اسلام آباد: (سچ خبریں) وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور نے وزیراعظم کی 26 نومبر کے احتجاج کے حوالے سے گفتگو کو نامناسب قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس طرح کی بات چیت کرنا نامناسب ہے کہ احتجاج میں گولی نہیں چلی، اس طرح کی باتوں سے اجتناب کرنا چاہیے۔
اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے علی امین گنڈا پور نے کہا کہ 26 نومبر کی بات وزیر اعظم نے خود کی، میں نےکہا تھا کہ 58 زخمی اور 13 شہید ہیں، 45 تاحال لاپتا ہیں لیکن وزیر اعظم کی طرف سے اس طرح کی بات چیت نامناسب ہے کہ اسلام آباد میں احتجاج کے دوران گولی نہیں چلی۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کو اس طرح کی باتوں سے اجتناب کرنا چاہیے، اگر تحفظات ہیں تو بات کرنی چاہیے۔
وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا نے کہا کہ اپیکس کمیٹی کا اہم اجلاس تھا، سیکیورٹی ادارے ملکر کام کر رہے ہیں، پاکستان ترجیح ہے اس کے لیے مل کر بات کریں گے اور مل کر ہی دہشت گردی کے خاتمے کا فیصلہ ہوا ہے۔
علی امین گنڈاپور نے افغانستان سے مذاکرات میں ثالثی کی پیشکش کرتے ہوئے کہا کہ صوبے میں امن قائم کرکے رہیں گے اور اس کے لیے ہر حد تک جائیں گے۔
واضح رہے کہ آج اسلام آباد میں نیشنل ایکشن پلان کی اپیکس کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا تھا کہ پچھلے دو چار ہفتوں میں اسلام آباد پر جو یلغار ہوئی اس کے نتیجے میں سوشل میڈیا نے جھوٹ اور حقائق کو مسخ کرنے کا جو طوفان اٹھایا حالیہ وقتوں میں اس کی نظیر نہیں ملتی، اگر اس طوفان کو نہ روکا تو ہماری تمام کاوشیں دریا بُرد ہوجائیں گی۔
انہوں نے کہا کہ ڈیجیٹل محاذ پر پاکستان کے خلاف جو زہر اگلا جارہا ہے، پاکستان سے باہر جو ایجنٹ بیٹھے ہیں، وہ دوست نما دشمن ہیں اور جس طرح وہ سوشل میڈیا پر مہم چلا رہے ہیں وہ بذات خود بہت بڑا چیلنج بن چکا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ ایجنٹ جھوٹ کے ذریعے حقائق کو مسخ کر رہے ہیں، اس جھوٹ اور حقائق مسخ کرنے کی بنیاد پر پاکستان خلاف بیانیہ بنایا جارہا ہے، سوالات اٹھوائے جارہے ہیں۔
یاد رہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے بانی اور سابق وزیر اعظم عمران خان کی رہائی کے لیے 24 نومبر کو بانی کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کی سربراہی میں پی ٹی آئی کے حامیوں نے پشاور سے اسلام آباد کی جانب مارچ شروع کیا تھا اور 25 نومبر کی شب وہ اسلام آباد کے قریب پہنچ گئے تھے تاہم اگلے روز اسلام آباد میں داخلے کے بعد پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ پی ٹی آئی کے حامیوں کی جھڑپ کے نتیجے میں متعدد افراد، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار زخمی ہوئے تھے۔
26 نومبر کی شب بشریٰ بی بی، علی امین گنڈاپور اور عمر ایوب مارچ کے شرکا کو چھوڑ کر ہری پور کے راستے مانسہرہ چلے گئے تھے، مارچ کے شرکا بھی واپس اپنے گھروں کو چلے گئے تھے۔
اس کے بعد وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور اور پی ٹی آئی کے جنرل سیکریٹری سلمان اکرم راجا کے علاوہ سردار لطیف کھوسہ نے فورسز کے اہلکاروں کی ’مبینہ‘ فائرنگ سے ’متعدد ہلاکتوں‘ کا دعویٰ کیا تھا، تاہم وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی اور وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا اللہ تارڑ نے ان دعوئوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایسا کچھ ہوا ہے تو ’ثبوت کہاں ہیں؟‘