اسلام آباد: (سچ خبریں) وفاقی حکومت نے اکتوبر میں سابق واپڈا ڈسٹری بیوشن کمپنیوں (ڈسکوز) کے صارفین سے ایک روپے 83 پیسے فی یونٹ اضافی قیمت وصول کرنے کی استدعا کرتے ہوئے رپورٹ کیا ہے کہ چینی پاور پروڈیوسرز کو تقریباً 360 ارب روپے (تقریباً 1.25 ارب ڈالر) کے بقایا جات ادا کرنے ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی (سی پی پی اے) کی اگست میں استعمال ہونے والی بجلی کے لیے ڈسکوز کے ٹیرف میں اضافی 28.3 ارب روپے یا 1.83 روپے فی یونٹ فیول لاگت ایڈجسٹمنٹ کی وصولی کی درخواست پر عوامی سماعت کے دوران نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے نوٹ کیا کہ ٹرانسمیشن رکاوٹوں کی وجہ سے متعدد سستے پاور پلانٹس کو استعمال نہیں کیا گیا، جس کی وجہ سے صارفین پر غیر ضروری بوجھ پڑا۔
نیپرا اعداد و شمار کی تصدیق اور جائزے کے بعد چند دنوں میں اپنے فیصلے کا اعلان کرے گا۔
سی پی پی اے نے نشاندہی کی کہ مقامی ذرائع سے زیادہ بجلی کی پیداوار کی وجہ سے رواں برس اگست میں ایندھن کی قیمت تقریباً 8.29 روپے فی یونٹ تھی، جو گزشتہ برس اسی ماہ کے 9.9 روپے فی یونٹ کے مقابلے میں سستی تھی۔
نیپرا کی طرف سے اس بات کی نشاندہی کی گئی کہ جنوب میں تقریباً 3 ہزار میگاواٹ نسبتاً سستی بجلی (تھر کول، ونڈ اور سولر) ٹرانسمیشن کی رکاوٹوں کے سبب شمال میں کھپت کے مراکز کو منتقل نہیں کیا جا سکا، جس کی وجہ سے 13 فیصد زائد طلب کو پورا کرنے کے لیے مہنگے فرنس آئل پر مبنی پلانٹس کو چلانا پڑا۔
تاہم اس کے ساتھ ہی کراچی سمیت جنوبی علاقوں میں صارفین پر شدید لوڈ شیڈنگ کی گئی، اس بات پر بھی روشنی ڈالی گئی کہ جنوبی علاقوں میں زیادہ سپلائی لوڈ شیڈنگ کو کم کر سکتی ہے اور اس طرح شمالی علاقوں میں جنریشن کی ترسیل کی ضرورت کو کم کیا جا سکتا ہے۔
نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی نے رپورٹ کیا کہ دیگر وجوہات کے علاوہ سخت درآمدی کنٹرول کی وجہ سے گرڈ کی رکاوٹوں کو دور نہیں کیا جا سکا اور وہ گزشتہ برس ان درآمدات کے لیے لیٹر آف کریڈٹ نہیں کھول سکے، جس میں تقریباً 80 فیصد ٹرانسمیشن آلات شامل تھے۔
سی پی پی اے کے نمائندوں نے رپورٹ کیا کہ چینی آئی پی پیز کو تقریباً 360 ارب روپے کی ادائیگیاں کرنی ہیں، لیکن وہ سرکاری اور نجی شعبے کے صارفین سے قابل وصولی اور کل ڈیفالٹ رقوم سے لاعلم تھے۔
نیپرا کے ممبران نے نشاندہی کی کہ اس سال جولائی میں سالانہ بیس ٹیرف میں 26 فیصد اضافے کے باوجود بھی ایف سی اے زیادہ ہے، جس کی بنیاد پر موجودہ سال کے لیے ایندھن کا حوالہ دیا گیا تھا۔
نیپرا پہلے ہی آنے والے مہینوں میں صارفین سے وصول کی جانے والی 18 فیصد سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کی منظوری دے چکا ہے، ہائیڈرو، کوئلے، گیس، جوہری، ہوا، شمسی اور بیگاس جیسے سستے ایندھن سے 74 فیصد سے زیادہ بجلی پیدا کرنے کے باوجود بھی ایف سی اے زیادہ ہے۔
سی پی پی اے نے ڈسکوز کی جانب سے اطلاع دی کہ صارفین سے اگست میں 6.65 روپے فی یونٹ ایندھن کی قیمت وصول کی گئی تھی، لیکن اصل قیمت 8.47 روپے فی یونٹ رہی، اس لیے 1.83 روپے فی یونٹ اضافی چارج کرنے کی اجازت دی جائے۔
نیپرا کی طرف سے یہ اضافی لاگت اس کے باوجود بھی ہے کہ ملک کے ہائیڈرو پاور پلانٹس نے اگست میں مجموعی قومی پاور گرڈ میں تقریباً 38 فیصد حصہ ڈالا، جو جولائی میں 37 فیصد اور جون میں 26.96 فیصد تھا، ہائیڈرو پاور میں ایندھن کی کوئی قیمت نہیں ہے۔
ایل این جی پر مبنی بجلی کی پیداوار اگست میں 17.17 فیصد کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہی، جو جولائی میں 19.67 فیصد اور جون میں 18.55 فیصد تھی۔
اگست میں 12.79 فیصد کا تیسرا سب سے بڑا حصہ نیوکلیئر پاور پلانٹس سے آیا جو جولائی میں 14.2 فیصد اور اس سال جون میں 13.54 فیصد تھا۔
اس کے بعد مقامی کوئلے پر مبنی پیداوار 10.3 فیصد اور درآمدی کوئلے کی پیداوار 4.51 فیصد رہی۔
یہ پہلا موقع ہے جب نیپرا نے مقامی اور درآمدی کوئلے پر مبنی بجلی کی پیداوار کی الگ الگ رپورٹنگ شروع کی ہے جس میں بڑے پیمانے پر فرق ظاہر ہوتا ہے۔
اس سال جولائی میں کوئلے پر مبنی مجموعی (مقامی اور درآمدی) پیداوار جون میں 17.75 فیصد کے مقابلے میں 14.69 فیصد رہی۔
مقامی گیس سے بجلی کی پیدوار نے نیچے کا سفر برقرار رکھا اور اگست میں نیشنل گرڈ میں صرف 7.60 فیصد حصہ ڈالا جو جولائی میں 7.61 فیصد، جون میں 8.54 فیصد، مئی میں 10.35 فیصد اور اپریل میں 12 فیصد تھا۔