سچ خبریں: گذشتہ میں شمالی یورپی ممالک جیسے سویڈن، ہالینڈ اور ڈنمارک میں قرآن پاک اور اسلام کی توہین میں نمایاں اضافہ ہوا، ایک ایسا مسئلہ جو اسلام کے فروغ کی مخالفت کے علاوہ سیاسی مقاصد رکھتا تھا۔
سال قرآن کریم اور اسلام کے ساتھ یورپی شدت پسندوں کے گھناؤنے رویے کا اعادہ اس براعظم بالخصوص یورپ کے شمالی ممالک جیسے سویڈن، ہالینڈ اور ڈنمارک کی طرف توجہ مبذول کرانے کا سبب بنا، وہ ممالک جہاں 6 ماہ سے بھی کم عرصے میں اس قسم کے تقریباً 10 واقعات رونما ہوئے۔
یہ بھی پڑھیں: سویڈن میں قرآن پاک کی توہین پر عرب ممالک کا ردعمل
ان واقعات میں عراقی نژاد ایک بنیاد پرست سویڈش شہری مومیکا سیلوان نام ہمیشہ سنا جاتا تھا، ایک ایسا شخص جسے مبصرین کے مطابق تل ابیب سے لگاؤ اور شہرت کے جنون نے قرآن پاک کی توہین کرنے ہر اکسایا،اس انتہاپسند شخص کے ساتھ انتہا پسند قوم پرست جماعتوں کے نام بھی نظر آتے ہیں، مثال کے طور پر، اسلام مخالف انتہا پسند گروپ پیگیڈا کے رہنما ایڈون ویگنزفیلڈ نے قرآن پاک کے ایک نسخے کو پھاڑنے اور اس کی بے حرمتی کرنے کے بعد اسے جلا دیا۔
ایک اور کیس میں شدت پسند گروپ ڈینش نیشنلسٹ کے پانچ ارکان نے اس ملک میں مصری سفارت خانے کے سامنے قرآن پاک کو نذر آتش کر کےاس مقدس کتاب کی توہین کو دہرایا اور اسی طرح کے دیگر واقعات بھی۔
ان مکروہ، غیر اخلاقی اور غیر انسانی رویوں کی تکرار نے دنیا میں مسلمانوں کے غصے کو بھڑکا دیا، گزشتہ سال جولائی میں سویڈن میں قرآن کی بے حرمتی کے فوراً بعد دنیا کے کئی مسلم ممالک نے اس پر ردعمل کا اظہار کیا اور ایران، عراق، اردن، ترکی، روس، سعودی عرب، مراکش، خلیج فارس تعاون کونسل، کویت، فلسطین، لبنان، مصر وغیرہ نے اس گھناؤنے، غیر انسانی اور غیر اخلاقی اقدام کی مذمت کی۔
بے حرمتی کرنے والے ملک کے ساتھ سب سے شدید تصادم عراق میں اس وقت ہوا جب مشتعل افراد نے بغداد میں اسٹاک ہوم کے سفارت خانے سے سویڈش کا قومی پرچم گرا دیا اور سویڈش سفارت خانے کا عملہ خوفزدہ ہو کر سفارت خانہ چھوڑ کر چلا گیا، ایران میں سویڈن کی توہین کے خلاف کئی ردعمل سامنے آئے، تہران میں اس ملک کے سفارت خانے کے ناظم الامور کو ایران کی وزارت خارجہ کے مغربی یورپ کے جنرل ڈائریکٹوریٹ میں اس ملک کے سفیر کی عدم موجودگی میں طلب کرکے اس احتجاج پر احتجاج کیا گیا۔
عمومی طور پر سویڈن، ڈنمارک اور ہالینڈ جیسے ممالک میں قرآن پاک کی بے حرمتی کے حوالے سے انتہائی دائیں بازو کے دھڑوں کے ارکان کے غیر اخلاقی رویے پر ایک نظر ڈالنے سے ان کے حکمرانوں کی ہری جھنڈی اور سرکاری اجازت اور سکیورٹی اداروں کی مدد سے تقریباً 2 ارب افراد کے عقائد کی توہین کا پتہ چلتا ہے۔
قرآن جلانے کا گھناؤنا سلوک۔ اسلامیت کی افزائش کا ردعمل
آج سرمایہ دارانہ نظام کو سنگین چیلنجز کا سامنا ہے جن میں سب سے اہم شناخت کا چیلنج ہے، اسلامی تشخص کی ترقی کے متوازی، اسلام مخالف شناختیں بھی مغرب میں منصوبہ بند طریقے سے پروان چڑھی ہیں لہٰذا حالیہ دہائیوں میں اسلام پسندی کی نمو تفریق کا باعث بنی ہے، اسلام پسند گروہوں اور دوسرے گروہوں میں فرق کرنا جو اسلام پسندی کو اپنے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔
ماہرین سویڈن، ڈنمارک اور ہالینڈ میں قرآن پاک کی بار بار توہین کو مغرب کی جانب سے ٹارگٹڈ پراجیکٹ قرار دیتے ہیں اور اس بات پر زور دیتے ہیں کہ قرآن کو جلانا اور اسلامو فوبیا ایک ایکشن سے بڑھ کر ایک رد عمل ہے جس کی وجہ سے یورپ میں اسلام پسندی اور مسلمان تارکین وطن کی ترقی متاثر کن ہے۔
اب یہ سوالات اٹھتے ہیں کہ یورپ میں ایک اندازے کے مطابق مسلمانوں کی تعداد کتنے ملین ہے اور وہ اس براعظم کی آبادی کا کتنے فیصد ہیں؟ نیز سب سے زیادہ مسلم آبادی کن ممالک میں رہتی ہے؟
اگرچہ مغربی ممالک عام طور پر مسلمانوں کے بارے میں درست اعدادوشمار شائع نہیں کرتے لیکن شماریاتی ویب سائٹ Statista کی 2016 کی ایک رپورٹ میں اندازہ لگایا گیا تھا کہ فرانس میں تقریباً 5.72 ملین مسلمان رہتے ہیں، جو ممالک کی فہرست میں مسلمانوں کی سب سے زیادہ تعداد ہے جبکہ جرمنی اور برطانیہ میں بھی بالترتیب 4.95 ملین اور 4.13 ملین مسلمانوں کی بڑی آبادی ہے، اسی سال "Pew Research Center” ویب سائٹ نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا تھا کہ یورپی ممالک میں مسلمانوں کی تعداد 44 ملین یا کل آبادی کا 5% بتائی گئی ہے اور یہ پیشین گوئی کی گئی ہے کہ 2030 میں مسلمانوں کی تعداد اس سے زیادہ ہو جائے گی، 10 یورپی ممالک کی کل آبادی کا 10% حصہ: کوسوو (93.5%)، البانیہ (83.2%)، بوسنیا اور ہرزیگووینا (42.7%)، جمہوریہ مقدونیہ (40.3%)۔ مونٹی نیگرو (21.5%)، بلغاریہ (15.7%)، روس (14.4%)، جارجیا (11.5%)، فرانس (10.3%) اور بیلجیم (10.2%)۔ لہذا، 40 ملین سے زیادہ آبادی والے مسلمان یورپی معاشرے میں سب سے بڑی اقلیت ہیں، اور ان میں سے زیادہ تر لوگ مغربی اور شمالی یورپی ممالک میں رہتے ہیں جو انتہائی دائیں بازو کی فکری اور ایگزیکٹو اصل ہے اور اس ڈومین کے ممالک میں قرآن جلایا جاتا ہے۔
بلاشبہ گزشتہ چند مہینوں کے دوران جب غزہ پر شدید ترین صورتحال میں بمباری جاری ہے، بہت سے یورپی غیر مسلموں نے تصاویر شائع کرکے قرآن کے مطالعہ کے آغاز کا اعلان کیا ہے، فلسطینیوں میں قرآن کریم کی نمایاں حیثیت نے غیر مسلموں کو قرآن کا مطالعہ اور تحقیق کرنے پر مجبور کیا ہے تاکہ ان کی مزاحمت کی وجہ کا جواب دیا جا سکے۔
سیاسی مقاصد کے ساتھ قرآن کی توہین
قرآن جلانے کے منصوبے کا نیٹو کے توسیعی منصوبے سے گہرا تعلق تھا، ترکی کے سفارت خانے کے سامنے ایک انتہا پسند کی جانب سے مسلمانوں کی مقدس کتاب کو نذر آتش کرنے کی مثال کے طور پر اسے سویڈن اور فن لینڈ کی نیٹو میں شمولیت پر انقرہ کی مخالفت کا جواب سمجھا گیا۔
کچھ عرصہ قبل ایک بنیاد پرست اور اسلام مخالف سویڈش ڈنمارک کے شہری "Rasmus Paludan” نے سویڈن کے دارالحکومت میں ترکی کے سفارت خانے کے سامنے قرآن کا ایک نسخہ نذر آتش کر دیا ،دیگر جگہوں میں قرآن پاک جلانے کی طرح اس نے بھی اس کام کے لیے سویڈش حکام سے اجازت لی تھی، ترک سفارتخانے کے سامنے قرآن پاک کو نذر آتش کرنے سے سویڈش حکومت کی سیاسی کار کردگی سامنے آگئی، ترکی کے سفارت خانے کے سامنے ایک انتہا پسند کی طرف سے قرآن پاک کو نذر آتش کرنے کی اجازت دینا نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن (نیٹو) میں ترکی کی موجودگی اور دوسری طرف سویڈن اور فن لینڈ کی نیٹو میں شمولیت کی ترکی کی مخالفت سے گہرا تعلق تھا۔
پی کے کے گروپ کے 130 ارکان کی واپسی کے لیے ترکی کی سویڈن سے درخواست کا معاملہ ایک طویل عرصے سے زیر بحث رہا ہے جو انقرہ اور اسٹاک ہوم کے درمیان ایک چیلنجنگ مسئلہ بن گیا ہے۔
ترکی نے ان افراد کو دہشت گرد قرار دیتے ہوئے سویڈن سے ان کی حوالگی کا مطالبہ کیا ہے جبکہ اسٹاک ہوم اس درخواست کے خلاف ہے، لہٰذا یہ واضح ہے کہ قرآن جلانے کی اجازت دینے کا معاملے کا اظہار رائے کی آزادی سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ اس ملک کی حکومت کے سیاسی استحصال کا ایک آلہ ہے۔
ترکی کے سفارتخانے کے سامنے قرآن پاک کی توہین کے واقعے کے بعد اس ملک کے صدر رجب طیب اردگان نے اعلان کیا کہ ایک انتہائی دائیں بازو کے سویڈن کی جانب سے قرآن پاک کو جلانے اور کرد دہشت گردوں کو پناہ دینے کی وجہ سےیہ ملک نیٹو میں شامل ہونے کے لیے ترکی کی حمایت پر بھروسہ نہیں کر سکتا۔
اس لیے جب ترک پارلیمنٹ نے فن لینڈ کی نیٹو میں رکنیت پر رضامندی ظاہر کی اور اس اسکینڈینیوین ملک نے 15 اپریل کو ایک طے شدہ اجلاس کے دوران باضابطہ طور پر نیٹو میں شمولیت اختیار کی اور اس فوجی اتحاد کا 31 واں رکن بن گیا تو سویڈن کے حکام نے بھی کسی حد تک اپنا نقطہ نظر تبدیل کر دیا، لیکن سویڈن اس وقت تک اس میں شامل نہیں ہوا جب تک وہ ترکی سے نیٹو میں شامل ہونے کا مکمل معاہدہ حاصل نہیں کر سکا۔
مزید پڑھیں: سید حسن نصراللہ نے قرآن پاک کی توہین کرنے والے کے بارے میں کیا کہا؟
مجموعی طور پر، گزشتہ سال قرآن کو جلانے کے گھناؤنے فعل کو دہرانے کے تناظر میں ایک غیر معمولی سال تھا، ایک ایسا مسئلہ جس نے ظاہر کیا کہ مغرب میں مذاہب کے حوالے سے آزادی اظہار رائے کا دوہرا معیار ہے جب کہ وہ ہولوکاسٹ کے بارے میں بات کرنے کو بھاری سزا کے ساتھ ناقابل معافی جرم سمجھتے تھے، انہوں نے قرآن کو جلانے کی کسی بھی تجویز کے لیے لائسنس جاری کیا۔