سچ خبریں:امریکہ اور جرمنی کی جانب سے یوکرین کو بھاری جنگی ساز و سامان بھیجنے کے معاہدے کی خبروں نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ کیا جنگ کے بیچ میں کیف کی مدد کرنا مغرب کے لیے ایک خطرناک طریقہ کار ہے؟
ریڈیو فرانس نے ایک مختصر رپورٹ میں اس سوال کے مثبت جواب کی وجہ بتانے کی کوشش کرتے ہوئے لکھا کہ جرمن لیپرڈ 2 اور امریکن ابرامز ٹینک یوکرین کو فراہم کرنے کا فیصلہ صرف تنازع کو طول دے سکتا ہے اور ماسکو کو یہ سوچنے پر مجبور کر سکتا ہے کہ یورپی امریکی تنازعہ میں داخل چکے ہیں اور روسیوں کے خلاف یوکرینیوں کا ساتھ دے رہے ہیں جس کے نتیجہ میں یورپ، مغرب اور روس کے درمیان براہ راست تنازع کے امکانات بڑھ سکتے ہیں۔
درحقیقت، ہتھیاروں کی ترسیل کی نوعیت میں یہ تیزی اور تبدیلی مغرب میں اس بنیادی سوال کے بارے میں ایک بحث کو زندہ کر رہی ہے کہ روسی جارحیت کے خلاف اپنے دفاع کے لیے یوکرین کی کس حد تک مدد کی جانی چاہیے؟ یہ سب کچھ یاد کرتے ہوئے کہ یہ دراصل روس ہے جس نے بین الاقوامی قوانین کے تمام اصولوں کے خلاف ایک ایسے ملک پر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس نے اس کے خلاف کچھ نہیں کیا۔
یوکرین کے لیے مغربی امداد کے بارے میں دو مختلف نظریات کی وضاحت کرتے ہوئے، اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ منصوبہ بندی کے لحاظ سے، دو کیمپ ایسے ہیں جو اپنے اسٹریٹجک راستے میں ٹکرا رہے ہیں؛ بعض کا خیال ہے کہ روانہ ہونے سے پہلے منزل کے بارے میں سوچنا چاہیے،ان لوگوں کا کہنا ہے کہ مغرب آہستہ آہستہ یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کی خواہشات کے مطابق خود کو ماسکو کے ساتھ کھلے تنازع میں کھینچ رہا ہے،اس گروپ کا خیال ہے کہ یوکرین کی جنگ ہماری جنگ نہیں ہے،کیف کی مدد کی جانی چاہیے لیکن معقول طریقے سے، ان کے مطابق روسی سرزمین پر مداخلت کرنے کے قابل بڑھتے ہوئے جارحانہ ہتھیاروں کی فراہمی ماسکو کے ساتھ اس براہ راست تصادم کا باعث بن سکتی ہے، اس سے بہتر ہے کہ روسیوں کے ساتھ مواصلاتی چینل کو برقرار رکھنے کے لیے کچھ کیا جائے تاکہ مقررہ وقت پر یوکرین اور روس کے درمیان تنازع کے خاتمے کے لیے مذاکراتی میدان اور سیاسی حل تلاش کیا جا سکے۔
دوسری طرف یوکرین کے لیے مسلسل اور زیادہ سے زیادہ امداد کے حامی ہیں، اس گروپ کے نقطہ نظر سے جو کچھ ہو رہا ہے وہ یوکرین کے خلاف روس کی جنگ سے بڑھ کر ہے بلکہ حد سے زیادہ قوم پرست روس اور لبرل ڈیموکریٹس کی دنیا کے درمیان تہذیبی جنگ ہے، اس مکتبہ فکر کا خیال ہے کہ کریملن کے رہنما نے گزشتہ 24 فروری کو صرف یوکرین پر حملہ نہیں کیا بلکہ مغرب کے خلاف اعلان جنگ بھی کیا، اس لیے وہ یوکرین میں فتح سے دستبردار نہیں ہو سکتے اور نہ ہی ہارنا چاہیے کیونکہ اس جنگ کے بعد ماسکو سے پوری جمہوری دنیا کو خطرہ ہو گا،اس تھنک ٹینک کا خیال ہے کہ مغرب کو مشترکہ جنگ میں براہ راست داخل ہوئے بغیر، یعنی یوکرین کی سرزمین پر مغربی فوجیں بھیجے بغیر، وہ تمام ہتھیار فراہم کرنے چاہئے جو اس ملک کو مزاحمت کرنے یا اپنے کھوئے ہوئے علاقوں پر دوبارہ قبضہ کرنے کا موقع فراہم کریں،مختصر یہ کہ پوٹن کے سامراجی پاگل پن کو روکنے کے لیے جو ہوسکے کیا جانا چاہیے،اس گروپ کا خیال ہے کہ آپ کو جنگ میں داخل ہونے والی سرخ لکیروں سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ یہ لکیریں اب موجود نہیں ہیں، اس خیال کے حامیوں کا کہنا ہے کہ مغرب کو آخر تک جانا چاہیے اور یہ ظاہر کرنا چاہیے کہ وہ یوکرین کی مزاحمت میں مدد کرنے میں سنجیدہ ہے۔
آخر میں ریڈیو فرانس نے نتیجہ اخذ کیا کہ ان دو نظریات میں سےشاید صرف روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن ہی جانتے ہیں کہ کون سا نقطہ نظر درست ہے،روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے شمالی بحر اوقیانوس کے معاہدے (نیٹو) کی توسیع سے ماسکو کے سلامتی کے خدشات کے بارے میں مغرب کی عدم توجہی پر بار بار تنقید کرنے کے بعد جمعرات 24 فروری 2022ء کو ایک فوجی آپریشن شروع کیا جسے انہوں نے خصوصی آپریشن کا نام دیا جبکہ مغربی فریق نے اسے فوجی حملہ قرار دیا اور اس طرح ماسکو اور کیف کے کشیدہ تعلقات فوجی تصادم میں بدل گئے۔
واضح رہے کہ یوکرین میں جنگ، اپنے تمام دور رس نتائج کے ساتھ ایک سال کے قریب پہنچ رہی ہے جب کہ یورپ کے ہتھیاروں کے ذخیرے کے بارے میں شدید تحفظات ہیں، جس کے مواد یوکرین تک پہنچ چکے ہیں نیز یوکرین کو بھاری ساز و سامان کی فراہمی کے وعدے کی حالیہ خبروں نے جنگ کے طول دینے اور تنازع کے خاتمے کے دور دراز اور مبہم امکانات کے بارے میں بھی خدشات کو جنم دیا ہے۔