سچ خبریں:ایک سعودی کارکن نے ٹویٹس شائع کرکے محمد بن سلمان کی سعودی قبائل کو ختم کرنے کی کوشش کا انکشاف کیا۔
ایک سیاسی کارکن اور خلیج فارس کے امور کے محقق فہد الغفیلی نے محمد بن سلمان کی سعودی قبائل کے خلاف جنگ… اس کے ذرائع اور مقاصد کے عنوان سے ٹویٹس کا ایک سلسلہ شائع کیا، جس کے مطابق سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نےحکومت پر مزید کنٹرول کے لیے کئی قبائل کے خلاف غیر اعلانیہ جنگ شروع کر رکھی ہے، فہد الغفیلی نے اپنی ٹویٹ کا آغاز اس جملے سے کیا کہ عرب قبائل خلیج فارس کے عرب ممالک کی ریڑھ کی ہڈی ہیں،یہ قبائل صدیوں سے جزیرہ نما عرب میں ایک حفاظتی حصار رہے ہیں کیونکہ یہ اسلامی اخلاقیات اور عرب اقدار کے تحفظ کے پہلوؤں میں سے ایک ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ صدیوں کے دوران کسی بھی حکمران کو قبائل کو کمزور کرنے یا ان کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی جرات نہیں ہوئی۔ اکثر حکمرانوں نے اپنی حکومت کے استحکام کے لیے اپنی پوزیشن مضبوط کرنے اور شیخوں کی وفاداریاں حاصل کرنے کی کوشش کی ہے، ان ٹویٹس کے تسلسل میں کہا گیا ہے کہ محمد بن سلمان کی ولی عہدی کے آغاز اور سعودی معاشرے کے تشخص کو بدلنے کی کوششوں نیز گرفتاریوں کی سے یہ قبائل بھی محفوظ نہیں رہے۔
فہد الغفیلی نے لکھا کہ بن سلمان نے سعودی عرب کے بہت سے قبائل کے خلاف ایک غیر اعلانیہ جنگ شروع کی، جس میں سب سے اہم بڑے قبائل کو کمزور کرنا، ان کو بدنام کرنا، قبائلی شیخوں کو گرفتار کرنا، قبائل کے درمیان اختلاف پیدا کرنا، بدنام زمانہ قبائل کی حمایت کرنا اور بہت ساروں کو بے گھر کرنا ہے، اس سیاسی کارکن نے اس بات پر زور دیا کہ محمد بن سلمان نے قبائل کو منتشر کرنے اور انہیں کمزور کرنے کی مہم شروع کی، اس کے بعد اس نے قبائل کی اخلاقی اقدار کو مسخ کیا، ایسی اقدار جو ان قبائل کو نسلوں سے وراثت میں ملی تھی،معاشرے کے مغرب زدہ کرنے کے مقصد سے سعودی ولی عہد نے قبائل کی اخلاقی اقدار پر حملے اور ان کو مسخ کرنا شروع کر دیا۔
الغفیلی نے لکھا کہ محمد بن سلمان نے قبائلی شیوخ کو گرفتار کرنے کی پالیسی کو معاشرے میں ان کے کردار کو کمزور کرنے کا ایک ذریعہ سمجھا جیسا کہ انہوں نے ملک میں وسیع پیمانے پر غربت کے باجود منعقد ہونے والی تقریبات کی وجہ سے محکمہ تفریح پر تنقید کرنے پر "عتیبہ” قبیلے کے شیخ فیصل بن سلطان بن جهجاه بن حمید کو گرفتار کیا، اس سیاسی کارکن کے مطابق قبائل کے درمیان اختلاف پیدا کرنا سعودی ولی عہد کی حکمت عملیوں میں سے ایک ہے، قبائل کے درمیان اختلاف پیدا کرنے کے لیے جون 2017 کے وسط میں (قطر کی ناکہ بندی کے بعد) بن سلمان نے ایک بیان شائع کر کے ” آل مره ” قبیلے کے متعدد شیوخ کو قطر کے خلاف بولنے کے لیے طلب کیا اور اس طرح انہیں اپنے سیاسی مقاصد کے لیے ان کا استحصال کرنے کے کوشش کی تاہم یہ قبیلہ ان کی فتنہ پردازی کے سامنے تسلم نہیں ہوا اور ان کے جال میں نہیں پھنسا۔
انہوں نے مزید زور دیا کہ محمد بن سلمان نے بہت سے قبائل کے اقتدار اور اثر و رسوخ میں اضافے کو روکنے کے لیے انہیں ان کی آبائی سرزمین سے بے دخل کیا،جیسا کہ نیوم پروجیکٹ کے نفاذ کی وجہ سے ” الحویطات ” قبیلے کوبے دخل کر دیا ،حال ہی میں سعودی سکیورٹی ذرائع نے قبائلی رہنماؤں کی خفیہ بغاوت کا انکشاف کیا ہے جو سعودی عرب میں محمد بن سلمان کے جبر کو بے نقاب کرنے کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے، ان ذرائع نے تاکید کی کہ یہ اقدام سعودی قبائل کے قائدین کی جانب سے اس بات کا احساس ہونے کے بعد کیا گیا ہے کہ سعودی حکام پر عوامی دباؤ کے نتائج حاصل ہوئے ہیں، ان ذرائع کے مطابق سعودی قبائل کے رہنماوں نے سکیورٹی اداروں اور ہوائی اڈوں پر کام کرنے والے اپنے رشتہ داروں اور بچوں کو حکم دیا کہ وہ ایوانِ سعود کے ظلم و جبر کو بے نقاب کرنے کے لیے آزادی اظہار رائے کے قیدیوں کی سعودی عرب سے روانگی میں سہولت فراہم کریں۔
حال ہی میں سعودی حکومت اور اس ملک کے اہم قبائل کے درمیان اعتماد کے بحران میں اضافے کا جائزہ لینے والے ایک بین الاقوامی مطالعہ کے نتیجے سے ظاہر ہوا ہے کہ اس اعتماد کو کھونے سے ایک ہمہ گیر بغاوت ہو سکتی ہے جس سے سعودی عرب پر آل سعود کی حکمرانی کے خاتمے کا خطرہ ہو گا۔ اس کے علاوہ، بہت سے سعودی قبائل، جن میں المالکی، الدواسر ، اور الشمری شامل ہیں، خود کو پسماندہ محسوس کرتے ہیں کیونکہ حکومت ان کے ساتھ شہری جیسا سلوک نہیں کرتی ہے، اس مطالعاتی مرکز کی رپورٹ کے مطابق یہ قبائل آل سعود کو ملک کی دولت کی چوری اور لوٹ مار کرنے نیز 60% زمین اور تیل کی 30% بڑی آمدنی پر قبضہ کرنے کا الزامعائد کرتے ہی، 2005 سے سعودی قبائل سعودی عرب کے معاشرے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں، اس گروپ کے بہت سے اراکین ٹوئٹر اور فیس بک سمیت سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی رائے اور دلچسپی کا اظہار کرتے ہیں۔
یاد رہے کہ اپریل 2022 میں محمد بن سلمان نے امریکی میگزین دی اٹلانٹک کو بتایا کہ ان کے ملک میں شہریوں کی تعداد صرف 14 ملین ہے، دریں اثنا سرکاری اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اس کی آبادی تقریباً 34 ملین افراد پر مشتمل ہے، جس کا مطلب ہے؛ سعودی قبائل کی ایک بڑی تعداد معاشی اور سماجی طور پر پسماندہ ہے ، قابل ذکر ہے کہ شہزادے، تاجر، علماء کے ساتھ ساتھ قبائلی شیخ بھی سعودی ولی عہد کی آمرانہ پالیسیوں کا شکار ہیں جو اپنے لیے "بادشاہی کی کرسی” محفوظ کرنے کی کوشش کررہا ہے۔
واضح رہے کہ سعودی عرب کے قبائل مسمار کرنے والے بلڈوزروں ،ترقی کے بہانے اور بغیر لائسنس کے تعمیرات کو تباہ کرنے والی مشینوں سے محفوظ نہیں رہے، محمد بن سلمان نے گزشتہ دہائیوں میں سابقہ شہزادوں کے مقابلے میں قبائل کے شیوخ کو شاہی دربار میں کوئی مقام یا کوئی علامتی مقام نہیں دیا، آل سعود حکومت کا قبائل کو پسماندہ کرنے اور انہیں ان کے بنیادی حقوق سے محروم کرنے کا ایک سیاہ ٹریک ریکارڈ ہے جو آل سعود خاندان کے جرائم اور نسلی امتیاز نیزبین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کا واضح اظہار ہے۔