سچ خبریں:جہاں امریکہ چین پر تائیوان پر حملے کا الزام لگاتا ہے وہیں بیجنگ نے بارہا کہا ہے کہ تائیوان کا مسئلہ یوکرین سے کوئی مماثلت نہیں رکھتا اور یہ خطہ چین کی سرزمین کا حصہ ہے، تائیوان کو فوجی ڈرون اور جدید ہتھیار بیچ کر امریکہ نے اس جزیرے کو بارود کے گودام میں تبدیل کر دیا ہے۔
چینی وزارت خارجہ کے ترجمان ماو ننگ نے امریکی وفد کے تائیوان کے دورے کو فوجی تعلقات کو مضبوط بنانے اور جزیرے کے حکام کو ہتھیاروں کی فروخت کو متحد چین کے اصول اور واشنگٹن بیجنگ مشترکہ اعلامیہ کی دفعات کی خلاف ورزی قرار دیا، انہوں نے واشنگٹن اور تائپے کے فوجی تعلقات کی مضبوطی کے حوالے سے زور دے کر کہا کہ ہتھیاروں کے ڈیلروں اور تاجروں کے 25 رکنی وفد کا تائپے کا دورہ امریکہ کے تائیوان کو بارود کے گودام میں تبدیل کرنے کے ارادے کا ایک اور ثبوت ہے جو تائیوان کے لیے پریشانی کا باعث بنے گا، چینی عہدیدار کا یہ بیان وائٹ ہاؤس کی تائیوان کے تئیں پالیسی کو ظاہر کرتا ہے جبکہ برسوں سے ماہرین کا کہنا ہے کہ ایشیائی براعظم میں کشیدگی میں اضافہ وائٹ ہاؤس کی اسٹریٹجک پالیسیوں میں سے ایک ہے اس لیے کہ اسے اس خطہ میں نئی طاقتوں کے ابھرنے کا خدشہ ہے،امریکہ جو حالیہ برسوں میں اپنے اندرونی اور عالمی مسائل کی وجہ سے بتدریج زوال پذیر ہو رہا ہے، اپنی سرحدوں سے باہر طاقت کے نئے قطبوں کی تشکیل سے خوش نہیں دکھائی دے رہا ہے اس لیے وہ تناؤ پیدا کرنے والی پالیسیوں کو ہوا دے کر ان ممالک کو ایک دوسرے کی معاشی، فوجی اور علمی حمایت سے دور دھکیلنے کی کوشش کر رہا ہے،وائٹ ہاؤس سوچ رہا ہے کہ جنگ اور علاقائی بحران پیدا کرنا ابھرتی ہوئی طاقتوں کو پیچھے دھکیلنے کا ایک طریقہ ہے لہذا وہ تائیوان اور چین کے درمیان کشیدگی کو بڑھا کر اس ایشیائی زرد اژدھے کو دنیا کے معاشی قطب تک پہنچنے سے روکنے کی کوشش کر رہا ہے وہ اژدھا جس نے اپنے قدم افریقہ یہاں تک کہ امریکی براعظم سے بھی آگے بڑھا لیے ہیں البتہ یہ وہی پالیسی ہے جسے امریکہ نے مشرقی یورپ میں نافذ کیا ہے جہاں اس نے یوکرین کی جنگ چھیڑ کر اسلحہ اور فوجی سازوسامان بیچتے ہوئے روس اور یورپی ممالک کی توجہ اس جنگ کی طرف مبذول کرانے کی کوشش کی ہے جبکہ کریملن محل انحطاط کی جنگ میں ملوث ہے، اگرچہ یوکرین کی جنگ کا اصل آغاز کرنے والا امریکہ تھا لیکن یہ جنگ ایک نئے ورلڈ آرڈر کی تشکیل کو روکنے کے لیے امریکہ کی بنیادی خواہش کو حاصل نہیں کر سکی۔
امریکہ چین تعلقات میں کشیدگی
چین اور امریکہ کے درمیان تعلقات گزشتہ کئی سالوں سے غیر معمولی کشیدگی کا شکار ہیں اور دنیا کی یہ دو بڑی اقتصادی طاقتیں تائیوان اور انسانی حقوق کے مسائل سے لے کر بحیرہ جنوبی چین میں اس کی فوجی سرگرمیوں تک کے مسائل پر آمنے سامنے ہیں، گزشتہ ماہ کشیدگی کے تازہ ترین معاملے میں چین نے تائیوان کے قریب بڑے پیمانے پر فوجی مشقیں کی جن میں 11 جنگی جہازوں اور 59 طیاروں نے حصہ لیا،بیجنگ نے ان مشقوں کو تائی پے کے لیے شدید وارننگ قرار دیا،تائیوان کے قریب چینی فوجی مشق میں طیارہ بردار بحری جہاز شینڈونگ کی موجودگی کا اعلان کرنے کے بعد امریکہ نے کہا کہ ملک کا تباہ کن یو ایس ایس ملیئس بحیرہ چین میں نیوی گیشن آپریشن کر رہا ہے، تاہم چین نے بحیرہ جنوبی چین میں اس ڈسٹرائر کی موجودگی کو جارحیت قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی،یاد رہے کہ حالیہ مہینوں میں امریکیوں نے دعویٰ کیا ہے کہ چین یوکرین کے بحران سے فائدہ اٹھاتے ہوئے تائیوان کو اپنی سرزمین میں شامل کرنے کے لیے اس ملک پر حملہ کرنے کی تیاری کر رہا ہے،اگرچہ بیجنگ حکام بارہا اس دعوے کی تردید کر چکے ہیں لیکن واشنگٹن چین کو تائیوان پر ممکنہ حملے کے لیے اکسانے کی کوشش کر رہا ہے چونکہ امریکی روس کو یوکرین پر حملہ کرنے پر اکسا کر اس ملک کو معاشی اور عسکری طور پر شکست دینا چاہتے ہیں، اس لیے چین پر بھی لاگو کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور وائٹ ہاؤس کے حکام چین کو تائیوان پر حملہ کرنے کے اکسا کر اس ابھرتے ہوئے حریف کو دبانے کی کوشش کر رہے ہیں، جہاں وائٹ ہاؤس چین پر تائیوان پر حملے کا الزام لگاتا ہے وہیں بیجنگ کے سیاستدانوں نے بارہا کہا ہے کہ تائیوان کے معاملے کا یوکرین سے کوئی لینا دینا نہیں ہے،یہ خطہ چین کی سرزمین کا حصہ ہے، تاہم تائیوان کو فوجی ڈرون اور جدید ہتھیار بیچ کر امریکہ نے اس چھوٹے سے جزیرے کو خطے میں بارود کے گودام میں تبدیل کر دیا ہے جو کسی بھی وقت چین کے ساتھ تنازع کو جنم دے سکتا ہے نیز اپنے مغربی آقاؤں کی پیروی کرتے ہوئے، جاپان نے بارہا دعویٰ کیا ہے کہ تائیوان میں یوکرین کا منظر نامہ دہرایا جا سکتا ہے اور اس نے چین کی چالوں کا مقابلہ کرنے کے لیے عالمی اتحاد پر زور دیا ہے۔
چین اور روس کے درمیان اتحاد کی توسیع
اگرچہ امریکہ ایشیا میں چین اور روس مخالف اتحاد کی تشکیل کے ساتھ آگے بڑھنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن روس اور چین بھی اس کے مقابلے میں مغرب کے خلاف اتحاد کی طرف مائل ہو گئے ہیں جہاں یوکرین میں جنگ نے یوریشین یونین کے قیام کے لیے ایک سرعت کا کام کیا ہے،جیسا کہ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ جنگ ایران اور روس کے درمیان اتحاد کو مضبوط بنانے کا باعث بنی ہے نیز اس نے چین اور روس کے درمیان اتحاد کو مزید مضبوط بنا دیا ہے، چین روس تعلقات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ چین اور روس کو ایک دوسرے کی طرف دھکیلنے والی اہم طاقت؛ جس میں جلد تبدیلی کا امکان نہیں ہے وہ ہے دونوں ممالک کی امریکہ اور مغرب کے ساتھ مشترکہ دشمنی،امریکن یونیورسٹی کے اسکول آف انٹرنیشنل سروسز کے اسسٹنٹ پروفیسر جوزف ٹوریگیان کہتے ہیں کہ دونوں دارالحکومتوں میں یہ نظریہ ہے کہ امریکہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے اور ان کا ایک طویل المدتی تزویراتی دشمن ہے،دونوں ممالک مغرب کو بڑی طاقت سمجھتے ہیں اور اپنے اختلافات کو کنٹرول کرتے ہیں تاکہ مل کر اس خطرے کا مقابلہ کر سکیں، گزشتہ فروری میں، ژی اور پیوٹن نے ایک تاریخی مشترکہ بیان پر دستخط کیے تھے جس نے بیجنگ اور ماسکو کے درمیان ایک خصوصی تعلق قائم کیا تھا، جس میں تعاون کے لیے کوئی ممنوعہ حد نہیں تھی ،اس بیان کو عالمی طاقتوں کے توازن کو قائم کرنے کی کوشش کے طور پر سمجھا جاتا ہے تاکہ امریکہ اور واشنگٹن کی قیادت میں بنائے گئے اتحاد کے نظام کا سامنا کیا جا سکے۔ معاہدے کے تحت، دونوں ممالک تائیوان کے خود مختار جزیرے پر چین کا دعویٰ اور یوکرین اور دیگر سرحدی علاقوں میں روس کے مفادات سمیت ایک دوسرے کے بنیادی مفادات کے تحفظ کا عہد کرتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ بیجنگ نے یوکرین پر روس کے حملے کی مذمت نہیں کی بلکہ اس کے بجائے امریکہ اور نیٹو کو اس تنازعے کا ذمہ دار ٹھہرایا نیز ماسکو اور بیجنگ مل کر مغربی پابندیوں کا مقابلہ کرنےپر بھی زور دے رہے ہیں،اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ بیجنگ نے تائیوان کے خلاف اور روس کے ساتھ بڑھتے ہوئے تعاون پر مبنی جو حکمت عملی اختیار کی ہے ،مشرقی ایشیا پر اس کا کیا اثر ہو گا۔