سچ خبریں:15ستمبر 2020ء کو واشنگٹن میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی کے ساتھ صیہونی حکومت ، متحدہ عرب امارات اور بحرین کے درمیان ہونے والے مفاہمتی معاہدے پر دستخط کے کے بعد ان تینوں حکومتوں کے درمیان موجود خفیہ تعلقات تیزی کے ساتھ منظرعام پر آگئے تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ جس تیزی سے منظرعام پر آئے ہیں اسی تیزی کے ساتھ ختم ہو جائیں گے۔
کئی سالوں سے عرب دنیا کی قیادت سنبھالنے کے لیے مالی اچھے حالات کے مالک خلیج فارس کے تین عرب ممالک سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر کے درمیان سخت مقابلہ چل رہا ہے جس میں یہ ممالک اپنے آپ کو برتر ثابت کرنے کے لیے مختلف ہتھکنڈے اپنا رہے ہیں، تاہم یہ اس بات سے بے خبر ہیں کہ ان میں سے کچھ چیزیں جن کی تلاش میں ہیں انہیں زوال کی وادی میں ڈھکیل دیں گی،مذکورہ تین ممالک میں متحدہ عرب امارات نے صیہونی حکومت کے ٹکٹ کو کھلے عام عرب دنیا کی قیادت تک پہنچنے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی ہے جبکہ سعودی عرب بھی اسی راستے پر گامزن ہے ،تاہم وہ ابھی تک خفیہ طور پر یہ کام کر رہا ہے لیکن قطر نے عرب دنیا کی قیادت تک پہنچنے کے لیے اپنے راستے کو ایک حد تک الگ کر لیا ہے، اس نے ابھی تک صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی کوشش نہیں کی ہے بلکہ دوسرے طریقے سے اپنے مقصد تک پہنچنے کی کوشش جاری رکھے ہوئے ہے۔
واضح رہے کہ اس دوران عمان، خلیج فارس تعاون کونسل کے ایک اور رکن کی حیثیت سے عملی طور پر صیہونی حکومت کے خلاف ایک رکاوٹ بن گیا ہے اور اس نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو علاقے میں اپنے پیر پوری طرح سے پھیلانے کی اجازت نہیں دی ہے،عمان کے بادشاہ سلطان ہیثم نے کچھ عرصہ قبل صیہونی حکومت کو اس کی اوقات دکھاتے ہوئے اس کے طیاروں کو عمان کی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت نہ دے کر سعودی فضائی حدود کے استعمال پر مبنی صیہونی سعودی معاہدے کو عملی طور پر منسوخ کر دیا ، ایک ایسا عمل جو تل ابیب کو بہت مہنگا پڑا،15 جولائی کو
یاد رہے کہ تین سال قبل سعودی فضائی حدود کے استعمال پر مبنی ریاض تل ابیب معاہدے پر مسقط نے رضامندی ظاہر کی کہ اسرائیلی طیارے عمان کی فضائی حدود استعمال کرستے ہیں، سنہ 2018 میں صیہونی حکومت کے اس وقت کے وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے مسقط کے دورے کے دوران اور عمان کے سابق بادشاہ سلطان قابوس (مرحوم) سے بات چیت کے بعد اس حکومت کی پروازوں کے لیے عمان کی فضائی حدود کے گذرنے کے لیے ان کی منظوری حاصل کی تھی لیکن سلطان قابوس کی وفات کے بعد سلطان ہیثم بن طارق نے اس فیصلے کی مخالفت کی، یہ مخالفت صیہونیوں کو اتنی مہنگی پڑی کہ ریاض اور تل ابیب کے درمیان فضائی معاہدہ عملی طور پر ختم ہو گیا، کیونکہ اگر صیہونی طیاروں کو عمان کی فضائی حدود سے گذرنے کی اجازت نہیں ہوگی تو سعودی صیہونی معاہدے کی کوئی اہمیت نہیں رہے گی۔ َ
واضح رہے کہ حالیہ برسوں میں تین عرب ممالک متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور اردن کے درمیان صیہونی حکومت کے ساتھ مل کر ایک خاموش لیکن اہم منصوبہ عمل میں لایا جا رہا ہے، جسے خطے کے تجزیہ نگار اور ماہرین موت کی ٹرین سے تعبیر کرتے ہیں، ایک ایسا منصوبہ جس کے کئی حصے پورے ہوچکے ہیں، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور اردن کے درمیان مشترکہ ریلوے لائن ایک خاموش منصوبہ ہے جو 2009 میں شروع کیا گیا تھا اور ان دنوں خطے کے عرب ممالک کے سربراہان کے درمیان بحث کا ایک اہم مرکز بنا،اس طویل ریلوے لائن کی لمبائی دو ہزار 177 کلومیٹر ہے ، اس سے قبل مقبوضہ علاقوں سے شائع ہونے والے معروف اخبار نے صیہونی وزیر اعظم کے دفتر کی اقتصادی کونسل کے سابق سربراہ (Avi Semhon) کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اس راستے کا ایک بڑا حصہ تیار ہے اور اس کا صرف 300 کلومیٹر جو سعودی عرب اور اردن کی حدود میں واقع ہے، تعمیر کیا جانا چاہیے،خلیج فارس کے عرب لیڈروں کا دعویٰ ہے کہ یہ ریلوے لائن 2025 تک کام کرنا شروع کر دے گی اس لیے کہ اس وقت بھی اس پر کام ہو رہا ہے،عبرانی زبان کے اخبار "مکور رشون” نے میں صیہونی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے حالیہ اردن کے دورے کی تفصیلات کا انکشاف کرتے ہوئے لکھا کہ اس سفر کے دوران انہوں نے ابوظہبی-تل ابیب ریلوے لائن جو سعودی عرب اور اردن سے گذرتی ہے ،کی تعمیر کے بارے میں اردن کے شاہ عبداللہ دوم کے ساتھ بات چیت کی تھی،اس صہیونی اخبار نے تل ابیب کے ایک اعلیٰ سکیورٹی اہلکار کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ نیتن یاہو نے عمان کے دورے کے دوران اہم اور اسٹریٹجک امور پر تبادلہ خیال کیا۔صیہونی حکومت کے اس اہلکار کے مطابق ابوظہبی-حیفا ریلوے لائن کے کھلنے سے زرعی مصنوعات کی منتقلی کے لیے ایک ایسا پلیٹ فارم میسر آئے گا جو متحدہ عرب امارات کو اپنے موسمی حالات کی وجہ سے فائدہ نہیں اٹھانے سے بھی نہیں روکے گا،معلوم ہوا ہے کہ امریکہ بھی اس منصوبے پر تیزی سے عملدرآمد اور اس کی تکمیل کا خواہاں ہے۔
اس میں اہم نکتہ یہ ہے کہ صیہونی حکومت نے اس بارے میں عرب حکومتوں کے ساتھ اتفاق کیا ہے لیکن اس نے ان ممالک کے عوام اور مزاحمتی گروہوں کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں کیا ہے اور نہ کر سکتا ہے جس کے نتیجہ میں یہ معاہدہ تیل کے لیڈروں عرب رجعتی ممالک اور تل ابیب کے مستقبل قریب میں ایک بڑا چیلنج بن کر سامنے آئے گا جو ان کے تمام منصوبوں کو ہوا میں اڑا دے گا۔