سچ خبریں: حالیہ دہائیوں میں صیہونی حکومت نے فلسطینی قوم کا مقابلہ کرنے کے لیے ہر آلے کا استعمال کیا ہے جس میں وقت کے ساتھ ساتھ سخت اور فوجی محاذ آرائی سے لے کر نرم اور خفیہ حکمت عملیاں بھی شامل ہیں۔
1948ء میں فلسطین پر قبضے کے بعد سے صیہونی حکومت مختلف حربے استعمال کرکے غاصبانہ قبضے کے خلاف فلسطینی قوم کی جدوجہد کو روکنے کی کوشش کر رہی ہے،اس سلسلے میں صہیونیوں نے فلسطینی قوم کو بے گھر کرنے، جلاوطنی، شہروں اور دیہاتوں کی تباہی، اراضی ضبط کرنے، بستیوں کی تعمیر اور اسلامی مقامات کو یہودیانے جیسے مختلف ہتھکنڈوں سے فلسطینی قوم کو اپنی جدوجہد جاری رکھنے سے روکنے کی کوشش کی لیکن مزاحمتی گروہوں کی طاقت میں اضافے نے صیہونیوں کے خلاف مزید سنگین اور خطرناک رجحان قائم کیا ہے۔
1948 کی زمینیں؛ صیہونیوں کی سلامتی کی فکر
فلسطین پر قبضے کو 7 دہائیوں سے زائد کا عرصہ گزر جانے اور اس سرزمین کے لوگوں کی قتل و غارت اور ان پر جبر کے باوجود فلسطینی قوم کی جدوجہد جاری ہے جس میں 1948ء کی سرزمین کے فلسطینی بھی مقبوضہ بیت المقدس، مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی کی فلسطینی قوم کے دیگر طبقات کے شانہ بشانہ موجود رہے ہیں اور انہوں نے حساس اور اہم میدانوں میں کبھی میدان نہیں چھوڑا۔
یہ بھی پڑھیں: قدس اور 48 علاقوں میں وائس آف فلسطین ریڈیو پر پابندی
صہیونی محکمہ شماریات کی طرف سے 2022 کے آخر میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق مقبوضہ فلسطینی علاقوں کی آبادی تقریباً 9 ملین افراد تک پہنچ جائے گی، یقیناً ان میں سے 21 فیصد 1948 کے مقبوضہ علاقوں سے تعلق رکھنے والے عرب ہیں، اس علاقے میں رہنے والے فلسطینی، جنہیں صیہونی اسرائیلی شہری کہتے ہیں، حالیہ برسوں میں صہیونیوں کے لیے تشویش کا ایک بڑا سبب رہے ہیں خاص طور پر مئی 2021 میں سیف القدس کی جنگ کے بعد، 1948 کی سرزمین میں صیہونی مخالف کاروائیوں کی ایک بڑی لہر شروع ہوئی جس کے بعد 1948 کی مقبوضہ سرزمین میں متعدد شہادت طلبانہ کاروائیاں دیکھنے کو ملیں،صیہونی جانتے ہیں کہ اگرچہ یہ فلسطینی ان کے زیر قبضہ علاقوں میں رہتے ہیں لیکن وہ درحقیقت اسرائیلی شہری نہیں ہیں اور ان کا خطرہ مغربی کنارے، قدس یا غزہ کی پٹی کے فلسطینیوں سے کم نہیں ہے نیز گزشتہ 2 دہائیوں میں آبادی میں اضافے کا اشاریہ بھی فلسطینیوں کے حق میں رہا ہے۔
یاد رہے کہ 2009 میں مقبوضہ علاقوں میں رہنے والے یہودیوں کی آبادی 80 فیصد تھی لیکن 2022 کے آخر تک اس تعداد میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے، واضح رہے کہ 70 لاکھ فلسطینی آبادی میں سے 3.2 ملین مغربی کنارے اور مقبوضہ بیت المقدس میں رہتے ہیں، 2.1 ملین غزہ میں رہتے ہیں اور 1.7 ملین 1948 کے مقبوضہ علاقوں میں رہتے ہیں۔
درحقیقت سنہ 1948 کے مقبوضہ علاقوں میں فلسطینیوں کی اس بڑی آبادی کی موجودگی ہمیشہ سے صیہونی حکومت کی سلامتی کے خدشات میں سے ایک سمجھی جاتی رہی ہے، خاص طور سے جب سے ان علاقوں میں فلسطینی صیہونیوں کے ساتھ ایک بنے ہوئے تانے بانے میں رہنے پر مجبور ہیں اور ان کی طرف سے اٹھائے گئے حفاظتی اقدامات عمومی طور پر صیہونی حکومت کی سلامتی کو خطرے میں ڈالتے ہیں، 2021 میں جنگ سیف القدس سے متعلق واقعات کے دوران 1948 کے مقبوضہ علاقوں میں فلسطینیوں کے زبردست احتجاج اور مظاہروں نے صیہونیوں کی آنکھوں کے سامنے تلخ حقیقتیں پیش کیں، تل ابیب کے رہنماؤں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ ایک دن ان کے خلاف فلسطینی عوام کی جدوجہد، مقبوضہ بیت المقدس، مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی کے علاوہ ان کے ساتھ صفر کے فاصلے پر 1948 کے مقبوضہ علاقوں میں بھی ہوگی،اس سلسلے میں صیہونیوں نے اس سے قبل غزہ، قدس اور مغربی کنارے میں فلسطینیوں کے خلاف فوجی لڑائی اور چھاپہ مار کاروائیوں جیسے متعدد معاندانہ طریقوں کا تجربہ کیا تھا، اس بار1948 کے مقبوضہ علاقوں میں فلسطینیوں سے لڑنے کے لیے ایک نیا ہتھیار استعمال کیا۔
جرائم کا بامقصد اور منظم پھیلاؤ
حالیہ برسوں میں 1948 کے مقبوضہ علاقوں میں جرائم اور قتل وغارت گری میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جس کے باعث 2023 کے آغاز سے اب تک ان خونریز واقعات میں 10 خواتین سمیت 166 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، رواں ماہ کے آغاز سے اب تک مقبوضہ علاقوں میں صیہونی جرائم کا شکار ہونے والوں کی تعداد 11 ہو گئی ہے،اس اعداد و شمار میں گزشتہ دو سالوں کے مقابلے میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور عرب یوتھ ایسوسی ایشن کی جانب سے "بلدنا” (ہماری سرزمین) کے نام سے شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق 1948 کے مقبوضہ علاقوں میں 2016 میں جرائم کا شکار ہونے والوں کی تعداد 53 سے بڑھ کر ۔ 2022 میں 108تک پہنچ گئی جو چار سال کی مدت میں اس خطے میں جرائم کے متاثرین میں 103 فیصد اضافہ ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ 84 فیصد جرائم کے متاثرین گولی لگنے سے ہلاک ہوئے جبکہ 30 سال سے کم عمر کے متاثرین کی اوسط تعداد 58 فیصد رہی،یاد رہے کہ سنہ 1948 کے مقبوضہ علاقوں میں اور دیگر فلسطینی علاقوں میں زیادہ تر نوجوان نسل کو نشانہ بنانے والے جرائم اور قتل وغارت نے سیاسی طور پر باخبر مبصرین کو اس بات سے آگاہ کر دیا ہے کہ فلسطینی قوم کی جدوجہد کو صیہونی حکومت کی جانب سے کس طرح کی حکمت عملی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
مزید پڑھیں: صیہونی کابینہ کے حالیہ فاشسٹ رویے کے برعکس نتائج برآمد ہوئے ہیں:عطوان
ماہرین کا خیال ہے کہ سنہ 1948 کے مقبوضہ علاقوں میں جرائم کا پھیلاؤ اور جرائم پیشہ اور پرتشدد گروہوں کی رہائی تل ابیب کے رہنماؤں کی جانب سے ان علاقوں میں فلسطینیوں کو نشانہ بنانے کی ایک ٹارگٹڈ حکمت عملی ہے، خاص طور پر 2021 کے بعد اور جنگ سے متعلق واقعات۔ سیف القدس سمیت ان علاقوں میں فلسطینیوں کے بڑے پیمانے پر صیہونی مخالف مظاہروں کے ساتھ ساتھ ان علاقوں میں جرائم میں تیزی اور نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
خلاصہ
حالیہ دہائیوں میں صیہونی حکومت کے جرائم کی تاریخ کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مخصوص گروہ اپنے قبضے میں آنے والی سرزمینوں میں اپنے وجود کو مضبوط کرنے کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑتا،صیہونیوں نے جو انسانیت کے خلاف خونریز ترین جرائم اور بڑے پیمانے پر قتل عام کے ذریعے فلسطین پر اپنا تسلط جمانے میں کامیاب ہوئے تھے، اس کے بعد سے اب تک اپنے تزویراتی اہداف کے مطابق، جو ان دنوں بامقصد اور منظم طریقے سے پھیلا رہے ہیں، کوئی جرم نہیں چھوڑا، جہاں 1948 کے مقبوضہ علاقوں میں جرائم کو دیکھا جا سکتا ہے، یہ صہیونی سازش ہے جو یقینی طور پر فلسطینیوں کے خلاف اس حکومت کے جرائم کی آخری حد نہیں ہو گی۔