سچ خبریں:گزشتہ دو دہائیوں کے مختلف ادوار میں اپنے شمالی پڑوسی کی جانب سعودی خارجہ پالیسی کے عمل میں مختلف اور بعض اوقات متضاد آلات کا استعمال دیکھنے میں آیا ہے۔
حالیہ برسوں میں تخت کے قریب آنے کے بعد، سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے خود کو ایک اصلاح پسند کے طور پر پیش کرنے کی سرتوڑ کوشش کی ہے، یہ بہانہ کیا ہے کہ سعودی عرب کی روایتی روشیں ختم ہو چکی ہیں اور اب وہ اس ملک کے عوام کو ایک اصلاح پسند کے طور پر پیش کریں گے، آج کے بعد انہیں آزادی بیان اور آزادی عمل دونوں مسیر ہوں گی، وہ بڑے منصوبوں میں جدید یورپی زندگی کی مثالیں پیش کر کے اپنے آپ کو ایک نو لبرل کے طور پر متعارف کرانے کی کوشش کر ہے لیکن اس حقیقت سے قطع نظر کہ آمرانہ طرز عمل ان کی روح کے ساتھ ملا ہوا ہے، ایک ایسا طرز عمل جو گزشتہ برسوں کے دوران ہر جگہ دیکھنے کو ملا ہے جیسے کی سزاؤں میں اضافہ ، سیاسی مخالفین کی پھانسی، مذہبی اور دینی اقلیتوں کی آزادیوں کی وسیع پیمانے پر خلاف ورزی، غیر ملکی تارکین وطن، خواتین کے حقوق کی پامالی، اور بدعنوانی کا عام ہونا دیکھنے کو مل رہا ہے۔
دوسری جانب ریاض کے حکام نے اپنی خارجہ پالیسی کی بنیاد سعودی عرب میں اپنی غیر جمہوری حکمرانی کی بقا کے لیے مغربی طاقتوں کی حمایت حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ وہابی اور تکفیری نظریات کو فروغ دینے کی بھرپور کوششوں پر رکھی ہے، اس نقطہ نظر کی بنیاد پر سعودی حکام دیگر علاقائی اور بین الاقوامی حکومتوں کے اندرونی معاملات میں وسیع پیمانے پر مداخلت کرتے ہیں یہاں تک کہ یمن سمیت بعض ملکوں میں جنگ بھی چھیڑ رکھی ہے،اس تجزیے میں ہم سعودی حکومت کی متضاد پالیسیوں کی جہتیں اور سعودی حکمرانوں کے طرز عمل میں انسانی اصولوں کی وسیع پیمانے پر پامالی کی تفصیلات کا جائزہ لیں گے۔
عراق میں مداخلت کی حکمت عملی تبدیل
2015 سے سعودی عرب نے عراق کے ساتھ تعلقات منقطع کرنے پر مبنی اپنی 25 سالہ حکمت عملی کو تبدیل کرتے ہوئے عراقی حکام کو زیر کرنے اور انہیں ایران سے الگ کرنے کے لیے اپنی رقم اور تیل کے ڈالر استعمال کرنے کی کوشش کی۔ ثامر السبھان ریاض کا ماسٹر تھا جسے اس مشن کو انجام دینے کے لیے بغداد میں اس ملک کا سفیر منتخب کیا گیا لیکن وہ اس میں نہ صرف ناکام نہیں رہا بلکہ عراق کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنے والے بیانات ،بغاوت بھڑکانے اور عراقیوں کے قومی اتحاد پر حملہ کرنے کی کوشش کے الزام میں ناپسندیدہ عنصر قرار دیا گیا۔
اس سلسلے میں لبنانی اخبار الاخبار نے گزشتہ برسوں میں دستاویزات شائع کرکے انکشاف کیا کہ عراق میں سعودی عرب کے سفیر ثامر السبہان نے یہ ذمہ داری سنبھالنے کے بعد سے عراق سے اپنی بے دخلی تک اس سلسلہ میں وسیع سرگرمیاں انجام دیں، مذکورہ دستاویز میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ سعودی عرب عراق میں ریاض کے حامی شیعہ دینی علما ایجاد کرنے کی کوشش کر رہا ہے ، اس کے علاوہ وہ عراق میں الصدر تحریک اور دیگر سرگرم گروہوں کے درمیان فوجی تنازعات پیدا کرنے اور داخلی سلامتی سے کھیلنے کی کوشش کر رہا ہے،اس کے کارندے السبہان نے ہمیشہ شیعہ جماعتوں بشمول الحشد الشعبی کے خلاف معاندانہ بیانات دیئے جنہیں عراقی حکام اپنے اندرونی معاملات میں مداخلت تصور کر رہے تھے، یہ بحران اس وقت اپنے عروج پر پہنچا جب السبہان نے دعویٰ کیا کہ شیعہ ملیشیا ایران کی مدد سے انہیں قتل کرنے کی کوشش کر رہی ہےلیکن بغداد نے ان الزامات کی تردید کی،آخر کار بار بار طلبی کے بعد، عراقی وزارت خارجہ نے سرکاری طور پر السبھان کو ناپسندیدہ عنصر قرار دے کر بغداد سے نکال دیا اور ریاض سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی سیاست بدلے۔
تیل کے ڈالر، بغداد میں تسلط کا ایک آلہ
اس کے باوجود سعودی حکام نے اپنی پالیسیوں سے پیچھے نہیں ہٹے اور تیل سے حاصل ہونے والے ڈالروں کے ذریعے عراق میں اپنے کردار کو مستحکم کرنے کی کوشش کی،اس سلسلے میں آل سعود نے گذشتہ برسوں میں عراق کے مختلف شہروں میں متعدد قونصل خانے کھولے ہیں جن میں نجف، بصرہ اور بغداد کے قونصل خانے شامل ہیں،بصرہ میں سرمایہ کاری اور اس شہر میں پیٹرو کیمیکل منصوبوں پر عمل درآمد، زیر زمین پانی کے ذریعہ غیر کاشت شدہ زمینوں کو آباد کرنا اور زرعی زمینیں بنانا اور بحیرہ احمر تک عراقی تیل کی پائپ لائن کا آغاز، اس ملک میں کھیلوں کے شہر کی تعمیر عراق میں سعودی عرب کی اقتصادی اور شہری سرگرمیوں میں شامل ہیں۔
عراق کو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کا سعودی منصوبہ
الاخبار اخبار میں شائع ہونے والی دستاویزات میں کئی تجاویز پیش کی گئی ہیں جن سے بظاہر عراق میں اپنے تیل کے ڈالر خرچ کرنے کے سعودی عرب کے اہم اہداف کو اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے:
1: عراقی شیعہ قومی اتحاد کو توڑنے کا منصوبہ؛ سعودیوں کا خیال ہے کہ شیعہ اتحاد کے تسلسل کو روکنے کے لیے اقدامات کرنا چاہیے جن میں سب سے پہلے ان کے درمیان اختلاف کا بیج بونا ہے۔
2: شیعہ ملیشیا کے رہنماؤں کا تعاقب کرنے کا منصوبہ؛ اس سعودی دستاویز کے مقاصد ان لوگوں کو گھیرنا اور ان کے خلاف قانونی کارروائی کرنا ہے جو سعودی نقطہ نظر سے عراق اور دوسرے ممالک کے خلاف دہشت گردانہ کاروائیوں میں ملوث ہیں،اس سعودی دستاویز میں ابومہدی المہندس، ابراہیم جعفری، حیدر العبادی اور دیگر سیاسی رہنما اور عراق کے اندر اور باہر عوامی فوجی گروپوں کے کمانڈر شامل ہیں۔
3: عراقی سکیورٹی اور فوجی کمانڈروں کو روکنے کا منصوبہ۔
4: عراق میں شیعہ جعلی علما بنانے کا منصوبہ؛ سعودی عرب متعدد عناصر اور شیعوں کی مذہبی شخصیات کے ساتھ سیاسی سمجھوتے کا خواہاں ہے۔ 5: سعودی عرب کے دوستوں کی طرف سے عیسائی اور ایزدی گروہوں کو الحشد الشعبی سے باہر نکالنے کا منصوبہ،یہ منصوبہ مختلف گروہوں کو نشانہ بناتا ہے۔
6: عراق میں منصوبہ بند انسانی امداد ؛ شاہ سلمان حکومت نے عراق میں سعودی سفارت خانے کو فوری انسانی امداد پہنچانے کا منصوبہ بنایا جس کی بہت زیادہ تشہیر ہونا چاہیے تاکہ عراق عوام کی نظر میں سعودی سفارتخانہ کا مقابل بلند ہو سکے، عراقی مہاجرین بالخصوص سنی مہاجرین پر سعودی عرب کی توجہ اور دو سعودی فیلڈ کلینک کا قیام ان اقدامات میں شامل ہے۔