سچ خبریں:سید حسین بدر الدین الحوثی یمن کی انصار اللہ تحریک کے بانی تھے، ایک عسکری رہنما جن کی سوچ اور انقلاب کئی دہائیوں تک عالمی استکبار کے لیے ڈراؤنا خواب بن گیا۔ ایک عظیم سپہ سالار جو دنیا میں مزاحمت کا نعرہ ہے اور امریکی دہشت گردوں نے انہیں شہید کر کے ان کے نام و یاد کو ہمیشہ کے لیے زندہ کر دیا۔
المیادین چینل کی ویب سائٹ نے اپنی ایک دستاویزی رپورٹ میں یمن کی تحریک انصاراللہ کے بانی سید حسین بدر الدین الحوثی کی شہادت کی برسی پر گفتگو کی،اس رپورٹ میں یمن کے معاشرے میں اس انقلابی رہنما کی سرگرمیوں سے آگاہی کے ساتھ ساتھ ہم امریکی اور صیہونی عالمی استکبار کے خلاف ان کے اقدامات پر گفتگو کریں گے اور امریکی فوج کے ہاتھوں ان کی شہادت کی دستاویزات کا جائزہ لیں گے۔
بحرانوں کے گہرائیوں سے حسین الحوثی کی بیداری کی تحریک کا آغاز
اگر ہم یمن میں شہید حسین بدر الدین الحوثی کی سرگرمیوں کے بارے میں بات کرنا چاہتے ہیں تو یہ بات انسانی، سماجی، ثقافتی اور تعلیمی امور میں ان کے کردار اور شخصیت کی تفصیلات کو بیان کیے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی، انہوں نے یمن کے اتحاد کے بحران کے دوران ایک نمایاں کردار ادا کیا،وہ بحران جو 1994 کے موسم گرما میں جنگ کا باعث بنا،شہید حسین الحوثی ہمیشہ ایک ایسے شخص کے طور پر سامنے آئے جو اپنے ملک کے مفادات اور اس کے اتحاد و سلامتی کا تحفظ چاہتے تھے، یہاں تک کہ وہ ایک طرف کانگریس اور اصلاحی پارٹیوں اور دوسری طرف کانگریس اور سوشلسٹ پارٹی کے درمیان مصالحتی ٹیم کے رکن بھی تھے،شہید حسین الحوثی نے جب محسوس کیا کہ یمن کے حالات اور صورتحال جنگ کی طرف بڑھ رہی ہے تو انہوں نے دارالحکومت چھوڑ کر صعدہ صوبے میں جانے کا فیصلہ کیا،جنگ کو مسترد کرنے میں ان کی طرف سے یہ ایک اصولی موقف تھا، انہوں نے یہ فیصلہ حکام کی طرف سے اس جنگ کو جائز قرار دینے کے لیے پارلیمنٹ کے تمام اراکین کو دارالحکومت صنعاء سے نکلنے سے روکنے کے احکامات کے باوجود کیا اور جنگ کے خلاف متعدد مظاہروں کی قیادت بھی کی، حسین الحوثی کی راہ یمن کے اندرونی واقعات کی وجہ سے پیدا ہونے والی تمام رکاوٹوں اور مسائل نے قوم کے تئیں ان کی ذمہ داری کو ختم نہیں کیا، وہ ممتاز مفکرین اور انقلابیوں میں سے تھے اور عالمی استکبار کے خلاف مزاحمت کے محافظ تھے اور بیرونی وابستگی اور سر تسلیم خم کرنے کی حالت سے نکل کر مزاحمت اور محاذ آرائی کی حالت میں داخل ہونا چاہتے تھے، ان خیالات اور مزاحمتی جذبے کا جائزہ لینے سے ہر قاری بخوبی سمجھ جائے گا کہ سید حسین بدرالدین الحوثی پر ان کی بابرکت زندگی میں اور (10 ستمبر 2004) کو ہونے والی ان کی شہادت کے بعد بھی کیوں حملے ہوئے، یہ وہ تاریخ ہے جو یمنیوں نے اپنی بیعت کی تجدید، اپنی وفاداری کو ثابت کرنے نیز اپنی قوم کو متحرک کرنے کے لیے مقرر کی ہے، وہ بھی ایسی حالت میں جب وہ برسوں سے ایک فضول اور مسلط کردہ جنگ سے دوچار ہیں۔
ان کا انقلابی منصوبہ؛ ایک ڈراؤنا خواب جس نے واشنگٹن اور تل ابیب کی نیددیں اڑا دیں
انہوں نے کہا کہ ہم آواز اٹھائیں گے، چاہے ہمارا تعلق کسی بھی تنظیم سے ہو، ہم جہاں کہیں بھی ہوں، آواز بلند کریں گے،ہم آج بھی یمنی ہیں اور مسلمان ہیں۔ کیا یہ وقت سچائی کا نہیں ہے اور اس میں سب کچھ ظاہر نہیں ہے؟ ہمیں خاموش نہیں رہنا چاہیے بلکہ متحرک ہونا چاہیے اور ہر محفل میں دوسروں کو آواز اٹھانے کے لیے کہنا چاہیے،امریکہ مردہ باد،اسرائیل مردہ باد اسرائیل یمن بھر میں اس شہید قائد کی وہ گونجتی ہوئی آواز تھی جو 17 جنوری 2002 کو سنی گئی،وہ بھی ایسے حالات میں جب یہ خطہ’دہشت گردی کے خلاف جنگ کے عنوان سے حساس اور خطرناک حالات سے گزر رہا تھا،یہی آواز انہیں امریکہ کے نشانے پر لانے کا سبب بنی، وہ اکیلے مزاحمت کی علامت اور استکبار کے خلاف آواز نیز ایک انفرادی موضوع بن گئے وہ بھی ایسے وقت میں جب دنیا خاموش تھی اور افغانستان پر قبضے کے امریکی اقدام کے سامنے سر تسلیم خم کر رہی تھی۔ ان کے افکار اور نعروں کے ظہور نے اس وقت اور حالات میں اپنی قوم کی آواز کا اظہار کیا اور اس کے خلاف ہونے والے مضبوط حملے کا مقابلہ کیا نیز یمنی قوم کے داخلی میدان کو امریکہ کے وسیع اثر و رسوخ (فکری، ثقافتی، سیاسی، فوجی، سکیورٹی اور اقتصادی) کے خلاف مضبوط کیا،اس سوچ اور رائے کا سب سے اہم پہلو امریکی تحریکوں کے خلاف عوامی تحریک کا اعلان اور قومی شعور اور بیداری کی سطح کو بلند کرنے کے ساتھ ساتھ ہتھیار ڈالنے والی حکومت کے خلاف بغاوت کا اعلان تھا۔
سازشوں کا بھانپ لینا،مزاحمتی لیڈوروں کی خصوصیت
حسین بدر الدین الحوثی استکبار مخالف اپنے موقف کی وجہ سے سب سے زیادہ مشہور تھے کیونکہ انھوں نے کئی دہائیاں قبل یمنیوں کو اس ملک میں امریکہ کے عزائم کے بارے میں خبردار کیا تھا،یمنی قوم کے خلاف سعودی عرب کی آٹھ سالہ جنگ میں یہ انتباہ درست ثابت ہوا، جہاں واشنگٹن نے واضح طور پر اس جنگ میں شرکت کرنے کا اعلان کر دیا،حسین بدر الدین الحوثی نے یمن میں امریکی منصوبوں کو بہت بہت پہلے دیکھا،خاص طور پر عدن میں امریکی تباہ کن کول کے واقعے کے بارے میں انہوں نے 2000 میں خبردار کیا تھا،جو باب المندب کے بین الاقوامی جہاز رانی اور علاقائی پانیوں میں ہونے کے بعد یمن کے معاملات میں امریکی مداخلت کا بہانہ بن گیا۔
دہشت: امریکیوں کی تکراری سیاست
19 جون 2004 کو یمن کے سابق صدر علی عبداللہ صالح نے صعدہ کے خلاف پہلی جنگ شروع کی۔ جہاں سید حسین بدرالدین الحوثی کو جنگی طیاروں، ٹینکوں، توپوں اور درجنوں فوجی بریگیڈوں نے نشانہ بنایا،صنعاء میں قومی سلامتی کی سابقہ عمارت میں یمن کی وزارت سلامتی اور انٹیلی جنس کو حاصل ہونے والی خفیہ دستاویزات کے مطابق 21 ستمبر 2014 کے انقلاب کے بعد یمن میں خانہ جنگی کی تیاریوں کے لیے واشنگٹن میں سابق امریکی صدر جارج بش اور ان کے کتھ پتلی یمنی ہم منصب صالح کے درمیان میٹنگ ہوئی ، اس سفر میں جسے میڈیا اور سیاسی حلقوں کی جانب سے کافی توجہ حاصل ہوئی، بش کے علاوہ صالح کے ساتھ امریکی نائب صدر ڈک چینی، وزیر خارجہ کولن پاول، وزیر دفاع ڈونلڈ رمزفیلڈ ، سی آئی اے اور ایف بی آئی کے دیگر حکام بھی تھے،حاصل شدہ سیکورٹی دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ اسی دن امریکہ کی سنٹرل فورسز کے کمانڈر جان ابو زید نے علی عبداللہ صالح کا شکریہ ادا کیا کہ وہ سید حسین الحوثی کو ان کی مدد سے راستے سے ہٹانے میں کامیاب ہوئے اور مبارکباد دیتے ہوئے ان کا شکریہ ادا کیا نیز اسے ان کی کامیابی قرار دیا
ایک مجاہد جس کی آواز ہمیشہ کے لیے باقی رہ گئی
وہ مجاہد رہنما جس کی آواز آج بھی ہمارے کانوں میں گونج رہی ہے:آواز اٹھاؤ تاکہ تم سب سے پہلے اس آواز کو اٹھا سکو، یقیناً اور ان شاء اللہ – نہ صرف اس جگہ بلکہ دوسری جگہوں پر بھی یہ آواز آئے گیاور آپ کو کوئی ایسا شخص ملے گا جو انشاء اللہ دنیا کے دوسرے حصوں میں بھی آپ کے ساتھ ہوگا۔