لاہور: (سچ خبریں) لاہور ہائیکورٹ نے پنجاب پولیس کو ملزمان کی گرفتاری کی ویڈیو لازمی بنانے کے احکامات جاری کر دئیے ہیں ، جسٹس طارق سلیم شیخ نے 8 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کر دیا۔
لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ویڈیوز سے حاصل ڈیٹا سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کا پیٹرن معلوم ہو سکتا ہے، ان پیٹرنز سے پالیسی سازوں کو اہلکاروں کی ٹریننگ اور پالیسی بنانے میں مدد ملے گی، ویڈیو کے تجزیے سے حکام نظام میں موجود مسائل سے آگاہی حاصل کر سکتے ہیں، سپریم کورٹ نے حالیہ فیصلے میں منشیات کے کیسز میں ویڈیو گرافی کی اہمیت پر زور دیا ہے، ڈی جی اے این ایف نے منشیات کی ریڈ کیلئے ویڈیو گرافی کے ایس او پیز جاری کر رکھے ہیں، پنجاب پولیس کا بھی جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہونا وقت کی ضرورت ہے۔
عدالت نے اپنے فیصلے میںمزید کہا ہے کہ پنجاب حکومت کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ پولیس کو ترجیحی بنیادوں پر پہننے والے کیمرے مہیا کرے، ان کیمروں سے بننے والی ویڈیو کے استعمال کے ایس او پیز بنائے جائیں، پولیس ٹیم کا رہنما ہر آپریشن پر یقینی بنائے کہ آپریشن کی فوٹیج بنائی گئی ہے، اگر ویڈیو ریکارڈ نہ ہو پائے تو کیس ڈائری میں اس کا درج ہونا ضروری ہے، جن جگہوں پر سیف سٹی کیمرے موجود ہیں تفتیشی افسر ان کی فوٹیج کو کیس ریکارڈ کا حصہ بنائے۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں حکم دیا ہے کہ پنجاب حکومت کو 6 ماہ میں پولیس کوباڈی کیمرے اور ڈیش بورڈکیمرے فراہم کئے جائیں۔فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستان میں فوجداری میں جھوٹی شکایت کی بھرمار ہے، اس کی روک تھام کیلئے ریفارمز اور شفافیت کو بڑھانا ہوگا، ویڈیو گرافی منشیات کے جھوٹے کیسز سے نمٹنے کا بہترین ذریعہ ہے، پولیس اورمنشیات کے ملزمان کے درمیان انٹرایکشن میں ویڈیوگرافی سے جھوٹے کیسوں سے بچاجاسکتاہے۔