سچ خبریں:سعودی خواتین پر سے پابندیاں ہٹانے کے سلسلے میں سعودی عرب کے حالیہ حکمرانوں کی سرگرمیاں صرف ایک پروپیگنڈہ تھیں جو اس ملک میں خواتین کے بنیادی مسائل کو حل نہیں کر سکیں۔
حالیہ برسوں میں تخت کے قریب آنے کے بعد، سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے خود کو ایک اصلاح پسند کے طور پر پیش کرنے کی سرتوڑ کوشش کی ہے، یہ بہانہ کیا ہے کہ سعودی عرب کی روایتی روشیں ختم ہو چکی ہیں اور اب وہ اس ملک کے عوام کو ایک اصلاح پسند کے طور پر پیش کریں گے، آج کے بعد انہیں آزادی بیان اور آزادی عمل دونوں مسیر ہوں گی، وہ بڑے منصوبوں میں جدید یورپی زندگی کی مثالیں پیش کر کے اپنے آپ کو ایک نو لبرل کے طور پر متعارف کرانے کی کوشش کر ہے لیکن اس حقیقت سے قطع نظر کہ آمرانہ طرز عمل ان کی روح کے ساتھ ملا ہوا ہے، ایک ایسا طرز عمل جو گزشتہ برسوں کے دوران ہر جگہ دیکھنے کو ملا ہے جیسے کی سزاؤں میں اضافہ ، سیاسی مخالفین کی پھانسی، مذہبی اور دینی اقلیتوں کی آزادیوں کی وسیع پیمانے پر خلاف ورزی، غیر ملکی تارکین وطن، خواتین کے حقوق کی پامالی، اور بدعنوانی کا عام ہونا دیکھنے کو مل رہا ہے۔
دوسری جانب ریاض کے حکام نے اپنی خارجہ پالیسی کی بنیاد سعودی عرب میں اپنی غیر جمہوری حکمرانی کی بقا کے لیے مغربی طاقتوں کی حمایت حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ وہابی اور تکفیری نظریات کو فروغ دینے کی بھرپور کوششوں پر رکھی ہے، اس نقطہ نظر کی بنیاد پر سعودی حکام دیگر علاقائی اور بین الاقوامی حکومتوں کے اندرونی معاملات میں وسیع پیمانے پر مداخلت کرتے ہیں یہاں تک کہ یمن سمیت بعض ملکوں میں جنگ بھی چھیڑ رکھی ہے،اس تجزیے میں ہم سعودی حکومت کی متضاد پالیسیوں کی جہتیں اور سعودی حکمرانوں کے طرز عمل میں انسانی اصولوں کی وسیع پیمانے پر پامالی کی تفصیلات کا جائزہ لیں گے۔
سعودی عرب اور خواتین کے حقوق کی خلاف ورزی
محمد بن سلمان کی اپنی ساکھ کو بہتر بنانے کے لیے خواتین کی آزادی کے لیے کیے گئے اقدامات کے باوجود سعودی عرب خواتین کے حقوق کی وسیع پیمانے پر خلاف ورزیوں کا شکار ہے،یہاں خواتین کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنا صرف تشہیری سرگرمیوں تک محدود ہے، دنیا کے ممالک میں سعودی عرب کا خواتین پر پابندیاں عائد کرنے میں پہلا نمبر ہے ، اس لیے ورلڈ اکنامک فورم کی رپورٹ کے مطابق معیشت کے مواقع اور شرکت، تعلیم، صحت اور بقا کا حصول اور سیاسی بااختیاریت ،چار اشاریوں کی بنیاد پر2006 کے مقابلے میں 2021 میں مذکورہ جہتوں کے حوالے سے اس ملک کی مجموعی درجہ بندی میں تیزی سے کمی آئی ہے، جو شاہ سلمان کےے دور میں اس ملک کی تعلیمی، معاشی، صحت اور سیاسی حقوق کے میدان میں رجعت کی نشاندہی کرتی ہے، اس سلسلے میں خواتین کے حقوق کے بارے میں انسانی حقوق کی کمیونٹیز کے تحفظات بالخصوص تعلیم و تربیت کے حصول، یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے، کم سے کم تنخواہوں جیسے ڈرائیونگ اور بعض ملازمتوں میں شدید صنفی امتیاز وغیرہ کے حوالے سے تحفظات برقرار ہیں۔ سعودی عرب میں اب بھی مردوں کی طرف سے خواتین کی مختلف ڈگریوں تک قانونی سرپرستی رائج ہے ، اس میں خواتین کی زندگی کے اہم پہلو شامل ہیں،عورتوں پر مردوں کی سرپرستی خواتین کی اپنی سرگرمیوں اور قانونی کارروائیوں کو انجام دینے کی آزادی اور خودمختاری کو سختی سے محدود کرتی ہے جسے شادی، طلاق، بچوں کی تحویل، اور ملکیت پر کنٹرول، خاندانی مسائل کے بارے میں فیصلہ سازی، تعلیم اور روزگار یہاں تک کہ جیل سے آزادی جیسے مسائل میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے، سعودی معاشرے میں خواتین کے خلاف تشدد کو مختلف طریقوں سے دیکھا جا سکتا ہے، خاندان میں تشدد، عوامی مقامات پر تشدد، خواتین تارکین وطن کارکنوں پر تشدد وغیرہ۔ سعودی عرب میں گھریلو تشدد کی مقدار کا اندازہ لگانا ان کیسز کی رپورٹنگ میں محدودیت اور ڈیٹا کی کمی کی وجہ سے مشکل ہے اور اس میں صرف وہ کیسز شامل ہیں جن کی شکایات انسانی حقوق کے اداروں کو موصول ہوئی ہیں، جسمانی تشدد، تشدد کی کارروائیاں، جنسی طور پر ہراساں کرنا ، توہین اور بہتان تراشی ان تشدد کی کچھ جہتیں ہیں، ان میں سے 60 فیصد تشدد شوہر اور پھر رشتہ داروں کی طرف سے ہوتا ہے۔
ہیومن رائٹس کمیشن اور نیشنل ایسوسی ایشن فار ہیومن رائٹس کو موصول ہونے والی شکایات کے مطابق مختلف شعبوں میں مردوں کی جانب سے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا جاتا ہے جن میں انہیں پڑھنے کی اجازت نہ دینا، ان کے حقوق ادا نہ کرنا، مرد کی طرف سے بیوی اور بچوں کو چھوڑ دینا ، سفر کرنے سے روکنے کے لیے اس کے سرکاری دستاویزات جیسے شناختی کارڈ وغیر ضبط کرنا ،ماؤں کو اپنے بچوں سے ملنے نہ دینا، پیسے کے لیے یا قبائلی مفادات کی بنیاد پر نوجوان لڑکیوں سے شادی کرنا سعودی عرب میں خواتین کے خلاف تشدد کے دیگر اقدامات میں سے ایک ہے، قابل ذکر ہے کہ اس ملک کے عوامی حلقوں میں عصمت دری سے متعلق معاملات پر کم بحث کی جاتی ہے، کیونکہ اگر متاثرین اپنے خلاف زیادتی کا انکشاف کرتے ہیں تو وہ معاشرے کے ارکان کے منفی فیصلے اور ان کے رشتہ داروں کی طرف سے تشدد کے سامنے آنے سے خوفزدہ ہوتے ہیں ، اس وجہ سے اس ملک میں عصمت دری کے واقعات کے بارے میں معلومات موجود نہیں ہیں،سعودی عرب میں زیادہ تر غیر ملکی خواتین ملازمہ اور کچھ نرسوں کے طور پر کام کرتی ہیں،ان میں سے کچھ افراد کو جبری مشقت اور جنسی استحصال کے مقصد سے سعودی عرب اسمگل کیا جاتا ہے، اسی وجہ سے سعودی عرب میں داخل ہوتے ہی ان کے پاسپورٹ اور رہائشی اجازت نامے لے لیے جاتے ہیں اور ان پر غلامی جیسی شرائط عائد کر دی جاتی ہیں۔
واضح رہے کہ شاہ سلمان کے دور میں عام طور پر سعودی خواتین کے ساتھ سماجی، اقتصادی اور ثقافتی حقوق تین سطحوں پر امتیازی سلوک کیا جاتا ہے جس میں عدالتی اداروں تک مساوی رسائی، سیاسی حقوق اور شہری آزادیوں کا فقدان مردوں کے مقابلے خواتین کی کم سے کم سیاسی آزادی، وہابی تشریحات کی بنا پر مردوں کی سرپرستی کے نظام کی شکل میں ان کے حقوق کی پائمالی اور سیاسی پارٹیاں یا خواتین کی انجمنیں بنانے کی ممانعت شامل ہے۔
ورلڈ اکنامک فورم کی 2021 کی رپورٹ کے مطابق سعودی عہدیداروں میں 6.8% خواتین ہیں اور ایک خاتوں کی اوسط آمدنی مرد کی آمدنی کا صرف 24% ہے،اس کے علاوہ خواتین کے حقوق کے شعبے میں کچھ اصلاحات کے باوجود حالیہ برسوں میں، سعودی خواتین کو صحت کی مخصوص دیکھ بھال حاصل کرنے جیسی چیزوں کے لیے ابھی بھی مرد سرپرست کی منظوری حاصل کرنا پڑتی ہے، خواتین کو اب بھی شادی، خاندان اور طلاق کے حوالے سے امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔ 2020 میں محمد بن سلمان کی پالیسیوں کے خلاف بولنے والی لجین الھذلول، مایا الزہرانی، ثمر بدوی، نوف عبدالعزیز اور نسیمہ السادہ جیسی ممتاز خواتین کے خلاف عدالتی کاروائیاں سعودی خواتین کے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے دیگر امور ہیں۔
سعودی عرب میں خواتین قیدیوں کی حالت زار
انسانی حقوق کی تنظیمیں اور سعودی عرب کی صورتحال پر نگرانی کرنے والے ادارے بھی خواتین قیدیوں کی صورتحال پر خصوصی تشویش کا اظہار کرتے ہیں،اس تناظر میں؛ کچھ عرصہ قبل ایلاف نیوز سائٹ نے الصفا جیل میں خواتین کے خلاف خوفناک تشدد کی خبر دی تھی، اس رپورٹ کے مطابق 7 خواتین نے اپنے ساتھ ہونے والے پرتشدد رویے اور ان کے خلاف عدالتی کاروائیوں میں بے پناہ تاخیر کے خلاف بھوک ہڑتال کی،اس کے علاوہ یورپی پارلیمنٹ سے وابستہ انسانی حقوق کی تنظیم القسط نے گزشتہ سال ایک بیان میں اعلان کیا کہ شدید بین الاقوامی دباؤ کے بعد سعودی جیلوں سے رہا ہونے والی خواتین کارکنان کو اب بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور سفری پابندیوں جیسی سخت سزاؤں کا سامنا ہے، یورپی پارلیمنٹ نے ایک بار پھر سعودی حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ انسانی حقوق کی سرگرمیوں کی وجہ سے گرفتار تمام خواتین کو فوری اور غیر مشروط طور پر رہا کریں۔
واضح رہے کہ محمد بن سلمان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے سعودی عرب میں 100 سے زائد خواتین کو ان کی اصلاحی سرگرمیوں اور انسانی حقوق یا اپنی رائے کا اظہار کرنے کے جرم میں تشدد کا شکار بنایا اور گرفتار کیا گیا ہے جن میں سے 60 کے قریب خواتین اب بھی من مانی طور پر نظر بند ہیں جب کہ رہا ہونے والے زیادہ تر خواتین پر سفری پابندیاں ہیں، ہیومن رائٹس واچ نے پہلے بھی خبردار کیا تھا کہ رہائی پانے والی خواتین قیدیوں کو دوبارہ من مانی حراست یا ہراساں کیا جاتا ہےے اور ان کی رائے کے اظہار پر پابندیاں عائد کی جاتی ہیں۔
جاری ہے۔۔۔