سچ خبریں:ایک ممتاز عرب تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ قطر میں ہونے والے ورلڈ کپ میں عرب اور مسلم ممالک کے شائقین کی جانب سے فلسطین کی حمایت اور صیہونیوں کی توہین کے رویے سے ظاہر ہوتا ہے کہ عرب حکومتوں اور غاصبوں کے درمیان کسی بھی طرح کے سمجھوتے کے معاہدوں کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسرائیل کے ساتھ عرب اقوام کے تعلقات کو معمول پر لایا جا رہا ہے۔
عرب اور مسلم ممالک کے شائقین کی جانب سے قطر میں ہونے والے ورلڈ کپ کے دوران صیہونی میڈیا کے مسلسل بائیکاٹ کے بعد صیہونی وزارت خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ اس نے ورلڈ کپ کے دوران صیہونی میڈیا عملے کے ساتھ ناروا سلوک کیے جانے پر قطر اور فٹ بال کی عالمی فیڈریشن (فیفا) کے خلاف شکایت درج کرائی ہے، اسرائیلی ٹیلی ویژن نے اس حوالے سے خبر دی کہ اسرائیلی سفارتی ٹیم جو عارضی طور پر قطر میں تعینات ہے اور اس ملک میں وزارت خارجہ کی جانب سے کام کرتی ہے، نے قطریوں کے نام ایک پیغام میں زور دیا ہے کہ یہاں جو کچھ ہوا ہے یا ہو رہا ہے اس کے ذمہ دار وہ ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل کو توقع ہے کہ اس کے شہریوں کو قطر میں رفت و آمد کی مکمل آزادی دی جائے گی اور قطر جانے والے اسرائیلیوں کو میچ دیکھنے کی اجازت دی جائے گی،اسی تناظر میں انٹر ریجنل اخبار رائے الیوم کے مدیر اور عرب دنیا کے معروف تجزیہ نگار عبدالباری عطوان نے اپنے نئے تجزیہ میں قطر ورلڈ کپ کے بڑے ایونٹ میں فلسطینیوں کے ساتھ عرب اور مسلم اقوام کی یکجہتی اور صیہونیوں کی ذلت کی طرف اشارہ کیا۔
انہوں نے لکھا کہ اسرائیلی وزارت خارجہ کی گستاخی اس وقت عروج پر پہنچ گئی جب اس نے قطر اور فیفا کے خلاف اپنے سفارتی وفد جو عارضی طور پر دوحہ میں مقیم ہے، کے ذریعے احتجاجی مراسلہ ارسال کیا جس میں عرب، مسلم اقوام اور دنیا کے آزاد عوام نے اسرائیلیوں اور اس حکومت کے میڈیا کے ساتھ جس طرح کا سلوک کیا ہے نیز قطر میں ان کی تذلیل کی، اس کی شکایت کی نیز صہیونی پریس کی مکمل آزادی کا مطالبہ کیا ہے۔
عطوان نے اپنے تجزیے میں لکھا ہے کہ اسرائیلیوں کا یہ طرز عمل ان کے تکبر اور خود پسندی کو بدترین انداز میں ظاہر کرتا ہے جبکہ صہیونیوں کو پہلے اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے تھا کیونکہ وہ ایک ایسے عرب ملک میں داخل ہوئے ہیں جس کی حکومت فیفا قوانین کے نفاذ میں اسرائیلیوں کے داخلے کی اجازت دینے پر مجبور ہوئی ہے، اس کے بعد صہیونیوں کو ایک بار پھر خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ عرب اور مسلم اقوام نے شائستگی کے ساتھ ان کو رد کیا اور انہیں تشدد آمیز کارروائیوں کا نشانہ نہیں بنایا، شائقین نے اپنے آپ کو صرف اسرائیلیوں کا بائیکاٹ کرنے، انہیں مسترد کرنے اور ان کی توہین کرنے اور فلسطینی پرچم لہرانے تک محدود رکھا۔
عطوان نے لکھا کہ صیہونی کس آزادی کی بات کر رہے ہیں ،وہ اپنے کیمرے لگانے اور سکیورٹی فراہم ہونے کے علاوہ اور کیا چاہتے تھے، کیا وہ اسرائیلی نہیں ہیں جنہوں نے اظہار رائے اور پریس کی آزادی کو پیروں تلے روندتے ہوئے صحافی مردوں اور عورتوں کو قتل کیا جن میں سے آخری شیرین ابو عاقلہ تھی؟ صہیونی صحافیوں کو کیا امید تھی؟ کیا وہ چاہتے تھے کہ عرب شائقین انہیں گلے لگائیں اور ان کی اور ان کی نسل پرست حکومت کی تعریف کریں جس کے افسروں، فوجیوں اور وزیروں کے ہاتھ فلسطینی بچوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں؟۔
عبدالباری عطوان نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ مختلف ممالک کے عرب شائقین نے قابض حکومت اور اس کے میڈیا کو جو پیغام دیا وہ یہ تھا کہ ’’تم اور تمہاری حکومت قاتل ہیں، آپ نے مقبوضہ فلسطین میں ہمارے بھائیوں کے خلاف جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہے جس کی دستاویزات آڈیو اور ویڈیو کے ساتھ موجود ہیں، ہم آپ سے نفرت کرتے ہیں اور آپ کے دشمن ہیں نیز ہم نہیں چاہتے کہ آپ کسی عرب ملک میں رہیں، انہوں نے واضح کیا کہ صیہونی حکومت اور اسرائیلی آباد کاروں کا خیال ہے کہ خلیج فارس کے ممالک کے عوام ان کے ساتھ دوستی اور گہرے تعلقات بن چکے ہیں، صیہونیوں کا دعویٰ ہے کہ وہ ذہین ترین لوگ ہیں جنہوں نے عرب ممالک کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے معاہدے کیے ہیں اور ان کے دارالحکومتوں میں اپنے سفارت خانے کھولے ہیں لیکن ان میں سے کسی کا مطلب یہ نہیں کہ سمجھوتہ کرنے والے ممالک کی حکومتیں اپنے عوام کی نمائندگی کرتی ہیں اور ان کی خواہشات کی عکاسی کرتی ہیں۔
عطوان نے مزید کہا کہ صہیونی صحافیوں نے درست بات کہی اور بہت احتیاط کے ساتھ اپنی رپورٹس میں اعلان کیا کہ وہ (عرب اور مسلمان شائقین) ہمیں پسند نہیں کرتے اور ہمیں نہیں چاہتے،انہوں نے ہمیں یقین دلایا کہ اسرائیل نام کی کوئی چیز نہیں ہے بلکہ اس سرزمین کا نام فلسطین ہے،عرب زبان کے اس تجزیہ کار نے کہا کہ یہ عجیب بات ہے کہ اسرائیلی اور ان کے حکام قطر میں ہونے والے ورلڈ کپ میں عرب اور مسلمان شائقین کے دل و دماغ میں عرب فلسطینی آئیڈیل کی مضبوط موجودگی سے حیران ہیں، اسرائیلی جو دنیا کے ذہین ترین لوگ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور دنیا کے جدید ترین معلوماتی اور نگرانی کے آلات کے مالک ہیں نیز عرب دنیا میں ہونے والی چھوٹی سے چھوٹی حرکت سے بھی واقف ہیں، ثابت کر دیا کہ ان کے تمام دعوے جھوٹے ہیں، جو باتیں وہ کہتے ہیں وہ دراصل ان کے خواب ہیں نہ کہ حقیقت۔
عطوان نے اپنے تجزیے میں اس بات پر تاکید کی کہ ہم صیہونی شہریوں اور حکام کو انتباہ دیتے ہیں کہ آنے والے دنوں، ہفتوں اور مہینوں میں فلسطینی مزاحمت مزید مضبوط ہوگی اور عربوں کی آپ سے نفرت اور بیزاری میں شدید اضافہ ہوگا، غاصب دشمن کے ساتھ محاذ آرائی کے میدان میں مغربی کنارے کے نوجوانوں کے داخلے میں اضافہ ہوگا، آج گروپ کا نام عرین الاسود، ہے کل احرار الجلیل اور پرسوں تمور الجلیل کا نام یاد رکھیں۔
عطوان نے اپنے تجزیہ کے آخر میں تاکید کرتے ہوئے کہا کہ آخر میں ہم صیہونیوں سے کہتے ہیں کہ جس ملک کے ساتھ چاہیں امن معاہدے پر دستخط کریں لیکن ایک بات اچھی طرح یاد رکھیں کہ عرب قومیں آپ کے ساتھ کبھی نارمل نہیں ہوں گی اور نہ ہی کوئی نہ صرف فلسطین میں بلکہ کسی بھی دوسرے عرب ملک میں آپ کا استقبال نہیں کرے گا کیونکہ آپ نے یہ معاہدے غلط فریقوں کے ساتھ کیے ہیں اور یہ معاہدے آپ کو امن، سلامتی اور بقا نہیں دیں گے۔