ٹرمپ کو نوبل انعام کیلئے نامزد کرنے کے فیصلے پر نظرثانی کی جائے، سینئر سیاستدانوں کا مطالبہ

?️

اسلام آباد: (سچ خبریں) ایران کے خلاف اسرائیل کی جنگ میں امریکی شمولیت کے بعد پاکستانی سیاستدانوں نے حکومت کی جانب سے ڈونلڈ ٹرمپ کو 2026 کے نوبل امن انعام کے لیے نامزد کرنے کے فیصلے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اس پر نظرثانی کا مطالبہ کردیا۔

حکومت نے یہ فیصلہ گزشتہ ماہ پاک-بھارت جنگ کے دوران ٹرمپ کی ’فیصلہ کن سفارتی مداخلت‘ کو سراہنے کے لیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو 2026 کے نوبل امن انعام کے لیے نامزد کرنے کی سفارش کر دی۔

حکومت کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی سفارتی کوششوں سے پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی میں کمی آئی، ٹرمپ نے اسلام آباد اور نئی دہلی کے ساتھ سفارتی روابط سے جنگ کا خطرہ ٹال دیا۔

پاکستان نے اعتراف کیا کہ صدر ٹرمپ کی قیادت نے جنوبی ایشیا کو ایٹمی تصادم سے بچایا، حکومت پاکستان نے مسئلہ کشمیر کے حل میں ٹرمپ کی سنجیدہ دلچسپی کو سراہا۔

ٹرمپ کا کردار عالمی امن اور مشرق وسطیٰ میں استحکام کے لیے اہم قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ صدر ٹرمپ کی امن پسند قیادت کو پاکستان نے ’اصل ثالث‘ قرار دے دیا۔

تاہم، جب امریکا نے ایران کے فردو، اصفہان اور نطنز کے جوہری مراکز پر بمباری کی اور ٹرمپ کی جانب سے دعویٰ کیا گیا کہ یہ مقامات ’مکمل طور پر تباہ کر دیے گئے ہیں‘، تو ملک بھر کے سیاسی رہنماؤں نے حکومتی فیصلے پر تحفظات کا اظہار کیا۔

سینئر سیاستدان اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے مطالبہ کیا کہ حکومت یہ فیصلہ واپس لے۔

ان کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ کا امن کا دعویٰ جھوٹا ثابت ہوا ہے لہذا نوبل انعام کی تجویز واپس لی جائے۔ْ

انہوں نے کہا کہ صدر ٹرمپ کی حالیہ ملاقات اور فیلڈ مارشل عاصم منیر کے ساتھ ظہرانے نے ’پاکستانی حکمرانوں کو اس قدر خوش کیا‘ کہ انہوں نے امریکی صدر کو نوبل انعام کے لیے نامزد کرنے کی سفارش کر دی۔

جے یو آئی (ف) کے سربراہ نے کہا کہ ٹرمپ نے صدارتی انتخاب ’امن‘ کے نعرے کے ساتھ جیتا تھا لیکن ان کا یہ دعویٰ ’جھوٹا ثابت ہوا‘۔

ان کا کہنا تھا کہ جب پاکستان نے ’بھارت کی دفاعی قوت کو تباہ کیا‘، تو صدر ٹرمپ نے مداخلت کرتے ہوئے جنگ بندی کا اعلان کر دیا۔

تاہم، ٹرمپ نے فلسطین، شام، لبنان اور ایران پر اسرائیلی حملوں کی حمایت کی، یہ کیسا امن ہے؟

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ جب افغانستان اور فلسطین کے عوام کا خون امریکا کے ہاتھوں پر ہے، تو وہ خود کو امن کا علمبردار کیسے کہہ سکتا ہے؟

ان کا کہنا تھا کہ ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ اپنی مذاکراتی مہارت سے یوکرین اور غزہ میں جنگوں کا فوری خاتمہ کرے گا، حالانکہ دونوں جنگیں ان کی صدارت کے 5 ماہ گزرنے کے باوجود جاری ہیں جب کہ امریکا نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں کئی بار غزہ میں جنگ بندی کی قراردادوں کو ویٹو کیا ہے۔

’ٹرمپ اب امن کا علمبردار نہیں رہا‘

حکومت کے فیصلے پر نظرِ ثانی کے مطالبات دیگر سیاستدانوں کی جانب سے بھی سامنے آئے۔

سابق سینیٹر مشاہد حسین نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر لکھا ’چونکہ ٹرمپ اب امن کے ممکنہ علمبردار نہیں رہے، بلکہ ایک ایسے رہنما بن چکے ہیں جنہوں نے جان بوجھ کر ایک غیرقانونی جنگ مسلط کی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس لیے حکومتِ پاکستان کو ان کی نوبل نامزدگی پر نظرِ ثانی کرنی چاہیے، اور فوری طور پر یہ فیصلہ واپس لینا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ ٹرمپ نیتن یاہو اور اسرائیلی جنگی لابی کے جال میں پھنس گئے ہیں، اور اپنی صدارت کی سب سے بڑی غلطی کر بیٹھے ہیں، اب ٹرمپ امریکا کے زوال کی صدارت کریں گے۔

مشاہد حسین نے ایک اور پوسٹ میں کہا کہ ٹرمپ نے ’دھوکہ دہی سے کام لیا اور اپنے اس وعدے سے غداری کی کہ وہ نئی جنگیں شروع نہیں کریں گے‘۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کے سابق چیئرمین مشاہد حسین اس سے قبل یہ بھی کہہ چکے تھے کہ اگر یہ نامزدگی ’ٹرمپ کی انا کو خوش کرنے کے لیے ہے، تو ٹھیک ہے‘۔

تحریک انصاف کے رکنِ قومی اسمبلی علی محمد خان نے ایکس پر لکھا ’فیصلے پر نظرثانی کریں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ایران پر امریکی حملے اور غزہ میں اسرائیلی قتلِ عام کی مسلسل امریکی حمایت کے بعد ٹرمپ کو نوبل امن انعام کے لیے نامزد کرنا قابلِ افسوس ہے۔

سابق سینیٹر افراسیاب خٹک نے کہا کہ صدر ٹرمپ کو نوبل امن انعام کے لیے نامزد کرنے میں پاکستانی حکمران اشرافیہ نے جو خوشامدانہ رویہ اختیار کیا ہے، وہ بین الاقوامی سفارت کاری کے عمومی اصولوں کا حصہ نہیں۔

سینئر سیاستدان نے نشاندہی کی کہ یہ سب سے زیادہ شرمناک بات تھی کہ یہ نامزدگی اس وقت کی گئی جب چند ہی گھنٹوں بعد ٹرمپ نے ایرانی جوہری تنصیبات پر بمباری کا حکم دے دیا۔

جماعت اسلامی کے امیر نعیم الرحمٰن نے کہا ہے کہ یہ فیصلہ ’ہماری قومی عزت و وقار کو مجروح کرتا ہے‘۔

پاکستان کی سابق سفیر ملیحہ لودھی نے اس اقدام کو ’بدقسمت‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ عوامی رائے کی عکاسی نہیں کرتا۔

مشہور خبریں۔

عراق میں ہمارا نیا مشن ہے: پینٹاگون

?️ 5 جنوری 2022سچ خبریں:پینٹاگون کے ترجمان نے منگل کی شام ایک نیوز کانفرنس کو

مزاحمتی گروپوں میں تفرقہ ڈالنے کی صیہونی چال ناکام:برطانوی تجزیہ کار

?️ 22 مئی 2023سچ خبریں:مغربی کنارے میں رہنے والے ایک انگریز تجزیہ کار رابرٹ انلاکش

سینیٹ انتخابات اور اعتما د کا ووٹ

?️ 8 مارچ 2021کراچی {سچ خبریں} سینیٹ انتخابات میں ایک بڑے سیٹ اَپ کے بعد

عدم اعتماد کا معاملہ، ن لیگ کو پارٹی کے اندر مخالفت کا سامنا

?️ 1 دسمبر 2022اسلام آباد: (سچ خبریں) مسلم لیگ ن کو پنجاب اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد لانے

آج صیہونی اسپتال اور ہیلی کاپٹر بہت مصروف ہیں؛ وجہ؟

?️ 19 اکتوبر 2024سچ خبریں: عبرانی زبان میڈیا نے مقبوضہ علاقوں کے اسپتالوں کے قریب

یوکرین پر لگنے والے روسی میزائل اورشنیک نے کیا نقصان کیا ہے؟پینٹاگون کا بیان

?️ 27 نومبر 2024سچ خبریں:پینٹاگون کی معاون ترجمان نے انکشاف کیا ہے کہ امریکہ اب

صنعاء کا محاصرہ اور امن کی بات کرنا دو متضاد چیزیں

?️ 16 مارچ 2022سچ خبریں: یمن کے نائب وزیر خارجہ حسین العزیز نے کہا کہ

ابومازن ایک خائن سے زیادہ کچھ نہیں : عطوان

?️ 26 اپریل 2025 سچ خبریں: عبدالباری عطوان، رای الیوم کے ایڈیٹر اور معروف فلسطینی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے