سچ خبریں:اپنے تخت کو محفوظ رکھنے کے لیے، سعودی رہنما صیہونی حکومت کے سافٹ ویئر سمیت جدید ترین ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز کا استعمال کرتے ہوئے اپنے اہم جلاوطن مخالفین کی جاسوسی کرتے ہیں۔
امریکی جریدے فارن افیئرز نے ایک تحقیقی رپورٹ میں سعودی حکام کی جانب سے اپنے جلاوطن مخالفین کو نشانہ بنانے کے لیے ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے استعمال کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اور سافٹ ویئر کے ذریعے بیرون ملک سعودی حکومت کے ناقدین اور مخالفین کو نشانہ بنانا بہت سارے طریقوں میں سے صرف ایک طریقہ ہے جنہیں سعودی حکومت اپوزیشن سے نمٹنے کے لیے استعمال کرتی ہے۔
اس میگزین کے مطابق جاسوسی سافٹ ویئر استعمال کرنے کا سعودی عرب کا پروگرام وسیع ہے جس کے ذریعہ وہ حکومت مخالفین کو دونوں ہاتھوں سے دبوچ لیتا ہے ، فارن افیئرز کی تحقیقی رپورٹ جسے سعودی لیکس ویب سائٹ نے دوبارہ شائع کیا ہے، میں کہا گیا ہے کہ اس سعودی پروگرام کے مطابق 2018 میں انگلینڈ میں مقیم سعودی مخالف غانم المسیری کا فون اسرائیلی جاسوسی سافٹ ویئر پیگاسس کے ذریعے ہیک کیا گیا جس کے بعد اس سعودی مخالف کا لندن میں سعودی ایجنٹوں نے پیچھا کیا اور ان پر حملہ کیا۔
امریکی میگزین نے مزید لکھا کہ یہ بھی ممکن ہے کہ2018 میں سعودی حکومت نے ترکی کے شہر استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے میں حکومت کے ناقد امریکی سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے معاملے میں جاسوسی سافٹ ویئر استعمال کیا ہو اس لیے کہ کینیڈا کے مستقل رہائشی اور خاشقجی کے قریبی سعودی سماجی کارکن عمر عبدالعزیز کا موبائل فون اسی دوران پیگاسس جاسوس سافٹ ویئر کے ساتھ ہیک کیا گیا تھا، عبدالعزیز اور خاشقجی مواصلاتی پلیٹ فارم پر سعودی حکومت کے خلاف اپنی سرگرمیوں پر تبادلہ خیال کر رہے تھے جو ان کے خیال میں محفوظ تھا۔
خاشقجی کے قتل کے بعد متعلقہ حکام کی تحقیقات سے پتا چلا کہ خاشقجی کے قریبی کئی دوسرے لوگوں کے موبائل فونز کی بھی جاسوسی کی گئی جن میں ان کی مصری اہلیہ اور ترک منگیتر بھی شامل ہیں تاہم سعودی عرب کی حکومت نے ان انکشافات پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔
2021 میں پیگاسس سافٹ ویئر بنانے والی صہیونی کمپنی این ایس او کے نمائندے نے گارجین اخبار کو دیے جانے والے ایک انٹرویو میں دعویٰ کیا کہ جمال خاشقجی کے خوفناک قتل میں اس گروپ کی ٹیکنالوجیز کا کوئی کردار نہیں تھا، درحقیقت، اسپائی ویئر کے ذریعے بیرون ملک سعودی حکومت کے ناقدین کو نشانہ بنانا ان طریقوں میں سے صرف ایک طریقہ ہے جو سعودی حکومت اپنے مخالفین کو ختم کرنے کے لیے ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کا استعمال کرتی ہے۔
مثال کے طور پر سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے ایک سینئر مشیر نے مبینہ طور پر 2014 میں مخالفین کی جاسوسی کے عوض ٹوئٹر کے ایک ملازم کو 300000 ڈالر جبکہ 2014 اور 2015 میں دیگر تحائف بھی ادا کیے، امریکی وفاقی فرد جرم کے مطابق 2015 میں ٹویٹر چھوڑنے والے اس ملازم کو 2022 میں امریکی عدالت میں سزا سنائی گئی۔
قابل ذکر ہے کہ سعودی حکومت کے مخالفین کو جب اچانک ایسے جاسوسی ہتھکنڈوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ زبردست نفسیاتی دباؤ کا شکار ہوتے ہیں،جب ان کے موبائل فون ہیک ہوتے تھے تو ان کے دوست اور ساتھی بھی ان کے ساتھ رابطے کی وجہ سے خطرے میں پڑ جاتے تھے اور ان کی ہر حرکت پر نظر رکھی جاتی تھی، یہ حالت ان لوگوں کے لیے ایک صدمے کا باعث بنتی ہے، ایک سعودی خاتون سماجی کارکن نے وضاحت کی کہ ڈیجیٹل اسپیس میں لوگوں کو نشانہ بنانا نفسیاتی اور جذباتی جنگ کی ایک شکل ہے اور لوگوں میں نہ ختم ہونے والا خوف اور اضطراب پھیلانا ہے۔