سچ خبریں:جنوبی لبنان سے شمالی مقبوضہ فلسطین کی بستیوں پر چاہے کسی بھی گروہ نے راکٹ داغے ہوں لیکن یہ لبنانی مزاحمت کے ساتھ ہم آہنگی کے بغیر نہیں ہوسکتا جس سے اور صیہونی حکومت بھی بخوبی واقف ہے۔
انٹر ریجنل اخبار رائے الیوم کی رپورٹ کے مطابق اس وقت صہیونی رہنماؤں کو سیاسی اور عسکری دونوں لحاظ سے جو چیز پریشان کررہے ہے، وہ اس وقت جنوبی لبنان کے محاذ کا کھلنا اور وہاں سے الجلیل ، حیفا، عکا اور شائد تل ابیب کی طرف راکٹوں کا داغا جانا ہے، جمعرات کو بجلی کی صورت میں مقبوضہ بستیوں پر گرنے والے مزائلوں کا صیہونی حکومت کا آہنی گنبد مقابلہ نہ کر سکا اور کیٹوشا اور گراڈ میزائلوں نے مقبوضہ علاقوں کو نشانہ بنایا۔
صہیونی فوج کے ترجمان نے دعویٰ کیا کہ جنوبی لبنان سے 34 میزائل داغے گئے جن میں سے 25 کو تباہ کردیا گیا ،تاہم ان میں سے کم از کم 5 شمالی مقبوضہ فلسطین میں اپنے اہداف تک پہنچ گئے، یہ خود صیہونیوں کا دعویٰ ہے اور ہر کوئی اچھی طرح جانتا ہے کہ قابض حکومت کس قدر مادی اور انسانی نقصانات کو چھپاتی ہے،یہ راکٹ حملے اس لیے اہم ہے کہ یہ 2006 کی جنگ کے بعد فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی اور مسجد الاقصی کے نمازیوں کے خلاف صیہونیوں کے وحشیانہ حملے کے جواب میں لبنان کے جنوب سے یہ پہلی بار کیا گیا ہے۔
ان میزائلوں کی اہمیت کا اندازہ صیہونی فوج یا اس کے آباد کاروں کی ہلاکتوں یا زخمیوں کی تعداد سے نہیں بلکہ اس حکومت کے سیاسی اور عسکری اداروں پر ان کے نفسیاتی اثرات اور نتائج سے لگایا جائے گا اس لیے کہ صیہونی حکومت اب آباد کاروں کی حفاظت کرنے کے قابل نہیں رہی جس کا مطلب سکیورٹی کا زوال اور غیر ملکی کمپنیوں اور سرمایہ کاری کی واپسی صیہونیوں کی الٹی ہجرت میں اضافہ ہے،زیادہ تر صہیونی بستیوں میں خطرے کی گھنٹیاں بجنے اور ہزاروں لوگوں کے پناہ گاہوں کی طرف بھاگنے نے بنیامین نیتن یاہو اور اس کی فسطائی حکومت نیز صیہونی ریاست کے پورے وجود کو مشکل میں ڈال دیا، خاص طور پر ان دنوں میں جبکہ قابض حکومت شدید مشکلات کا شکار ہے،وہاں ایک خانہ جنگی ہے اور لاکھوں لوگ احتجاجی مظاہروں میں سڑکوں اور چوکوں پر ہیں۔
آج مارے کیے گئے میزائلوں کو بیلسٹک درستگی کے نمونوں سے کم خطرناک قرار دیا جا سکتا ہے، جن میں سے دسیوں ہزار حزب اللہ کے قبضے میں ہیں اسی وجہ سے حزب اللہ کا آج کا اقدام نیتن یاہو اور اس کی جعلی حکومت کے لیے ایک انتباہ قرار دیا جا سکتا ہے کہ مسجد اقصیٰ پر وحشیانہ حملے اور اس میں نمازیوں پر حملے کے جاری رہنے کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے اور یہ ممکن ہے جیسا کہ سید حسن نصر اللہ نے اپنی حالیہ تقریر میں کہا تھا کہ ایک نئی علاقائی جنگ شروع ہونے کا خطرہ ہے۔
قابل ذکر ہے کہ یہ میزائل حملہ شام میں صیہونی حکومت کی حالیہ جارحیت کا جواب ہے، ایک ایسی جارحیت جس میں دو ایرانی مشیروں کی شہادت ہوئی جس کے بعد پاسداران انقلاب اسلامی نے بدلہ لینے کا وعدہ کیا اور تصدیق کی کہ صیہونی حکومت کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ ہر جگہ جاری کر دیا گیا ہے، یہ تزویراتی مرحلے میں داخل ہو چکا ہے اور مزاحمتی محور اور اس کے حملہ آور ہتھیاروں کی اسٹریٹیجک خاموشی ختم ہو چکی ہے اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ آنے والے دنوں اور ہفتوں میں ہم قابض حکومت کے لیے چونکا دینے والے حیرت کا مشاہدہ کریں گے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ نیتن یاہو نے ہمیشہ کی طرح لبنان کو تباہ کرنے اور اسے ختم کرنے کی دھمکی نہیں دی ہے بلکہ ان کے عسکری رہنماؤں نے بعض اخبارات اور ویب سائٹس میں شائع ہونے والے بیانات میں اس بات کی تصدیق کی ہے کہ وہ لبنان کے ساتھ جنگ شروع نہیں کرنا چاہتے اور امن کو ترجیح دیتے ہیں ،ان کی یہ وضاحت صرف اس لیے کہ انہوں نے محسوس کر لیا ہے کہ اگر یہ جنگ بھڑکتی ہے تو یہ قابض حکومت کی تباہی کا آغاز ہو گا، کیونکہ 150000 سے زیادہ میزائل اور 5000 خودکش ڈرون حیفا اور دیگر صہیونی بستیوں پر بمباری کے لیے سبز روشنی کا انتظار کر رہے ہیں۔
واضح رہے کہ کسی بھی گروہ کی طرف سے شمالی مقبوضہ فلسطین کی بستیوں پر بمباری کے لیے جنوبی لبنان سے راکٹ داغنا لبنانی مزاحمت بالخصوص حزب اللہ کے رہنما کے ساتھ ہم آہنگی کے بغیر نہیں ہو سکتا صیہونی حکومت کی فوجی اسٹیبلشمنٹ اس حقیقت سے بخوبی واقف ہے،نیتن یاہو اپنے گہرے ہوتے ہوئے اندرونی بحرانوں سے بچنے کے لیے جنگ چاہتے ہیں، اور جنگ کے ابتدائی آثار بھی سامنے آچکے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وہ جنوبی لبنان پر حملہ کرنے کے لیے ٹینک بھیجیں گے؟ ہمیں تقریباً یقین ہے کہ وہ جنگ بندی کے معاہدے کی تلاش میں واشنگٹن، پیرس اور لندن میں سفیر بھیجے گا، جس میں بڑی رعایتیں اور نظرثانی کی پیشکش کی جائے گی، جن میں سب سے نمایاں مسجد اقصیٰ پر حملوں کو روکنا ہے،وہ محصور غزہ کی پٹی میں فلسطینی مزاحمت کا مقابلہ کرنے سے تو قاصر ہے، تو میزائلوں اور ڈرونز سے لیس جنوبی لبنان پر فوجی حملہ کیسے کر سکتا ہے۔