?️
اسلام آباد: (سچ خبریں) محدود گنجائش کے باعث نئے ٹیکس اقدامات کے لیے شہباز شریف کی قیادت میں قائم مخلوط حکومت نے ٹیکسیشن کو نئے انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے، ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے کے بجائے اب برابری کے نام پر اقدامات کیے جا رہے ہیں، تاکہ کم آمدنی والے طبقے پر ٹیکس بڑھانے کا جواز پیش کیا جا سکے۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق یہ تبدیلی اس وقت سامنے آئی ہے جب حکومت مالی سال 26-2025 کے لیے تقریباً 14 کھرب روپے کی تاریخی محصولات کا ہدف حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے، جو رواں مالی سال کے اندازے سے 22 فیصد زیادہ ہے۔
عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے پروگرام کے تحت کیے گئے وعدوں کے مطابق حکومت نے 4.2 فیصد جی ڈی پی نمو اور 7.5 فیصد مہنگائی کی بنیاد پر خودکار محصولات کا تخمینہ 12.845 کھرب روپے لگایا ہے۔
اس بڑے ہدف کے حصول کے لیے حکومت کو 655 ارب روپے کے اضافی ٹیکس اقدامات اور مزید 400 ارب روپے نفاذ کے ذریعے جمع کرنا ہوں گے، یہ اعداد و شمار آج کے کابینہ اجلاس میں فائنل کیے جائیں گے، جس کے بعد وزیر خزانہ محمد اورنگزیب بجٹ تقریر کریں گے۔
فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو ٹیکس اہداف کے حصول میں شدید مشکلات کا سامنا ہے کیونکہ موجودہ قوانین کے مؤثر نفاذ پر شکوک و شبہات برقرار ہیں۔
فیلڈ آپریشنز کی سست کارکردگی پر خدشات کے باوجود حالیہ برسوں میں کوئی مؤثر نفاذی اقدامات نہیں کیے گئے، فیلڈ افسران کو آپریشنل گاڑیاں دینے کی تجویز بھی تنقید کے بعد واپس لے لی گئی تھی۔
دوسری جانب وزارت خزانہ کے حکام اب بھی پرامید اندازے پیش کر رہے ہیں، گویا ٹیکس آمدنی میں اچانک اضافہ ہو جائے گا، حالانکہ معیشت کو کئی مشکلات درپیش ہیں، بڑی صنعتیں مسلسل زوال کا شکار ہیں جبکہ رئیل اسٹیٹ اور صارف اشیا کے شعبوں پر بھاری ٹیکسوں نے معاشی سرگرمی کو مزید سست کر دیا ہے۔
جب کلیدی صنعتیں سکڑ رہی ہوں اور صارف اعتماد کمزور ہو رہا ہو، تو اگلے مالی سال کے لیے بڑے محصولات کے اہداف کا حصول غیر یقینی معلوم ہوتا ہے۔
مالی سال 26-2025 کے لیے حکومت کا ٹیکس بمقابلہ جی ڈی پی کا ہدف 12.3 فیصد رکھا گیا ہے، جس میں ایف بی آر کا حصہ 10.6 فیصد، صوبائی محصولات اور پیٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی (پی ڈی ایل ) شامل ہیں۔
ریونیو کے مزید متاثر ہونے کا خدشہ اس وجہ سے بھی ہے کہ وفاقی پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) کے لیے مختص رقم کم ہے اور نئے منصوبوں کی تعداد محدود ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وفاقی پی ایس ڈی پی پنجاب اور سندھ کے ترقیاتی بجٹ سے بھی کم ہے۔
اسی دوران، مرکز نے پنجاب اور سندھ سے ڈیموں کی تعمیر کے لیے مالی تعاون طلب کیا ہے جو مرکز کی مالی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے، یہ سب عوامل وفاقی حکومت پر اضافی دباؤ ڈال رہے ہیں، جو ٹیکس وصولی اور ترقیاتی اخراجات کے درمیان توازن قائم کرنے کی جدوجہد کر رہی ہے۔
ٹیکس نیٹ میں توسیع سے برابری کی جانب
ٹیکس پالیسی میں شامل حکام کا کہنا ہے کہ اب حکومت ٹیکس نیٹ میں وسعت کی پالیسی کو پیچھے چھوڑ کر برابری پر مبنی حکمت عملی اپنا رہی ہے۔
اس نئے نقطہ نظر کے تحت کم شرح والے ٹیکسوں میں اضافہ کیا جائے گا جس سے ایف بی آر کو زیادہ آمدنی حاصل ہونے کی توقع ہے۔
پچھلی حکمت عملی میں خوراک، اسٹیشنری اور کتابوں جیسے ضروری سامان پر بھی ٹیکس چھوٹ منظم انداز میں ختم کی گئی تاکہ ٹیکس بیس کو وسعت دی جاسکے۔
اب دوسرے مرحلے میں، ایف بی آر برابری کے اصول کو استعمال کر کے مختلف شعبوں میں کم شرح والے ٹیکسوں میں اضافہ کر رہا ہے، اس حکمت عملی کے تحت منافع، اسٹاک مارکیٹ اور دیگر مالی لین دین پر ودہولڈنگ ٹیکس میں اضافہ کیا جائے گا۔
اس کے علاوہ، تمباکو کی بہتر پروسیسنگ کے لیے بڑی مشینوں (تھریشرز) کے استعمال کو لازم قرار دینے اور یونٹ لیول پر ٹیکس عائد کرنے کی تجویز دی گئی ہے تاکہ تمباکو کے شعبے سے زیادہ ریونیو حاصل کیا جا سکے۔
ایف بی آر نے بینکنگ ذرائع سے لین دین کے نئے اصول پر عمل درآمد کی بھی منصوبہ بندی کی ہے، جس میں ڈیجیٹل لین دین پر کم اور نقد لین دین پر زیادہ ٹیکس لگے گا۔
یہ طریقہ کار فائلر اور نان فائلر کے موجودہ فرق کی جگہ لے گا۔
لیکن اصل امتحان یہ ہوگا کہ آیا ٹیکس شرحوں میں یہ اضافہ محصولات بڑھا سکے گا یا معیشت کو مزید دباؤ میں لے آئے گا، خاص طور پر ایسے وقت میں جب صنعت اور سرمایہ کاری کے شعبے پہلے ہی مشکلات کا شکار ہیں۔
ایف بی آر نے نئے ٹیکس اقدامات کے تحت سولر پینلز، تیار شدہ کھانے اور کاربن پر ٹیکس عائد کرنے کی تیاری کی ہے، تاکہ مالیاتی دباؤ کے درمیان ریونیو ذرائع کو وسیع کیا جاسکے۔
یہ ٹیکس اقدامات صارفین اور کاروباری حلقوں میں تشویش پیدا کر سکتے ہیں، خاص طور پر قابلِ تجدید توانائی کے شعبے میں سولر پینلز پر ٹیکس، مہنگی بجلی اور توانائی کے بحران سے دوچار پاکستان میں صاف توانائی کو فروغ دینے کی حوصلہ شکنی کرے گا، اسی طرح، تیار شدہ خوراک پر اضافی ٹیکس سے مہنگائی میں اضافہ ہو گا، جس سے عام لوگوں کے بجٹ پر دباؤ بڑھے گا۔
البتہ، زرعی شعبے کو عارضی ریلیف دینے کے لیے حکومت نے کھاد اور کیڑے مار ادویات پر ٹیکس چھوٹ کے لیے آئی ایم ایف سے رعایت حاصل کر لی ہے۔
یہ رعایت مزید ایک سال کے لیے دی گئی ہے، تاکہ بڑھتی ہوئی لاگت اور غیر یقینی مارکیٹ کے حالات کے باعث پریشان کسانوں کو کچھ سہولت مل سکے۔
دوسری جانب، تنخواہ دار طبقے کے لیے کچھ ریلیف کی امید ہے۔ حکام کے مطابق نچلے ٹیکس سلیب میں ٹیکس استثنیٰ کی حد بڑھائی جا سکتی ہے اور تقریباً ایک لاکھ روپے ماہانہ آمدن والوں کے لیے شرح میں کمی کی تجویز بھی زیر غور ہے۔
مشہور خبریں۔
حکومت اور جہانگیر ترین کے درمیان ایک اور محاذ کھل گیا
?️ 13 اگست 2021اسلام آباد (سچ خبریں) تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں دائر کردہ
اگست
MI6 کی پہلی خاتون ممکنہ سربراہ باربارا ووڈوارڈ کون ہیں؟
?️ 12 مئی 2025 سچ خبریں:باربارا ووڈوارڈ ، اقوام متحدہ میں برطانیہ کی سفیر، ممکنہ
مئی
جی ایچ کیو حملہ کیس؛ عمران خان اور شاہ محمود قریشی سمیت دیگر ملزمان کی پیشی کا حکم
?️ 9 اپریل 2025اسلام آباد: (سچ خبریں) عدالت نے جی ایچ کیو حملہ کیس میں
اپریل
مسلسل بمباری کی وجہ سے کمال عدوان ہسپتال کی حالت ناگفتہ بہ
?️ 24 نومبر 2024سچ خبریں: صہیونی فوج نے غزہ کی پٹی میں خاص طور پر
نومبر
السنوار کے قتل کے بعد عبرانی میڈیا کا تجزیہ
?️ 20 اکتوبر 2024سچ خبریں: عبرانی زبان کے اخبار کالکالسٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق
اکتوبر
مغربی سفارتکاروں کے سعودی عرب کے دورے اور لبنان کی صورتحال
?️ 8 جولائی 2021سچ خبریں:ایک لبنانی اخبار نے سعودی عرب میں مغربی سفارتی عہدہ داروں
جولائی
پاکستان نے بھارت کی لاہور دھماکے میں ملوث ہونے کی تردید کو مسترد کردیا
?️ 9 جولائی 2021اسلام آباد (سچ خبریں) پاکستان نے لاہور بم دھماکے میں بھارت کی
جولائی
بحرین نے لاپیڈ کے وزیراعظم منتخب ہونے پر مبارکباد پیش کی
?️ 22 جولائی 2022سچ خبریں: بحرین کے ولی عہد اور وزیر اعظم سلمان بن حمد
جولائی