں یہ زمین ہی واحد آپشن ہے۔
ایک اور رہائشی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ مقبوضہ جموں وکشمیر کے مقامی لوگ نہیں جانتے کہ ان منصوبوں سے انہیں کیا فائدہ ہوگا۔الجزیرہ نے ریلوے پراجیکٹس پر موقف جاننے لیے کئی سرکاری حکام سے رابطہ کیا لیکن انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔پلوامہ کے رہائشی ہارون کو بھی خدشہ ہے کہ مجوزہ این آئی ٹی پروجیکٹ فوجی نوعیت کا منصوبہ ہے۔انہوں نے کہاکہ ایسا لگتا ہے کہ اس منصوبے کا مقصد یہاں فوجی موجودگی کومزید مضبوط بناناہے۔ اس منصوبے کے لیے 600 ایکڑ زمین کی ضرورت کیوں پڑے گی؟
رپورٹ کے مطابق ایک اور اقدام میں جس نے خطے میں آبادیاتی تبدیلی کے خدشات کو جنم دیا ہے، مودی حکومت نے گزشتہ سال سرینگر رنگ روڈ کے 500میٹر کے ائرے میں کم از کم 30رہائشی کالونیاں قائم کرنے کا اعلان کیا تھا۔2020میں کشمیر میں آبادیاتی تبدیلی کے خدشات اس وقت پیدا ہوئے جب بھارتی حکومت نے بھارتی شہریوں کے لیے خطے میں آباد ہونے کے قوانین میں نرمی کی۔
کشمیری ماہر تعلیم محمد جنیدنے جو امریکہ میں میساچوسٹس کالج آف لبرل آرٹس میں اسسٹنٹ پروفیسرہیں ، الجزیرہ کو بتایا کہ انہیں خدشہ ہے کہ ریلوے اور دیگر بنیادی ڈھانچے کے منصوبے کشمیری عوام کی ضروریات یا کشمیری معاشرے کی مستقبل کی ضروریات پر مبنی نہیں ہیں بلکہ ن کا مقصد علاقے کے منظر نامے کو تبدیل کرنا اور کشمیری معیشت کو تباہ کرنا ہے۔
انہوں نے کہاکہ یہ واضح ہے کہ ریلوے ہندو یاترا اور فوجیوں کی نقل و حرکت کے لیے ہیں، یہ اور بھی تشویشناک ہے کہ حکومت کالونیاں بنا رہی ہے ،کس کے لیے؟ یہ بستیاں کشمیریوں کے لیے نہیں ہیں۔ سماجی کارکن بھارتی منصوبوں کے لیے زمین کے حصول کو جابرانہ قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کچھ ناراض زمینداروں کو 1990کے ایک قانون کے تحت معاوضہ دیا جا رہا ہے۔علاقے میں مقیم ایک ماحولیاتی کارکن راجہ مظفر بٹ نے بتایاکہ 2013کے نئے قانون کے تحت معاوضہ مارکیٹ ریٹ سے چار گنا زیادہ دینا پڑتا ہے۔