سچ خبریں:چین کے صدر کے دورہ سعودی عرب کا معاشی اور سیاسی جہتوں سے تجزیہ کیا جا سکتا ہے؛ ایسا سفر جو توانائی کی معیشت کی ترجیح کے ساتھ امریکہ کو ایک ہی وقت میں بیجنگ اور ریاض کا پیغام تھا۔
ایک طویل عرصے تک میڈیا کی تشہیر کے بعد، چینی صدر شی جن پنگ بالآخر ریاض پہنچ گئے،اس سفر کے دوران انہوں نے عرب ممالک کے سربراہان اور خلیج فارس سے متصل عرب ممالک کے سربراہان کے ساتھ دو الگ الگ ملاقاتوں میں شرکت کی اور ساتھ ہی سعودی حکام ؛ شاہ سلمان اور ولی عہد محمد بن سلمان سے بھی ملاقات کی۔ اور مختلف شعبوں میں تبادلہ خیال کیا،اس دوران چین اور سعودی عرب کے درمیان 30 سے زائد جامع تزویراتی شراکت داری کے معاہدوں پر دستخط کرکے اقتصادی تعلقات کی توسیع پر توجہ مرکوز کرنے کے علاوہ فلسطین، شام، عراق، یمن، افغانستان اور یوکرین کی صورتحال کے تناظر میں دیگر معاملات پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا جس کا ذکر ان دونوں ممالک نے اپنے مشترکہ بیان میں بھی کیا۔
میعشت اور انرجی کی چاشنی کے ساتھ ایک سفر
اس سفر کے دوران چین اور سعودی عرب کے درمیان اقتصادی تعلقات کی اعلیٰ اہمیت چینی صدر کی ریاض روانگی سے پہلے واضح تھی اور ماہرین نے اس سفر کی ترجیح کو توانائی بالخصوص تیل قرار دیا، اس دورے کے دوران، سعودی عرب کے بادشاہ اور چین کے صدر نے دونوں ممالک کے درمیان جامع سٹریٹجک تعاون کے معاہدےپر دستخط کیے اور امید ظاہر کی کہ یہ دستاویز دو طرفہ تعلقات کو گہرا اور بہتر بنائے گی اور دونوں ممالک کے تعاون میں نئے افق پیدا کرے گی،اس لیے جیسا کہ توقع تھی دورے کے موقع پر سعودی اور چینی کمپنیوں نے تقریباً 30 بلین ڈالر مالیت کے 34 سرمایہ کاری کے معاہدوں پر دستخط کیے، یہ معاہدے صاف توانائی اور ہائیڈروجن کی پیداوار کے مختلف شعبوں، شمسی توانائی، انفارمیشن ٹیکنالوجی، نقل و حمل، طبی اور ہاؤسنگ صنعتوں اور تعمیراتی مواد کی فیکٹریوں سے متعلق تھے۔
واضح رہے کہ خلیج فارس چین کے لیے بہت قیمتی ہے جو اپنی توانائی کے تحفظ کو یقینی بنانا چاہتا ہے، چین دنیا کا سب سے بڑا توانائی کا صارف اور خام تیل کے سب سے بڑے درآمد کنندہ کے طور پر ریاض کا سب سے اہم تجارتی شراکت دار ہے، یہ ملک سعودی تیل کی برآمدات کا کم از کم ایک چوتھائی حصہ خریدتا ہے، گزشتہ سال سعودی عرب نے چین کو 50 بلین ڈالر کا تیل برآمد کیا تھا اور اسی وجہ سے ریاض بیجنگ کے لیے سب سے قیمتی تیل فراہم کرنے والے ممالک میں سے ایک ہے، اس کے علاوہ 2021 میں سعودی عرب اور چین کے درمیان تجارت کا حجم تقریباً 81 بلین ڈالر تھا اور 2022 کی چوتھی سہ ماہی میں یہ تقریباً 27.5 بلین ڈالر بتایا گیا۔ توانائی سے بڑھ کر سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان، اپنے 2030 کے اصلاحاتی منصوبے کے مطابق چین کے ساتھ شراکت داری کا جائزہ لیتے ہیں، اس موضوع پر اس سفر کے دوران بھی غور کیا گیا اور چینی صدر نے شاہ سلمان، بن سلمان اور دیگر سعودی عہدیداروں کے ساتھ سعودی عرب کے 2030 کے وژن اقتصادی جدید کاری کے منصوبے اور چین کے بیلٹ اینڈ روڈ عالمی بنیادی ڈھانچے کے اقدام پر تبادلہ خیال کیا۔
بیجنگ-ریاض کا بیک وقت وائٹ ہاؤس کو پیغام
مذکورہ دورہ کا امریکہ مخالف پہلو نیز سعودی عرب اور چین دونوں ممالک کے سربراہان کی طرف سے امریکہ کو پیغام اور عندیہ دیے جانے کا پہلو نہ تو پوشیدہ تھا اور نہ ہی ہے، یہ پیغام بائیڈن اور اس کی پالیسیوں کے علاوہ کسی اور کو نہیں دیا گیا ہے ، اس نقطہ نظر سے مبصرین اس سفر کو نہ صرف اقتصادی مفادات کے حوالے سے اہم سمجھتے ہیں بلکہ اسے سعودی عرب اور چین کا امریکہ کے لیے ایک واضح جیو پولیٹیکل پیغام بھی سمجھتے ہیں، اس لحاظ سے کہ دنیا میں ایک اور متبادل پارٹنر موجود ہے،اس سلسلے میں ’سائنس اینڈ پولیٹکس‘ فاؤنڈیشن سے تعلق رکھنے والی ’اینجلا سٹینزل‘ کا کہنا ہے کہ چین اور سعودی عرب کئی سالوں سے ایک دوسرے کے قریب آ رہے ہیں، اس نقطہ نظر سے چین یہ پیغام دیتا ہے کہ وہ سعودی عرب کے ساتھ اتحاد کر کے کسی نہ کسی طرح امریکی اثر و رسوخ کے دائرے میں داخل ہو گیا ہے،اس کے علاوہ چینی صدر کا سعودی عرب کا دورہ اس وقت ہوا جب ریاض اور واشنگٹن کے درمیان تعلقات توانائی کی سلامتی، علاقائی سلامتی اور انسانی حقوق جیسے مسائل کو لے کر کشیدہ ہیں۔
اس کے علاوہ حالیہ برسوں میں استنبول میں سعودی عرب کے ناقد صحافی جمال خاشقجی کے قتل نے امریکہ اور اس ملک کے تعلقات کو ٹھنڈا کر دیا ہے اور اب یوکرین کے بحران اور مغرب کی توانائی کی ضرورت کے بعد ان کے تعلقات کسی نہ کسی طرح تاریک ہو گئے ہیں ،امریکہ اور سعودی عرب کے تعلقات کو آخری دھچکا اس وقت لگا جب بائیڈن کے سعودی عرب کے متنازعہ دورے کے فوراً بعد اوپیک پلس کے وزراء ، اس تنظیم کے ممبران اور اتحادی روس جیسے اتحادی نے ملاقات کی ، انہوں نے اجلاس میں اس بات پر اتفاق کیا کہ تیل کی پیداوار میں 2 ملین بیرل یومیہ کمی کے پہلے سے منظور شدہ منصوبے کو عملی جامہ پہنایا جائے، اوپیک پلس کے اس فیصلے پر واشنگٹن نے ناراضگی کا اظہار کیا، اس نے اسے یوکرین کی جنگ میں روس کے ساتھ دینا قرار دیا ، MSNBC نیوز سائٹ نے ایک رپورٹ میں OPEC+ کے یومیہ 2 ملین بیرل تیل کی پیدوار میں کمی کے فیصلے اور اس پالیسی میں سعودی عرب کے کردار پر توجہ دی نیز بائیڈن کے ریاض کے سفر پر شدید تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ جو بائیڈن کے پاس اپنی قومی سلامتی کی ٹیم سے ناراض ہونے کی بہت سی وجوہات ہیں کیونکہ ان کے نظریے کے برعکس، انہوں نے سعودی عرب کے خلاف ایسی پالیسی اپنانے کے لیے 18 ماہ تک ان پر دباؤ ڈالا۔
ذرائع کے مطابق تیل کی پیداوار میں کمی خاص طور پر سعودی عرب کی قیادت میں ایک تباہ کن مسئلہ ہو گا کیونکہ یہ اقدام اوپیک پلس ممبران کے اعلان کردہ فیصلے سے زیادہ جارحانہ ہے، اس فیصلے سے نہ صرف امریکہ اور دنیا کی معیشت پر بہت زیادہ اثر پڑے گا بلکہ اس سے دوسرے علاقے بھی متاثر ہوں گے جو واشنگٹن کے لیے جغرافیائی طور پر اہم ہیں، اس کے علاوہ تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے روس کو یوکرین کے خلاف جنگ کے لیے فنڈز جمع کرنے میں مدد مل سکتی ہے اور وہ سب کچھ حاصل کر لے گا جو یوکرین کے خلاف جنگ کے لیے اسے ضرورت ہے جبکہ اس سے شاید یوکرین کی حمایت کرنے والے ممالک بالخصوص یورپی طاقتوں کا عزم کمزور ہو جائے گا ، ماہرین کا خیال ہے کہ سعودی عرب مغرب پر انحصار کیے بغیر نئی صنعتیں بنانے اور تیل میں تنوع لانے کے لیے براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کی تلاش میں مشرق بالخصوص چین اور دنیا کے دیگر حصوں کی طرف دیکھ رہا ہے، اس لیے سعودی عرب سمیت عرب ممالک امریکہ کو یہ پیغام دینے کا ارادہ رکھتے ہیں کہ وہ واشنگٹن کے بھروسے پر نہیں ہیں۔
ایران کے خلاف جھوٹے دعوے
اس سفر کے دوران جو چیز غیر متوقع لگ رہی تھی وہ چین اور سعودی عرب کے مشترکہ بیان سے متعلق تھی، اگرچہ یہ بیان آل سعود کے ایران مخالف نقطہ نظر سے مطابقت رکھتا تھا لیکن تہران اور بیجنگ کے اسٹریٹجک تعلقات کی وجہ سے یہ امید نہیں تھی کہ ایسا ہوگا، تاہم معاملہ یہ تھا کہ سعودی عرب اور چین نے دو طرفہ ملاقات کے بعد مشترکہ بیان جاری کیا، اس بیان کے ایک حصے میں ایران سے کہا گیا کہ وہ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے ساتھ تعاون کرے اور جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے پر عمل کرے،انہوں نے اپنے بیان کے ایک اور حصے میں ایران کی طرف سے اچھی ہمسائیگی کے اصولوں کے احترام اور ملکوں کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کی اہمیت پر زور دیا، ان کے مشترکہ بیان میں پابندیوں کے خاتمے کے لیے مذاکرات کی بحالی کے تناظر میں مغرب کی ناکامیوں کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
اگرچہ سعودی عرب ہمیشہ مختلف سطحوں پر مذاکرات کے آغاز اور تسلسل کے خلاف رہا ہے اور اس نے انہیں تعطل تک پہنچنے کی کوئی کوشش ترک نہیں کی ہے، لیکن چین کو 5+1 کے رکن کی حیثیت سے، امانو کی 17 مثبت رپورٹوں ، معاہدے سے امریکہ کا یکطرفہ انخلا، یورپیوں کے عزم کی کمی اور لامتناہی میکانزم سے غافل نہیں ہونا چاہیے، اس بیان میں انہوں نے دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں ایران کی مداخلت کا دعویٰ کیا جبکہ ایران ہمیشہ امن و سلامتی اور علاقائی بحرانوں کے حل کے لیے کوشاں ہے ، انہوں نے یمن کے خلاف آل سعود کے آٹھ سال کے جرائم کو بھی نظرانداز کیا، تاہم ریاض میں خلیج فارس تعاون کونسل کے سربراہان کے 43ویں اجلاس کے آغاز میں، بن سلمان نے یمن کے معاملے پر بھی گفتگو کی اور کہا کہ ہم یمن کے بحران اور اس کا سیاسی حل تلاش کرنے کی ضرورت کے بارے میں اپنے موقف کا اعادہ کرتے ہیں۔
یاد رہے کہ یمن پر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی جارحیت کے آغاز کے بعد سے خطے کا یہ غریب ملک دنیا میں انسانی حقوق کے بدترین بحرانوں کا شکار ہے، اس کے ساتھ ہی یمن کی جنگ آٹھویں سال میں داخل ہو چکی ہے اور اس غریب ملک پر سعودی اتحاد کے حملے جنگ بندی کے باوجود ہمیشہ دہرائے جاتے ہیں جس کے نتیجے میں سب سے زیادہ تباہ کن انسانی قتل عام ہوتا ہے،اگر یہ بحران 2030 تک جاری رہا تو اقوام متحدہ کے اندازے کے مطابق اس سے تقریباً 1 ملین 300 ہزار افراد متأثر ہوں گے، اس کے علاوہ یمن کو انسانی حقوق کے بنیادی چیلنجوں کا سامنا ہے، جن میں سعودی عرب کی طرف سے اقتصادی ناکہ بندی اور قحط کا پھیلنا، سعودی اتحاد کے جنگجوؤں کے ہاتھوں صحت کے مراکز کی تباہی اور وبائی امراض کا پھیلنا، اسکولوں اور تعلیمی مراکز کی تباہی اور طلباء کی تعلیم سے محرومی شامل ہیں۔
اس کے علاوہ میڈیا کارکنوں کی گرفتاری اور اتحادی افواج کی طرف سے ان پر تشدد، سیاسی کارکنوں کی من مانی گرفتاری اور ان کو زیر زمین جیلوں میں قید کرنا، سلفی گروہوں کی طرف سے بے گھر خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ بدسلوکی، جنگ میں ہونے والے مصائب کا ایک حصہ ہیں، سعودی عرب، جس کا ذکر ہمیشہ امریکہ کے اسٹریٹجک اتحادی کے طور پر کیا جاتا ہے، بائیڈن کے دور میں، خاص طور پر یوکرین کے بحران کے بعد کے ماحول میں کشیدہ تعلقات کا تجربہ کرتا ہے، بائیڈن کی سعودی عرب سے خالی ہاتھ واپسی اور اب امریکہ کے سب سے بڑے حریف کی ریاض کی جانب سے میزبانی اس تاریک صورتحال کو ظاہر کرتی ہے، اس سفر کے دوران، آل سعود نے چین کے ساتھ تقریباً 30 بلین ڈالر مالیت کی 34 تعاون کی دستاویزات پر دستخط کیے تاکہ یہ احساس پیدا کیا جائے کہ وہ اقتصادی اور سلامتی کے مفادات کو محفوظ بنانے کے لیے شراکت داری کو متنوع بنانا چاہتا ہے، دوسری طرف، اپنے دورہ ریاض کے ساتھ چین نے امریکہ کو یہ پیغام دیا کہ وہ سعودی عرب کے ذریعہ عرب اتحاد میں شامل ہو کر امریکہ کے اثر و رسوخ کے دائرے میں داخل ہو گیا ہے،البتہ یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ چین کی بڑھتی ہوئی طاقت جو امریکیوں کے لیے ہمیشہ سے تشویشناک رہی ہے، اس سفر کے ساتھ شدت اختیار کر گئی ہے۔